یسین احمد
علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے ؎
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
جس بحر کی موجود میں اضطراب نہیں ہوتا ، ارتعاش نہیں ہوتا وہ اُس رکے ہوئے پانی کی طرح ہے جس میں غلاظت جمع ہونے لگتی ہے ۔ جس میں سڑانڈ پیدا ہونے لگتی ہے اور تعفن پھیلنے لگتا ہے ۔ اگر آدمی میں اضطراب ہو ارتعاش ہو ، تڑپ ہوتو کچھ کرنے کی جستجو ہوتو وہ قدم بہ قدم آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ ف س اعجاز ایک ایسی شخیصت کا نام ہے جو فعال ہے ، متحرک ہے ۔ جو ہر دم کچھ ایسا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں ۔ جس میں تنوع ہو ، مستحن ہو اور منفرد ہو ۔
ف س اعجاز شاعر ہیں ، فکشن نگار ہیں ، مدیر ہیں، مترجم ہیں ، وقتاً فوقاً ایسے ادبی کارنامے انجام دے لیتے ہیں کہ قاری نہال ہوجاتا ہے ۔ اونگتھا ہوا ناقد ہر بڑا کر قلم اٹھالیتا ہے ۔ بہت عرصہ پہلے اُن کی ایک کتاب ادیبوں کی حیات معاشقہ منظر پر آئی تھی ۔ جس کا پہلا ایڈیشن 1993 میں شائع ہوا تھا ۔ اب اس کتاب میں کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جس سے کتاب کی ہئیت بدل گئی ہے ۔ نیا پیرہن ، نیا رنگ و آہنگ اور نئی شکل و صورت ۔
ف س اعجاز نے اس کتاب میں بڑی خوشگوار تبدیلیاں کی ہیں ۔ کچھ پرانے مضامین تحریف ہیں کچھ نئے مضامین کا بھی اضافہ ہوا ہے ۔ قارئین اور مشاہیر ان ادب کے تاثرات اور خطوط بھی اس نئے ایڈیشن میں شامل کئے ہیں ۔ جس سے کتاب کی افادیت دگنی ہوگئی ہے ۔ راقم کو خطوط بے حد دلچسپ لگے ۔ کچھ خطوط کا ذکر کرنا چاہوں گا جس میں سرفہرست نجیب رامیش کا خط ہے جو مطالعہ کی چیز ہے ۔ نجیب رامش نے اپنے اس خط میں کیا لکھا ہے میں یہاں نہیں دہراؤں گا ۔ صرف اتنا کہوں گا کہ نجیب رامش نے غیر جبلی بات نہیں کہی ہے ۔ بلراج ورما کا خط کر شن چندر کے بارے میں دلچسپی سے خالی نہیں ۔ سید محمد عقیل کا خط بھی دلچسپ ہے ۔
اس کتاب میں دو پیش لفظ ہیں پہلے ایڈیشن کا پیش لفظ جو بعنوان عشق بن یہ ادب نہیں آتا ، تحریف شدہ ہے ۔ دوسرے ایڈیشن کے پیش لفظ میں ف س اعجاز لکھتے ہیں ۔ ’’ ترمیم و اضافہ نے اس نئی پیش کش کو پچھلی پیش کش سے وقیع اور مقصد میں بلند تر بنادیا ۔ کسی نے کہا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے کہ میرا خیال ہے کہ کہنے والے نے یہ بات رواروی میں کہہ دی ہے ۔ بے دھیانی کے عالم میں کہہ دی ہے ۔ تمام کاروبار دنیا نام سے چلتے ہیں ۔ نام سے چارم ہے ۔ دام ہے ۔ بھرم ہے ۔ مقام ہے ۔ رب العالمین کے بھی 99نام ہیں ۔ جو متبرک ہیں ۔ مقدس ہیں ۔ معطر ہیں ۔ موثر ہیں ۔ مبارک ہیں ۔ یہ کتاب کے نام کا کرشمہ ہی تو تھا کہ پہلے ایڈیشن کی رسم اجراء میں کئی لوگ بن بلائے آگئے تھے ۔ کتابیں لوٹ لی گئی تھیں ۔ بکیں تو برائے نام ۔
عشق کے معاملات بہت نرالے ہوتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے موسم آتے ہیں جب اُس کے ساکت پانیوں میں دائرے بننے لگتے ہیں ۔ یہ عشق مجازی کی کیفیت ہے ۔ عورت اُس کے اعصاب پر سوار ہوتی ہے اس سے انکار ممکن نہیں ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے ۔
