ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ

صابر علی سیوانی
ہندوستان کے صنعتی شہر کلکتہ سے ماہنامہ ’’انشاء‘‘ ف ۔ س۔ اعجاز کی ادارت میں نہایت پابندی سے شائع ہوتا ہے اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہے۔ ماہنامہ ’’انشاء‘‘ کے اب تک متعدد اہم نمبرات اور خصوصی گوشے شائع ہوچکے ہیں، جن میں ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ نمبر (1990) بھی شامل ہے۔ اس نمبر کی مقبولیت اور ادب دوستوں کی فرمائش کے پیش نظر مدیر انشاء نے ’’انشاء‘‘ کے اس خصوصی نمبر میں نہایت اہم اضافے کرکے اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ نہایت خوبصورت ٹائٹل اور بہترین ترتیب کے ساتھ ’’ادیبوں کی حیات معاشقہ‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب منظر عام پر آئی ہے۔
زیر نظر کتاب ’’ادیبوں کی حیات معاشقہ‘‘ میں ملک کے نامور شعراء، ادباء اور عظیم سیاستدانوں کی عشق کی دلچسپ داستانیں اور ان کے معاشقوں کے سچے قصے ہیں۔بعض ادیبوں نے اپنے قلم سے اپنے معاشقے کی سرگزشت تحریر کی ہیں اور بعض مشاہیر کے معاشقوں کے بارے میں متعدد اہل قلم نے تفصیلات فراہم کی ہیں۔ کتاب کے آغاز میں میسر کی۔ ایک مشہور غزل شامل ہے جس کا ایک مشہور شعر ’’عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو ، سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق‘‘ ہے۔ فہرست مضامین 15 صفحات کو محیط ہے۔ ابتدائی صفحات میں مرتب کتاب کا پیش لفظاور مقدمہہے۔ علاوہ ازیں ماہنامہ انشاء کے ادیبوں کی حیات معاشقہ نمبر (1990 ) کی اجراء کی روداد شامل ہے جسے محمد امیر الدین (کلکتہ) نے تحریر کیا۔ انشاء کے مذکورہ نمبر کی رسم اجراء غالب اکیڈمی حضرت نظام الدین نئی دہلی میں 8 فروری 1990 کو انجام پائی۔ اس روداد کی اشاعت اسی سال روزنامہ سیاست، حیدرآباد میں عمل میں آئی تھی، جسے بشکریہ سیاست اس مخصوص نمبر میں شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کی خوبصورت ترتیب کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مرتب نے مرقع عنوان کے ذیل میں پروفیسر محمد حسن( ادیبوں کے رومان ! ایک تجزیہ) پروفیسر عنوان چشتی (عشق: حقیقت سے مجاز تک) ڈاکٹر قمر جہاں (ہمارے ادب و کلچر میں معاشقے کا تصور) ف ۔ س اعجاز ( حسن کے نظریات) کے مضامین شامل کئے ہیں۔

’’چند ادباء کے اعترافات عشق‘‘ عنوان کے ضمن میں عزیز قیسی کی نظم کنفیشن ، جوش ملیح آبادی کا مضمون میرے معاشقے، بلراج ورما کی عشق کی داستان بعنوان ’’ آج تک کی ہے کئی بار محبت میں نے ‘‘ آغا جانی کشمیری کی سرگزشت عشق بعنوان ’’سحر ہونے تک ‘’ ، اقبال متین کا اعتراف محبت ’’میں اور منیرہ‘‘ ہمت رائے شرما کی داستان محبت ’’میں اور میری داستان محبت‘‘ م۔ م ۔ راجندر کا مضمون ’’وہ کیسی محبت تھی‘‘ اور خالد سہیل کا معاشقہ کے تعلق سے ’’عورت سے رشتہ‘‘ عنوان کے ضمن میں دلچسپ تحریریں شامل کتاب ہیں۔ ’’ضمیمہ‘‘ عنوان کے تحت خالد سہیل کی تحریر ’’میری سہیلی بے ٹی ڈیوس‘‘ ف ۔ س اعجاز کی نگارش قتیل شفائی کی مطربہ، رشمی بادشاہ کا مضمون چندر کانتا کی محبت اور مشرف عالم ذوقی کی تحریر ’’تجھ سے شروع تجھ پہ ختم‘‘ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سرور تونسوی، ف۔ س اعجاز ، اسیم کاویانی، پروفیسر یوسف سرمست، پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر تنویر احمد علوی، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، ظ ۔ انصاری، ڈاکٹر معصوم شرقی، وحید قریشی کی مختلف مشاہیر کی حیاتِ معاشقہ پر لکھی گئیں تحریریں موجود ہیں۔ ان مضامین میں وحید قریشی کا شبلی کی حیات معاشقہ ، ڈاکٹر ظ۔ انصاری کا غالب بے وفا اور وفا، ڈاکٹر معصوم شرقی کا داغ اور منی بائی حجاب، سید شہاب دسنوی کا مولانا شبلی کے عشق کی حقیقت، تنویر احمد علوی کا کلاسیکی شعراء کے معاشقے، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کا مومن اور عشق پردہ نشیں اور خالد سہیل کا علامہ اقبال۔ ایک محبوبہ تین بیویاں، چار شادیاں جلسے عنوانات نہایت اہم مضامین ہیں جن سے ان کلاسیکی شعراء کے معاشقوں کا دلچسپ داستانوں کا علم ہوتا ہے۔

زیر نظر کتاب میں مذکورہ مضامین کے علاوہ سلمی کا عاشق اختر شیرانی (ف ۔ س اعجاز) محبوبِ غم فانی بدایونی ( ف ۔ س اعجاز) پریم چند کی زندگی میں رومان ( پروفیسر قمر رئیس) ٹیگور کی داستان محبت (شانتی رنجن بھٹاچاریہ) مجاز کارومان (پروفیسر محمد حسن) میراجی کی عشقی پیچیدگیاں (ف ۔ س اعجاز) منٹو کا عشق (جگدیش چندر ودھاون ایم اے) جگر مراد آبادی کے معاشقے (رئیس الدین فریدی) روشن فاطمہ اور جگر مراد آبادی ( محمد عابد شمس مراد آبادی) معاشقوں کا جادوگر ساحر لدھیانوی (اوم کرشن راحت) اس کی یادوں کے لمس (امرتا پرتیم) فیض خواتین اور حسد (انگریزی مضمون کا ترجمہ ف ۔ س اعجاز) فراق گورکھپوری کے الٹے سیدھے معاملات (ڈاکٹر افغان اللہ خان) جاں نثار اختر اور خدیجہ (نعیم کوثر) میرے ہم سفر کیفی اعظمی (شوکت اعظمی) وغیرہ موضوعات پر نہایت دلچسپ مضامین شامل ہیں۔ ’’چار عظیم سیاستداں ادباء‘‘ کے عنوان سے گاندھی، جناح، نہرو اور منڈیلا کے حیات معاشقہ پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں پروفیسر ایش کمار، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، سید سفیر حیدر، حقانی القاسمی، میر گوہر علی خان اور پروفیسر بیگ احساس کے مضامین شامل ہیں۔ ف۔ س۔ اعجاز کے لکھے ہوئے 24 مضامین شامل کتاب ہیں، جن میں چند تلخیص اور انگریزی سے تراجم بھی ہیں۔ اس کتاب میں مختلف عنوانات پر مشتمل عشقیہ منظومات بھی شامل ہیں، جنہیں علیحدہ فہرست/متفرق کے ضمن میں رکھا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مرتب کتاب کا تعارف نامہ ہے۔

زیر نظر کتاب کے ابتدائی حصے میں ’’مدیر انشاء کے نام بعض اہم قلمکاروں کے دلچسپ خطوط‘‘ کے عنوان سے رسالہ انشاء کے ادیبوں کی حیات معاشقہ نمبر کی اشاعت کے سلسلے میںپیشگی مبارکباد اور اس نمبر کی تیاری کے سلسلے میں نیک خواہشات ہیں۔ ان مکتوب نگاروں میں گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، مجروح سلطانپوری، خلیق انجم، حسن نجمی سکندر پوری، بلراج ورما، عزیز قیسی، ڈاکٹر شارب ردولوی، علی سردار جعفری، جوگندر پال، نجیب رامش شامل ہیں۔ انہی خطوط میں ایک خط مجروح سلطانپوری کا بھی ہے جو نہایت دلچسپ ہے اس کا ایک اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ خط 18 جولائی 1988 ء کا لکھا ہوا ہے جو عشق اور معاشقے میں فرق کو ظاہر کرنے کے حوالے سے نہایت معلوماتی ہے۔ وہ اس خط میں لکھتے ہیں ’’ساری گڑبڑ آپ کے عنوان کی ہے۔ معاشقہ اس لفظ کو سطحی معنوں میں بھی اس قدر استعمال کیا گیا ہے کہ عشق کے مقابلے میں معاشقہ کسی حد تک اپنی آبرو کھوچکا ہے۔ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ عشق کے لئے جانبَین کا ابتلا ضروری نہیں جبکہ معاشقے کے لئے ضروری ہے کہ ’’دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔ عشق یا معاشقے کے مدارج ہوسکتے ہیں مگر یہ صفت جذباتی ہونے کے علاوہ بڑی حدتک جبلی بھی ہے، جس کے لئے ضروری نہیں کہ چاہنے والے کے سامنے کوئی ذات ہی ہو۔ وہ کوئی شئے کوئی ہنر یا خود اپنا آپ بھی ہوسکتا ہے‘‘ (ادیبوں کی حیات معاشقہ صفحہ 33 )

