ادارہ گونج نظام آباد کے کل ہند مشاعرے کا آنکھوں دیکھا حال

معین راہی ۔ بودھن
نظام آباد کی سرزمین مشاعروں کے لئے بہت زرخیز ہے یہاں اکثر چھوٹے بڑے مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ بہت دنوں بعد 24 فبروری 2015 کی شب ادارہ گونج نظام آباد کے زیر اہتمام ایک کل ہند مشاعرے کے انعقاد کا اعلان ہوا تو نظام آباد کے باذوق سامعین میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ ادارہ گونج جو ریاست کا ایک معتبر اور فعال ادارہ ہے اس کے زیر اہتمام یقیناً بہت اچھا مشاعرہ سننے کو ملے گا ۔ لوگوں میں اشتیاق بڑھتا گیا ۔ یہ موقع تھا یہاں کے ایک نہایت سینئر اور نامور شاعر جناب جمیل نظام آبادی کے چھٹویں مجموعہ کلام ’’حرف و سخن‘‘ کی رسم اجراء کا ۔ مشاعرہ شہر کے مرکزی علاقہ میں واقع گولڈن فنکشن ہال میں منعقد ہورہا تھا ۔ رات کے 9 بجے مشاعرہ گاہ کی تمام نشستیں سامعین سے پُر ہوچکی تھیں ۔قرأت کلام پاک کے ساتھ ہی جلسہ کی کارروائی شروع ہوگئی ۔ ڈاکٹر رضی شطاری نے صدر جلسہ و مشاعرہ جناب مرزا افضل بیگ تیجان کو مدعو کیا ۔ جمیل صاحب ڈاکٹر ایس اے شکور کے ساتھ ڈائس پر آگئے ۔ صدر استقبالیہ ڈاکٹر محمد رضی الدین اسلم لکچرار نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔ مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ادارہ گونج کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ۔ ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی جناب ایس اے شکور نے جناب جمیل نظام آبادی کے مجموعہ کلام ’’حرف وسخن‘‘ کی رسم اجراء تالیوں کی گونج میں انجام دی ۔ اس موقع پر شکور صاحب نے جمیل صاحب کی گلپوشی شال پوشی کی ۔ ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ مشاعرے نئی نسل میں اردو شعر و ادب کے ذوق کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ ہماری زبان و تہذیب کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں ۔ بعد ازاں جمیل نظام آبادی نے مائک پر آکر چند ابتدائی اور خیر مقدمی کلمات ادا کرنے کے بعد مالیگاؤں سے آئے ہوئے مہمان شاعر جناب جمیل سحر سے نعت شریف کا نذرانہ پیش کرنے کی خواہش کی ۔ جمیل سحر نے بہترین ترنم میں نعت پیش کی دو شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

مثل قمر ہے گنبد خضریٰ رسولؐ کا
جنت ہے اس زمین پر روضہ رسولؐ کا
ٹوٹے دلوں کو جوڑ دو جنت میں جاؤگے
حق بندگی کے ساتھ ہے وعدہ رسولؐ کا
جمیل سحرؔ کے بعد ناظم مشاعرہ نے میزبان شاعر اور اس استقبالیہ کمیٹی کے معتمد ڈاکٹر رضی شطاری کو پہلے شاعر کے طور پر پیش کیا ۔ رضی شطاری نے تحت اللفظ میں شعر سنائے اور مشاعرے کو اٹھادیا۔
آسماں کی طرف میں کیا دیکھو
تو مرے جسم و جاں میں رہتا ہے
دل مرا عشق میں ترے اے دوست
مستقل امتحاں میں رہتا ہے
رضی شطاری داد لے کر مائک سے ہٹے تو مترنم مہمان شاعر اظہر کورٹلوی کو دعوت دی گئی ۔

دور ہونے لگیں دل سے تاریکیاں جب ہدایت کی شمع جلادی گئی
ہوگئے ہیں سیاست میں پیچھے بہت کیونکہ تاریخ ہم سے بھلادی گئی
ان کے بعد معین راہی کو مائک پر مدعو کیا ۔ انہوں نے یہ شعر سنائے۔
عجیب نگاہ محبت کا وار ہوتا ہے
اسی نگاہ پہ دل بھی نثار ہوتا ہے
ہنسی اڑاؤ نہ طالب کی خاکساری پر
کہ ایسا خاک نشیں تاجدار ہوتا ہے
ان کے بعد میزبان شاعر جناب ریاض تنہا کو دعوت سخن دی گئی۔
سمندر میں ندی نالے تو جا کر ڈوب جاتے ہیں
مگر شاعر کے کوڑے میں سمندر ڈوب جاتے ہیں
شریف اطہر کا نام سنتے ہی ہال میں تالیاں بجنے لگیں
شکستہ پا ہوں تو بے حوصلہ نہ سمجھے کوئی
میں آفتاب ہوں مجھ کو دیانہ سمجھے کوئی

ان کے بعد ناظم مشاعرہ نے ورنگل سے آئے ہوئے مہمان شاعر جناب اقبال درد کو دعوت کلام دی ۔ آپ نے ترنم میں غزل شروع کی ۔
مختصر سے قیام پھولوں کا
جو بھی پیتا ہے جام پھولوں کا
اقبال درد کے بعد مشہور مزاحیہ شاعر جناب اقبال شانہ تالیوں کی گونج پر مائک پر آئے اور حالات پر طنزیہ شعر سنانے لگے۔

نام اور عزت پہ جھاڑو پھر گئی
شان اور شوکت پہ جھاڑو پھر گئی
اقبال شانہ نے محفل کو زعفران زار کردیا ۔ سامعین کی خواہش پر اب مہمان شاعر جمیل ساحرؔ کو دعوت کلام دی گئی۔
موت کی گود میں قرآں کی تلاوت کی ہے
ہم نے ہر حال میں ایمان کی حفاظت کی ہے
سامنے ماں تھی تو ہر پل یہی احساس رہا
گھر میں رہتے ہوئے جنت کی زیارت کی ہے
ان کے بعد بزرگ شاعر جناب کبیر احمد شکیل کو دعوت سخن دی گئی ۔ شکیل صاحب نے اچھے شعر سنائے۔

گھر کی ہر اک شئے دعا دینے لگی
عرق ریزی کا صلہ دینے لگی
محنتوں کے بعد جو حاصل ہوئی
خشک روٹی بھی مزہ دینے لگی
ناظم مشاعرہ نے دیگلور مہاراشٹرا سے آئے ہوئے مہمان شاعر ڈاکٹر زبیر قمر کو زحمت کلام دی ۔ زبیر قمر نے تحت اللفظ میں شعر سنائے ۔
میسر ہے مجھ کو دعائے بزرگاں
کسی معتبر کی ضرورت نہیں ہے
ان کے بعد بیدر کرناٹک سے آئے ہوئے بزرگ شاعر جناب نثار احمد کلیم کو دعوت سخن دی گئی۔
برائی کو مٹانے اگر کوئی تیار ہوجائے
خدا جب مہرباں ہوگا تو بیڑہ پار ہوجائے
سامعین نے لکھنؤ سے آئے ہوئے مہمان شاعر فہیم فاکر سننے کی درخواست کی ۔

سب سے پہلے تو ترے دل سے کدورت نکلے
پھر کہیں جا کے ملاقات کی صورت نکلے
وہ زمانے میں کبھی ہو نہ سکے گا تنہا
جس کے ہونٹوں سے محبت ہی محبت نکلے
انہوں نے مشاعرے کو بام عروج پر پہنچادیا ، ان کے بعد میزبان شاعر جناب اشفاق اصفی کو دعوت کلام دی گئی ۔ انہوں نے تحت میں شعر سنائے۔
کچھ خیالات سے تصویر بنالیتے ہیں
شاعری آ تجھے جاگیر بنالیتے ہیں
لوگ روتے ہیں محبت کا حوالہ دے کر
ہم تو تدبیر سے تقدیر بنالیتے ہیں
ان کے بعد مہمان شاعر ڈاکٹر مسعود جعفری کو دعوت کلام دی گئی ۔
اندھیری رات میں روشن ہے نقرئی سے لکیر
گری ہوئی ہے عمارت گھڑا ہوا ہے فقیر
یہ انقلاب زمانہ نہیں تو اور ہے کیا
نظر ملائے گا کیا ہم سے فقیروں سے امیر
ان کے بعد حیدرآباد کے مہمان شاعر جناب انجم شافعی مائک پر آئے اور پورے اعتماد سے شعر سنا کر داد حاصل کرتے رہے ۔

سنا ہے عشق کی پرخار و پر خطر ہے ڈگر
مگر ہیں ہم بھی لگاتار گامزن اس پر
ان کے بعد حیدرآباد کے مترنم و پسندیدہ شاعر فاروق شکیل کو زحمت کلام دی گئی ، فاروق شکیل نے اپنے مخصوص ترنم میں سماں باندھ دیا۔
اپنے مرکز سے بچھڑنے کی سزا پاتے ہیں
شاخ سے ٹوٹ کے پتے جو بکھر جاتے ہیں
لب کپکپاتے ہیں مرے خاموش نیم شب
آنسو کلام کرتے ہیں پروردگار سے
ریاست کے نمائندہ شاعر جناب اقبال شیدائی کو دعوت سخن دی گئی ۔
ہمیں پہ گرنی تھی تلوار یہ تو ہونا تھا
کوئی تھا در پہ آزار یہ تو ہونا تھا
لگا کے جان کی بازی ہوئے شہید آخر
تمہارے عشق میں سرکار یہ تو ہونا تھا
شیدائی صاحب کے حصہ میں بہت داد آئی ان کے بعد ناظم مشاعرہ نے نانڈیر سے آئے مہمان شاعر ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی کو غزل سرائی کیلئے بلایا۔

اک مدت کے بعد یہ منظر دیکھا ہے
ہم نے اپنے چاند کو چھت پر دیکھا ہے
فہیم صدیقی نے مشاعرہ کو بام عروج پر پہنچادیا ۔ ان کے بعد ورنگل کے تاج مضطر مائک پر آئے ۔
تمہاری زلف پریشاں سے تیرگی ہوگی
لہو جلے گا ہمارا تو روشنی ہوگی
مشاعرہ آخری منزل پر پہنچ چکا تھا ، اب اوسط نظام آبادی کو پیش کیا گیا ، اوسط نے یہ شعر سنائے ۔
ترک کردوگے گناہ کب بولئے منہ کھولئے
آئے جب اس کا غضب بولئے منہ کھولئے
مشاعرہ کے آخری شاعر کے طور پر جمیل نظام آبادی صاحب سامعین کے اصرار پر مائک پر آئے ۔

لوگ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
اور ہم سر اٹھائے پھرتے ہیں
زندگی ایسا بوجھ ہے جس کو
زندگی بھر اٹھائے پھرتے ہیں
رات تین بجے ڈاکٹر سمیع امان کے شکریہ پر یہ خوشگوار اور کامیاب مشاعرہ اختتام کو پہنچا ۔