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اس شعر پر سعادت حسین منٹونے بڑا دلچسپ فقرا کسا تھا کہ مرد کے اعصاب پر مرد نہیں تو کیا ہاتھی گھوڑے سوار ہوں گے ۔
( دیکھئے شام شہریاراں از مشتاق احمد یوسفی ، ص ۷۸)
عورت بظاہر ہلکی پھلکی نظر آتی ہے لیکن جب مرد کے اعصاب پر سوار ہوتی ہے تو بھاری چٹان بن جاتی ہے اور مردیوں کراہتا ہے جیسے کسی ہاتھی گھوڑے کے نیچے یا کسی پہاڑ تلے دب گیا ہو ۔ بھرتری ہری کی نظم جس کا ترجمہ ف س اعجاز نے کیا ہے ۔
میں خود کو / کسی خوف ناک لمبے / من موجی چکریلے / سیاہ کنول جیسے چمکدار سانپ سے ڈسوانا پسند کروں گا / بہ نسبت کسی عورت کے تیر نظر کا شکار ہونے کے ۔
پروفیسر محمد حسن ، پروفیسر عنوان چشتی ، ڈاکٹر قمر جہاں ، جوش ملیح آبادی ، گوپی چند نارنگ ، وحید قریشی ، حقانی القاسمی ، وہاب نسیم ، اقبال متین ، نعیم کوثر ، مشرف عالم ذوقی ، ایم جے اکبر اور معصوم شرقی کے علاوہ اور کئی اہل قلم کی تحریریں اس کتاب میں شامل ہیں ۔ کچھ مضامین میں ایسی باتیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جس سے اختلاف کی گنجائش ہے مگر مضامین کی حرمت اور فکر انگیزی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ پروفیسر عنوان چشتی نے سرمد کے بارے میں بالکل بجا لکھا ہے کہ محض سیاسی مقاصد کیلئے اورنگ زیب نے سرمد پر امرا پرستی کے الزامات دائر کئے تھے ۔ تاریخ میں اس واقع کے ٹھوس ثبوت نہیں ملتے ۔ جوش کے معشوقوں پر وحید اختر کا تبصرہ نہایت ہی معقول ہے ۔
جوش ملیح آبادی کا ذکر چھڑا ہے تو میں ایک اور کتاب کا ذکر کرنا چاہوں گا اور وہ کتاب ہے گیان سنگھ شاطر کی سوانحی ناول ، جس کے بارے میں اس کتاب میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔ یادوں کی بارات ہو یا گیان سنگھ کی سوانحی ناول بہت بدنام ہوئے ہیں ۔ جنسی چٹخاروں سے بھرپور ، جھوٹ اور مبالغوں کے پلندے ہیں ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے جوش ملیح آبادی کے بارے میں لکھا ہے کہ جھوٹ کو ایسی سہولت سے اظہار کی زبان دی گئی گویا کوئی سچ کیا بولتا ہوگا ۔
گیان سنگھ شاطر کی کتاب میں کہاں تک سچائی ہے یہ گیان سنگھ شاطر جانے یا پھر وہ حضرات جو اس کتاب کو ترتیب دینے میں شاطر سے قریب رہے ۔ راقم واقف ہے کہ مشہور افسانہ نگار قدیر الزماں نے گیان سنگھ شاطر کی اس کتاب کو مرتب کرنے میں بڑی مدد کی تھی ۔
خالد سہیل کا مضمون ’’ علامہ اقبال ایک محبوبہ تین بیویاں چار شادیاں ‘‘ مطالعہ کی چیز ہے ۔ خالد سہیل نے لکھا ہے کہ ’’ ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ وہ شاعر مشرق جو ساری قوم کے مسائل کا حل پیش کرتا رہا اپنی رومانی ، جنسی اور زندگی کے مسائل کا ساری عمر کوئی تسلی بخش حل نہ تلاش کرسکا ۔ قاری جیسے جیسے اس مضمون کو پڑھتا جائے گا ویسے ویسے نئے نئے انکشافات کی پرتیں کھلتی جائیں گی ۔ بیک ا حساس نے کشن چند اور سلمی صدیقی کی ملاقاتوں اور شادی کے حالات کو قلم بند کیا ہے ۔ ’’ میں اور منیرہ ‘‘ کے عنوان سے اقبال متین کی تحریر بڑی دل گداڑ ہے ۔
