کرنسی بحران …اپوزیشن کا امتحان
سرحد پر کشیدگی …سبرامنیم سوامی کی بکواس
رشیدالدین
ملک میں کسی عوامی مسئلہ پر طویل عرصہ بعد اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اتحاد تو خوش آئند ہے بشرطیکہ اس کے پس پردہ سیاسی مفادات نہیں بلکہ عوام کا مفاد ہو۔ یہ اتحاد اسی وقت کامیاب تصور کیا جائے گا جب عام آدمی کو کرنسی بحران کی مشکلات اور مصیبتوں سے نجات ملے گی۔ سیاسی جماعتیں عوام کے حق میں احتجاج کے لاکھ دعوے کرلیں لیکن سیاسی مقصد براری کے عنصر سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن جماعتوں کو 8 نومبر کی رات اسی طرح کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا جس وقت وزیراعظم نریندر مودی نے 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹس کی تنسیخ کا اعلان کیا تھا ۔ نریندر مودی کے اچانک اور غیر متوقع اعلان سے کئی اہم اپوزیشن جماعتوں کو اپنا موقف طئے کرنے میں وقت لگ گیا۔ بعض نے تو فوری فیصلے کی تائید کردی لیکن جب دوسرے دن سے عوامی مشکلات کو دیکھا تو انہیں فیصلہ کے مضر اثرات کا احساس ہونے لگا۔ اب جبکہ کرنسی تنسیخ کے اعلان کو تین ہفتے مکمل ہونے کو ہیں، اپوزیشن کو عوامی تکالیف کا خیال آیا اور ’’دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیئے‘‘ کہ مصداق اتحاد کی سوجھی۔ جن حالات اور جس سیاسی منظر کے تحت یہ اتحاد کیا گیا، اسے اپوزیشن کی مجبوری ہی کہا جائے گا ۔ ہر پارٹی کو اپنی اپنی ریاست میں عوام کا سامنا کرنا ہے اور فیس سیونگ کیلئے انہیں ساتھ کھڑے ہونا پڑا۔ تمام جماعتوں کا حال کچھ اس طرح نہیں ہے بلکہ ترنمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی جنہوں نے فیصلہ کی رات سے ہی احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور دیگر جماعتوں پر دباؤ میں اضافہ کا سبب بنے۔ نریندر مودی نے جس طرح چند منٹوں میں ملک کی معیشت کو اتھل پتھل کردیا ، اس کے خلاف جس انداز کی حکمت عملی کی ضرورت ہے، اپوزیشن میں اس کی کمی دکھائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن میں بحران سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی دوڑ نے عوام کی مشکلات کو جوں کا توں برقرار رکھا ہے ورنہ ملک کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں ایک ہوجائیں تو سرکاری مشنری ٹھپ ہوجانی چاہئے لیکن یہاں تو عوام مودی حکومت پر ناراضگی کے باوجود اپوزیشن پر بھروسہ کرنے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ احتجاج صرف پارٹی کارکنوں کی سطح پر ہورہا ہے، عوام کی رضاکارانہ طور پر شمولیت کا نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ مودی کے ڈھائی سالہ دور حکومت میں پہلی مرتبہ ایک اہم عوامی مسئلہ اپوزیشن کے ہاتھ میں آیا لیکن پتہ نہیں کیوں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہوکر اذیت سے گزرنے کے باوجود عوام ، اپوزیشن کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے تیار نہیں۔ ملک کے ہر شہری سے وابستہ اس مسئلہ پر تو حکومت کو ابھی تک دستبرداری کیلئے مجبور کیا جانا چاہئے تھا۔ اپوزیشن کے بظاہر اتحاد اور اندرونی طور پر منتشر گھر کی صورتحال کا فائدہ حکومت کو ہورہا ہے۔ سماج کے ہر شعبہ ، ہر طبقہ اور ہر سطح سے متعلق مسئلہ سے نمٹنے کیلئے اصولوں پر مبنی اتحاد کی ضرورت ہے نہ کہ اپنی سہولت کے اتحاد کی۔ جب تک اپوزیشن کی نیت ٹھیک نہیں ہوگی، اس وقت تک ایجی ٹیشن کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اپوزیشن نے 28 نومبر کو ملک گیر سطح پر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی کو مفلوج کردیا لیکن مودی حکومت اپنے فیصلہ پر بدستور قائم ہے بلکہ عوامی تکالیف اور مشکلات پر ہمدردی اور فیصلہ کیلئے ندامت کا اظہار تک نہیں ہے۔ عوامی مشکلات میں کمی کے بجائے عوام کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ قطاروں میں کھڑے افراد کو کالا دھن کا لیبل لگادیا گیا۔ معاشی بدحالی اور بچوں کی شادی کی رقم نہ ملنے پر لوگ خودکشی کر رہے ہیں لیکن حکومت ان اموات کو طبعی موت ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر میں شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں عوام کو ان کی جمع کردہ رقم نکالنے سے روکا جائے۔ ایک طرف عوام بدحال ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی پارلیمنٹ کے باہر جہاں بھی اسٹیج مل جائے اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ملک کے اب تک کے وزرائے اعظم میں اداکاری کا یہ فن نریندر مودی میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جذباتی ہوکر آبدیدہ ہونا اب معمول بن چکا ہے۔ نریندر مودی کے جذباتی ہونے پر ہمیں گجرات کے ان ہزاروں خاندانوں کا خیال آگیا جن کے اپنے حکومت کی سرپرستی میں قتل کردیئے گئے۔ اس وقت چیف منسٹر کی حیثیت سے نریندر مودی جذباتی اور آبدیدہ نہیں ہوئے تھے۔
وزیراعظم نے کالا دھن رکھنے والوں سے اپنی جان کو خطرہ کی بات کہی ہے۔ جب ملک کا وزیراعظم خود کو غیر محفوظ تصور کرے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ کیا وزیراعظم کو وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ملک کی سیکوریٹی ایجنسیوں پر بھروسہ اٹھ چکا ہے ؟ پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کو تیار نہیں لیکن عوامی جلسوں اور دیگر تقاریب میں جذباتی تقاریر اور حد تو یہ ہوگئی کہ آن لائین عوامی رائے حاصل کی جارہی ہے ۔ جب عوامی رائے آن لائین حاصل کرنا ہے تو پھر پارلیمنٹ کس لئے ہے۔ حکومت اپنے فیصلوں کیلئے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے لیکن نریندر مودی اگر ایسا نہیں مانتے تو پھر قانون ساز اداروں کا وجود بے معنی اور برائے نام ہوکر رہ جائے گا۔ رہی بات 28 نومبر کے ملک گیر احتجاج کی تو اس کی غیر معمولی کامیابی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے کیونکہ تکالیف کے باوجود ملک کے کسی بھی حصہ سے عوامی سطح پر برہمی یا احتجاج کی اطلاع نہیں ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عوام ابھی بھی اچھے نتائج کی امید کے ساتھ کرنسی تبدیلی یا حصول کے سلسلہ میں دشواریوں اور مصیبت پر صبر سے کام لے رہے ہیں۔ جس طرح بی جے پی کے پیش نظر اترپردیش ، پنجاب اور دیگر تین ریاستوں کے انتخابات ہیں، اسی طرح اپوزیشن کو بھی ان ریاستوں میں سیاسی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ بعض جماعتیں ان ریاستوں کے انتخابات کی اہم فریق ہیں۔ بعض اپوزیشن کے چیف منسٹر اور ان کی پارٹی کے موقف میں واضح فرق دکھائی دے رہا ہے ۔ جنتا دل یونائٹیڈ کے شرد یادو راجیہ سبھا میں حکومت کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں جبکہ بہار میں ان کے چیف منسٹر نتیش کمار نے مودی کی تائید کی۔ اگر اپوزیشن کو عوام سے حقیقی ہمدردی ہو تو اپنی زیر اقتدار ریاستوں میں کیرالا کی طرز پر پرانی کرنسی کے استعمال کا اعلان کریں۔