ادیبوں کی حیات معاشقہ کے بارے میں پڑھ کر ان کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی نفسیاتی کیفیت، ان کی ذہنی کج روی، ان کی فطری جبلت اور ان کے پوشیدہ جذبات و احساسات کا بھی بخوبی علم ان کی عاشقانہ زندگی کے حالات سے آشنائی سے ہوتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جس میں بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں حالانکہ ان میں سے بہت کم ہی ایسے رہے ہوں گے جنہیں اس میں کامیابی ملی ہوگی اور جن کی زندگی آسودہ گزری ہوگی۔ جواہر لال نہرو کے عشقیہ معاملات سے بھلا کون واقف نہ ہوگا۔ مائونٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا سے نہرو کے معاشقے کی داستان بہتوں نے لکھی ہے۔ دونوں کی گہری دوستی کی کہانیاں متعدد کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ اس کتاب میں بھی ایم جے اکبر نے اس حوالے سے ایک دلچسپ مضمون تحریر کیا ہے۔ مائونٹ بیٹن کے مقرر کردہ سوانح نگار فلپ زیگلر نے اپنی اہم ترین تصنیف ’’مائونٹ بیٹن‘‘ (1958 ) میں نہایت محتاط انداز میں نہرو اور ایڈوینا کے تعلقات کے بارے میں لکھا ہے۔ اس نے صرف اس قدر لکھا ہے کہ ’’نہرو کے ساتھ لیڈی ایڈوینا کا قریبی تعلق اس وقت شروع ہوا جب مائونٹ بیٹن جوڑا ہندوستان سے واپس جانے والا تھا‘‘۔

اپنے اس مضمون میں ایم جے اکبر نے لکھا ہے کہ جواہر لال نہرو سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدماجا سے بے پناہ محبت کرتے تھے چنانچہ وہ اس حوالے سے رقمطراز ہیں’’ نہرو 1937 میں پچاس برس کے قریب پہنچنے کے باوجود اپنے خاندان کی دوست سروجنی نائیڈو کی بیٹی کی محبت میں دیوانہ وار گرفتار تھے۔ 18 نومبر 1937 ء کو انہوں نے الہ آباد سے پدماجا کو لکھا ’’اجنتا کی شہزادی تم اس وقت سے کس قدر شدید طور پر ہر وقت میری جان کا حصہ بنی ہوئی ہو۔ جب سے تم نے میرے کمرے پر قبضہ کررکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ میں جب بھی اس کی طرف نظر اٹھاتا ہوں مجھے تمہاری یاد آجاتی ہے۔ اب تمہاری عمر کیا ہے؟ بیس سال؟ ہائے میری پیاری، عمر کے ماہ و سال کے دبے پائوں ہمارے اوپر سے گزرتے چلے جانے کے باوجود ہم کس قدر نوعمر ہیں ۔ میں تمہاری پیاری صورت دیکھنے کے لئے کتنا بے چین ہوں‘‘ (صفحہ 608 )