ادیبوں کی حیات معاشقہ میں کئی نام ایسے ہیں جن کو پڑھتے ہی ذہن میں اُن کی عشق کی کہانیاں یا اُن کے محبوباؤں کے نام ذہن میں اُبھرتے آتے ہیں ۔ جیسے اختر شیرانی کی سلمی ، اقبال کی عطیہ ، قاضی نذر السلام کی نرگس بیگم اور پرمیلا اور ساحر لدھیانوی ۔ ساحر لدھیانوی نے تین چار عورتوں سے عشق کیا ہے پریم چودھری ، ایشررکور ، امرتا پریتم اور سدھا ملہوترہ ، اوم کشن راحت نے اس کتاب میں شامل مضمون بعنوان ’’ معاشقوں کا جادوگرساحر لدھیانوی ‘‘ میں لکھا ہے کہ جب بھی کوئی عورت اُن سے ہنس کر بات کرتی تو ساحر عشق کی داستانیں بنانا اور سننا شروع کردیتے ۔ ساحر فطرتاً ڈرپوک تھے ۔ جام و مینا کے دیوانے تھے لیکن ہاتھ بڑھاکر جام اُٹھانے کی ہمت نہیں تھی اور پھر ساحر نے جتنی بھی لڑکیوں سے یکطرفہ عشق کیا ہے وہ سب کی سب غیر مسلم تھیں اور ایسے وقت میں عشق کیا ہے جب ملک میں ہندوؤں اور مسلمانو ںکے درمیان تناؤ میں شدت تھی ۔ کامیاب شاعر ہونے کے باوجود ساحر ایک ناکام عاشق ثابت ہوئے ۔
میراجی کی عشقی پیچیدگیوں کے عنوان سے ف س اعجاز نے شاہد احمد دہلوی ، منٹو اور وزیر آغا کے مضامین کے حوالوں سے ایک مضمون ترتیب دیا ہے ۔ اثناء اللہ ڈار سے میرا جی بننے والے اس شاعر کے بارے میں کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز انکشافات سامنے آتے ہیں ۔ عشق کی اِن داستانوں میں سچائی کا عنصر کتنا ہے ۔ جھوٹ اور مبالغوں کی چاشنی کتنی ہے ۔ اس کا اندازہ لگانا اب ممکن نہیں کیونکہ بہتر سے لوگ اس دنیا سے گذر چکے ہیں اور جو زندہ ہیں اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس داستانوں کی تردید کرسکیں ۔ آہستہ آہستہ مجازی عشق کی یہ داستانیں ماضی کا ایک حصہ بن جائیں گی ۔
’’ ادیبوں کی حیات معاشقہ ‘‘ ۷۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس ضخیم کتاب میں اتنی ساری تحریریں ، اتنے سارے نام ، اتنی ساری دلچسپاں سمودی گئی ہیں کہ ہر تحریر پر مختصراً ہی سہی کچھ کہنا ممکن نہیں ۔ کتاب مذکورہ میں صرف برصغیر کے ادیبوں دانشوروں کی عشقیہ کہانیاں نہیں بدیسی مغربی ممالک کے ادیبوں کی داستانِ عشق بھی شامل ہیں ۔ حقانی القاسمی نے خلیل جبران کی عشقیہ کہانی کو دلچسپ پیرائے میں لکھا ہے ۔ خلیل بجران صرف ایک عورت کے زلفوں کے اسیر نہیں رہے بلکہ چار پانچ عورتوں کے دام محبت میں گرفتار رہے ۔ ایش کمار نے آسکر وائیلڈ ، ایچ جی ویلز کے رومانی قصوں کو قلم بند کیا ہے ۔ بعض مغربی ادیبوں کے عشقیہ داستانوی کا ذکر ف س اعجاز کے زور قلم کا نتیجہ ہے ۔ اس کتاب کو وقیع اور دلچسپ بنانے کیلئے اعجاز نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ کتاب میں تصویریں بھی شائع کی گئی ہیں ۔ شاید اسی مناسبت سے کتاب کو البم کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔ مجھ کو یقین ہے کہ قارئین کا وہ طبقہ انہماک اور شوق سے پڑھے گا جن پر شباب کا پُر بہار موسم چھایا ہوا ہے اور وہ قارئین بھی اسے دلچسپی اور شوق سے پڑھیں گے جن کے ہاتھوں میں جنبش نہیں مگر آنکھوں میں دم باقی ہے۔