کرنسی تنسیخ کے وقت حکومت نے عوام کو مختلف سہولتوں کا تیقن دیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روزانہ جس طرح نئی شرائط کا اعلان کیا جارہا ہے ، وہ عوام کے مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ حکومت نے اب تو پرانے 1000 کے کرنسی نوٹ کے چلن اور تبدیلی کو عملاً بند کردیا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کوئی جمہوری حکومت کا سربراہ نہیں بلکہ ایک ڈکٹیٹر ہی کرسکتا ہے۔ حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ آخر ملک کو ایسی کیا معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا کہ بڑے کرنسی نوٹ منسوخ کئے گئے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو حقیقی صورتحال سے واقف کرائیں۔ معیشت پر ایسا کیا زوال آچکا ہے کہ جس سے نمٹنے کیلئے حکومت کو عوام اور اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر سخت گیر فیصلہ لینا پڑا۔ آخر حکومت درپردہ معاشی بحران کے حقائق کو عوام سے کیوں چھپا رہی ہے۔ حال ہی میں بعض ریاستوں کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا اندازہ بھی غلط ثابت ہوا جس سے حکومت کے حوصلے اور بلند ہوگئے ۔ اپوزیشن کو امید تھی کہ کرنسی کی تنسیخ کے فیصلہ پر عوام ناراضگی کا اظہار کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر نریندر مودی اس تجربہ میں کامیاب ہوجائیں تو پھر دہلی میں بیٹھ کر اترپردیش کا الیکشن جیت سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ عوام نوٹوں کی تنسیخ کے فیصلہ کو کس طرح قبول کریں گے۔ ایک طرف کرنسی بحران جاری ہے تو دوسری طرف اچانک سرحدوں پر تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی افواج میں فائرنگ کا تبادلہ روز کا معمول بن چکا ہے ۔ فوجیوں کے ساتھ عام شہریوں کی بھی ہلاکتیں واقع ہورہی ہیں۔ کشیدگی کے اس ماحول میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے بعض گوشوں کی جانب سے ہندوستان کو جنگ کیلئے اکسانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اشتعال انگیز بیانات کیلئے مشہور سبرامنیم سوامی نے پاکستان پر حملہ کر کے اسے 4 ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی صلاح دی۔ ہندوستان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان نیوکلیئر طاقت ہے اور چین اس کے ساتھ ہے۔ جس طرح ہندوستان میں سبرامنیم سوامی ہیں، اسی طرح پاکستان میں حافظ سعید ہیں ، یہ دونوں ہمیشہ جنگ کے حق میں بکواس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دونوں امن نہیں بلکہ تباہی کے خواہشمند ہیں۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم نریندر مودی کو جنگ کے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہے اور انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ جنگ کی مخالفت کی اور پاکستان کو جنگ کے بجائے غربت، کرپشن اور بیروزگاری کے خلاف جنگ کا مشورہ دیا۔ نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کے دن سے ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی پہل کی تھی۔ آئندہ ماہ امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کیلئے نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز ہندوستان آرہے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ ان کی آمد سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں کمی کا راستہ ہموار ہوگا۔ ہندوستان نے سرحد پر کشیدگی اور جنگ بندی کی خلاف ورزی تک پاکستان کے ساتھ راست بات چیت سے گریز کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ممالک کو کشیدگی کے بجائے عوام کی خوشحالی کیلئے کام کرنا چاہئے۔ 1947 ء سے قبل کا جو ہندوستان تھا اس میں امن اور خوشحالی سب کا خواب ہونا چاہئے۔ بھلے ہی آج ان علاقوں کے نام پاکستان اور ہندوستان کیوں نہ ہو۔ کرنسی بحران پر نریندر مودی کے موقف کیلئے یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اداکاری پہ جس کی شخصیت ہو منحصر لوگو
وہ سچا لگ تو سکتا ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا