آج کل ملک میں علمی اور ادبی سرقہ زوروں پر ہورہا ہے ۔ سارق مصنفین کی کوئی کمی نہیں۔ شاعر ، ادیب ، اسکالرس ، علم و ادب کی چوری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور دھڑلے سے اپنے نام سے منسوب کر کے شائع بھی کروالیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کون انہیں پکڑے گا لیکن بہرحال چوری تو چوری ہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح پکڑی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جو کچھ مقام عزت اور وقار ہوتا ہے وہ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ جس طرح بڑے لوگوں کا قول ہے کہ اچھا بننے کیلئے برسوں لگ جاتے ہیں لیکن نظروں سے گرنے کیلئے چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں۔
رفیعہ نوشین
8 مئی 2017 ء پیر کے دن صبح سویرے میں حسب معمول اخبار سیاست کا مطالعہ کر رہی تھی ۔ خبروں کی جانکاری کے بعد ادبی و ثقافتی ایڈیشن پر نظر دوڑائی تو محترمہ خیرالنساء علیم کا افسانہ ’’مژدۂ جاں فزاء‘‘ نے مجھے اپنی جانب راغب کیا اور میں نے فوراً پڑھنا شروع کیا لیکن یہ کیا ۔ جیسے جیسے میں افسانہ پڑھ رہی تھی مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ تو میرا افسانہ ’’رد نہ کر قبول کر‘‘ کے پیرا گراف ہیں جس کا لفظ بہ لفظ سرقہ کیا گیا ہے ۔ نمونتاً یہاں ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے۔
’’ میں نے جب گریجویشن کے آخری سال میں قدم رکھا تو ہر ماں کی طرح میری ماں کو بھی شادی کی فکر ستانے لگی اور انہوں نے میرے لئے رشتوں کی تلاش شروع کردی ۔ میں نے ماں کو بہت سمجھایا کہ آخری تعلیمی سال میں مجھے ڈسٹرب نہ کریں ۔ مگر ان کا ماننا تھا کہ رشتے آسانی سے طئے نہیں ہوتے ، اس کیلئے کافی تگ ودو کرنی پڑتی ہے ۔ حوالہ : (’’میری آنکھوںکی زبان ‘‘ صفحہ نمبر 25 ، مصنفہ رفیعہ نوشین) ‘‘
میرا تحریر کردہ افسانہ ’’رد نہ کر قبول کر‘‘ روزنامہ سیاست کے ادبی و ثقافتی ایڈیشن میں 21-09-2013 کو شائع ہوا تھا جس کا تراشہ بطور ثبوت آج بھی میرے پاس موجود ہے ۔ اس کے بعد 2015 ء میں میری دوسری تصنیف ’’میری آنکھوں کی زبان‘‘ شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں بھی میرا یہ افسانہ صفحہ نمبر 23 پر موجود ہے۔
محترمہ خیرالنساء علیم نے صرف اپنے افسانے کا عنوان تبدیل کیا لیکن اہم کرداروں کے نام (نائلہ اور اکھل) بھی وہی ہیں جو میرے افسانے کے کرداروں کے ہیں۔ یہ ایک اتفاق نہیں ہوسکتا ۔ ایک نظریے کے تحت کئی افسانے اور مضامین لکھے تو جاسکتے ہیں لیکن کرداروں کے نام بھی ایک ہی ہوں یہ ممکن نہیں کیونکہ نام تو ہزاروں ہیں، ان میں ایک ہی نظریے پر مبنی خیالات کے ساتھ ساتھ کرداروں کے نام بھی وہی ہونا افسانہ نگار کی جلد بازی یا پھر خود کو احمقوں کی جنت میں رہنے سے مماثل ہوسکتا ہے اور پھر افسانہ نگارمیں اتنی قابلیت بھی نہیں کہ وہ اپنے الفاظ کا استعمال کرکے خود کو بچائیں ۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ ہر مصنف کا انداز بیاں ، اسلوب اور طرز فکر جداگانہ ہوتا ہے ۔
مجھے آج بھی یاد ہے ’محفل خواتین‘ کے کسی ماہانہ اجلاس میں نامور فکشن رائٹر محترمہ قمر جمالی نے کہا تھا کہ ’’آپ کسی افسانے یا مضمون کے اسلوب کو دیکھ کر فوراً پہچان سکتے ہیں کہ یہ تحریر کس کی ہے ؟ ‘‘ اور اس بات کی تصدیق آج اس وقت ہوئی جب سیاست کے قارئین نے مجھے فون کر کے بتایا کہ میرے افسانے ’’رد نہ کر قبول کر‘‘ کا سرقہ کیا گیا ہے جس سے مجھے ایک گونہ خوشی بھی حاصل ہوئی کہ قارئین کے ذہن میں آج بھی وہ افسانہ محفوظ ہے جس میں میں نے شادی کیلئے لڑ کیوں کے انتخاب ، جہیز اور اس سے جڑے مسائل پر روشنی ڈالی تھی۔