اظہر جاوید نے اس کتاب میں ’’ساحر لدھیانوی کے ناکام معاشقے‘‘ عنوان سے ساحر کے امرپتاپریتم، ہاجرہ مسرور، لتا منگیشکر، سدھا ملہوترا سے معاشقے کی داستانیں تحریر کی ہیں۔ امرپتا پریتم نے ساحر کے عشق کی وارفتگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے پنجابی ناول ’’ایک تھی انیتا‘‘ میں اپنی عشق کی داستان بیان کی ہے۔ یہ ناول بعد میں اردو میں بھی شائع ہوا۔ اظہر جاوید نے لکھا ہے کہ 1944 میں لاہور اور امرتسر کے درمیان ایک مقام پریم نگر تھا جہاں ساحر اور امرتا کی ملاقات ہوئی اور پھر وہیں سے ان کا معاشقہ شروع ہوا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ لاہور سے جانے کے بعد ساحر جب بمبئی میں تھے تو ہاجرہ مسرور ان کی زندگی میں آئیں۔ ساحر سے لتا کے معاشقہ کا ذکر کرتے ہوئے اظہر جاوید لکھتے ہیں : ’’ساحر جب مشہور اور مقبول ہوتے گئے اور ممبئی کی دنیا میں اور فلم کے حلقوں میں بھی ان کے پائوں جم گئے تو لتا منگیشکر اور وہ آپس میں گھل مل گئے۔ ان دونوں کے درمیان شادی بھی طے پاگئی تھی اور لتا اکثر ساحر کے گھر چلی جاتیں اور ان کی رسوئی سنبھال لیتیں۔ ساحر کی والدہ پرانی معاشرت کی روایت پرست خاتون تھیں اور ساحر کے کے لئے ان کا کہا، قول سدید ہوتا تھا۔ والدہ محترمہ نے شرط لگائی، لتا سے کہو مسلمان ہوجائے تو شادی کرلینا۔ ساحر خود اس ’’تقسیم اور تفریق‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ وہ بھلا لتا سے کیا کہتے اور یوں یہ سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ ’’تلخیاں‘‘ میں شامل تیری آواز، لتا ہی کے لئے لکھی گئی تھی (صفحہ 540)

کرشن چندر اور رشید احمد صدیقی کی بیٹی سلمی صدیقی کے معاشقے اور ان کی شادی کے بارے میں مختلف آراء پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں نے نکاح کرلیا تھا اور کرشن چندر مسلمان ہوگئے تھے۔ کرشن چندر اور سلمی صدیقی بھی اس کا اقرار کرتے رہے لیکن انہوں نے نکاح نامہ کسی کو بھی نہیں دکھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کا نکاح ہی نہیں ہوا تھا۔ پروفیسربیگ احساس نے کرشن چندر کی حیات معاشقہ کے حوالے سے تفصیل سے اپنے مضمون میں لکھا ہے پروفیسر بیگ احساس نے دونوں کے نکاح کے متعلق دریافت و تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے ’’ممبئی یونیورسٹی کی ایک ادبی تقریب میں راشد خورشید منیر بھی آئے۔ میں بھی اس میں شریک تھا نلنچ کے وقفے میں افسانہ نگار انور قمر نے راشد خورشید منیر سے کہا ’’بیگ صاحب نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ سلمی صدیقی صاحبہ اور کرشن چندر جی کی شادی نہیں ہوئی۔ کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ آر ۔ کے منیر نے کہا نہیں شادی تو ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے وہ ثبوت دیجئے یا خود بیان دیجئے میں اسے شامل کرلوں گا۔ سارے ترقی پسند مجھ سے خفاء ہیں۔ سچائی سامنے آجائے گی تو میں بھی خود کو guilty محسوس نہیں کروں گا‘‘ آر کے منیر نے وعدہ کیا ۔ بات آئی گئی ہوگئی۔‘‘ (صفحہ 729 )

’’ادیبوں کی حیات معاشقہ‘‘ میں اگر کسی نے بہت کھل کر اور نہایت بے باکی سے اپنے معاشقے کی داستان تحریر کی ہے تو وہ بلراج ورما ہیں۔ انہوں نے وہ تمام باتیں بھی لکھ دی ہیں جنہیں زبان سے ادا کرنا تک عام مہذب معاشرے میں معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ ف۔ س۔ اعجاز نے اتنے اہم موضوع پر اتنی وقیع کتاب شائع کرکے بڑی ہمت اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے بہت سے ادیبوں کی زندگی کے پوشیدہ گوشے سامنے آتے ہیں۔ کتاب کے مجموعی صفحات 731 ہیں، جس کی قیمت 800 روپئے ہے۔ اسے انشاء پبلی کیشنز 25-B ، زکریا اسٹریٹ، کلکتہ 700073 سے حاصل کی جاسکتا ہے۔
mdsabirali702gmail.com