محترمہ خیر النساء علیم کا افسانہ ’’مژدہ جاں فزاء‘‘ اخبار کے 3 کالم پر مشتمل ہے جس میں ایک پورا کالم اور دوسرے کالم کا 3/4 حصہ میں میرے افسانے کے پیرا گراف نقل کئے گئے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کے افسانے میں 60 فیصد میرے افسانے کے ا قتباسات (جوں کے توں جملے) ہیں اور 40 فیصد ان کے لکھے ہوئے ، جس کو صرف اختتامیہ کہا جاسکتا ہے۔ جوکہ انہوں نے لکھ کر اضافہ کیا ہے ۔ اس طرح قابل افسانہ نگار نے میرے بنیادی خیال ہی کو نہیں بلکہ مکمل پیراگراف (لفظ بہ لفظ ) کو چرا کر اپنے نام سے شائع کردہ افسانے میں شامل کر کے ادبی خیانت کی ہے اور خیانت کا معاملہ نہایت ہی اہم اور سخت ہے کیونکہ جہاں علمی و ادبی امانت داری سے علم میں اضافہ ہوتا ہے وہیں خیانت سے یا تو علم ضائع ہوجاتا ہے یا پھر تحریر اپنی تاثیر کھو دیتی ہے ، جس کا ثبوت محرمہ خیرالنساء علیم کا افسانہ ’مژدہ جاں فزاء‘ ہے
میرے افسانے کا مواد جس کو محترمہ نے اپنے نام کے ساتھ روزنامہ سیاست میں شائع کرواکے اس کا کریڈٹ لینا چاہا ۔اس ضمن میں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ بد دیانتی کا کام کسی ’’ادبی نو مولو د‘‘ نے نہیں کیا بلکہ ایک باوقار خاتون نے کیا ہے جو مشہور افسانہ نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں اور جن کی اب تک 5 تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں اور اردو اکیڈیمی سے انعامات بھی حاصل کرچکی ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محترمہ کو اگر میرے افسانے سے اقتباسات یا پیراگراف لینا ہی تھا تو مجھ سے اجازت لیتیں یا پھر کم از کم اس کا حوالہ ہی دیتیں تو وہ ادبی طور پر کامیاب ہوجاتیں۔
آج کل ملک میں علمی اور ادبی سرقہ زوروں پر ہورہا ہے ۔ سارق مصنفین کی کوئی کمی نہیں۔ شاعر ، ادیب ، اسکالرس ، علم و ادب کی چوری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور دھڑلے سے اپنے نام سے منسوب کر کے شائع بھی کروالیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کون انہیں پکڑے گا لیکن بہرحال چوری تو چوری ہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح پکڑی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جو کچھ مقام عزت اور وقار ہوتا ہے وہ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ جس طرح بڑے لوگوں کا قول ہے کہ اچھا بننے کیلئے برسوں لگ جاتے ہیں لیکن نظروں سے گرنے کیلئے چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کیلئے قوانین بھی موجود ہیں ۔ ان قوانین کے ذریعہ مصنفین کے جملہ حقوق قانونی طور پر محفوظ کئے جاتے ہیں تاکہ کوئی ان کے تخلیقی کام کو اپنے نام سے استعمال نہ کرے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے ۔
آخر میں مجھے قوی امید ہے کہ محترمہ خیرالنساء علیم اس بارے میں ایک اچھے افسانہ نگار کے علاوہ اچھی خاتون ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسی ادبی ایڈیشن میں وضاحت پیش کریں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مصنفین اور شعراء و تخلیق کاروں کو اس ’’ادبی بد دیانتی‘‘ سے محفوظ رکھے۔ (آمین)