اقبال احمد انصاری
سچ کہیں تو جناب زاہد علی خان جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ان کا کام ہی ان ہی پہچان ہے ۔ وہ شہر حیدرآباد کے ایک معزز ممتاز اور علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ ملک کے مایہ ناز سپوت ہونے کے ساتھ ساتھ وطن اور اہل وطن کے لئے اور ملت و قوم کے بے لوث خدمت گذار اور سچے رہنمائے قوم بھی ہیں ۔
صحافت کی بات کی جائے تو جناب زاہد علی خان کے والد مرحوم نے اردو اخبار ’’روزنامہ سیاست‘‘ کو 15 اگست 1949 ء کو اجرا کیا تھا ۔ اور یہ پودا ان کے حیات میں ہی سرسبز و شاداب ہو کر لہلاتا رہا ۔ اور اس کی شادابی دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی ہوگیا تھا کہ یہ برگ نوخیز آگے چل کر بہت ترقی کرے گا ۔ اور وہ پیشن گوئی جو سچ ثابت ہوئی ۔ اور یہ کہاوت بھی سچ ثابت ہوئی کہ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ اور آج روزنامہ سیاست ملک کا کثیر الاشاعت روزنامہ ہے اور اسی طرح آج روزنامہ سیاست صحافت کی دنیا میں ایک ’’برگ تناور‘‘ کی شکل اختیار کرلیا ہے ۔ جس طرح سے دنیائے ادب میں اور خصوصاً صنف شاعری میں میر اور غالب جو گھنے اور تناور شجر کی مثال ہیں اور باقی تمام ہرے بھرے موسمی پودے تصور کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح یقیناً روزنامہ سیاست بھی ایک تناور شجر صحافت سے کم نہیں ۔
انھیں اپنے والد محترم کی طرح اپنی مادری زبان اردو سے بیحد انسیت ہے ۔ تب ہی تو وہ سال میں دو مرتبہ پابندی کے ساتھ زبان دانی اور اردو دانی کے امتحانات منعقد کرواتے ہیں ۔ ان امتحانات میں غیر زبان طبقہ یعنی جن کی زبان تلگو ، ہندی ،مراٹھی یا کنڑی وہ بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں ۔ کئی ایک خانہ دار خواتین بھی ان امتحانات میں دلچسپی لے رہی ہیں اس طرح ان امتحانات کے ذریعہ خواتین کی خواندگی میں معقول فروغ حاصل ہورہا ہے ۔
’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ‘ کے مصداق زاہد علی خان صاحب کا ہر کام بیباکانہ انداز میں انجام دیتے ہیں وہ کوئی بھی کام دکھاوے کے لئے یا ستائش کے لئے نہیں کرتے بلکہ وہ بے لوث انداز میں انجام دیتے ہیں ۔ اردو زبان کے فروغ میں روزنامہ سیاست کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ اردو کو عصر حاضر میں زندہ رکھنے میں زاہد علی خان صاحب کی ذاتی دلچسپیوںکا بھی بڑا دخل ہے ۔ یہاں یہ کہنا بھی قطعی غلط نہیں ہوگا کہ صحافت ان کے لئے محض پیشہ یا ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ وہ ایک مشن بھی ہے اور ایک خواب کی تعبیر بھی ہے جس کو جگر صاحب اور جناب عابد علی خان مرحوم نے دیکھا تھا ۔ زاہد علی خان صاحب اپنے کئی فلاحی ، اخلاقی کارناموں کی وجہ سے ایک مقبول شخصیت بن چکے ہیں ۔ عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ کئی کارہائے نمایاں انجام دیتے آرہے ہیں ۔ اس ضمن میں چند کارناموں کا خصوص کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جو یقیناً جناب زاہد علی خان صاحب کے مرہون منت ہیں۔
Talents Search Exams conducted :۔ جس کے ذریعہ ملت کے کئی ایک نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہورہے ہیں ۔
Teacher’s Recruitment :۔ تربیت یافتہ بیروزگار اساتذہ کے لئے پابندی کے ساتھ DSC کی تربیت دیتے ہوئے اور انھیں (اسٹڈی میٹریل) مواد مطالعہ فراہم کراتے ہوئے کئی بیروزگاروں کو روزگار سے ہمکنار کردیا ۔ اس ضمن میں یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے نہ صرف امیدواروں کے لئے تیاری کروائی بلکہ انہوں نے سروے کراکر مخلوعہ جائیدادوں کی بھرتی کے لئے کامیاب نمائندگی کرتے ہوئے انھیں اردو اساتذہ کے ذریعہ پر پُر کروایا ۔ جس سے مسلمانوں کی بیروزگاری کا مسئلہ کچھ حد تک سلجھ سکا اور اردو ذریعہ تعلیم کے لئے مفید ثابت ہوا ۔
پولیس ٹریننگ اور دیگر محکموں کے رکروٹمنٹ کے لئے بھی انہوں نے مسلم اقلیتوں کے کاز میں بہت کچھ کیا ہے جس کی وجہ سے خاص کر محکمہ پولیس میں بھی کئی ایک نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوسکے ۔
ہونہار طلباء کی مالی اعانت بھی کی جارہی ہے اور Talent کے مطابق طلباء کی رہنمائی کرتے ہوئے انھیں ان نصب العین کی رسائی کو ممکن کہا جارہا ہے ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تقریباً چار ہزار دو سو مسلم امیدواروں نے سرکاری ملازمت حاصل کی جو جناب زاہد علی خان صاحب کی فعال کارکردگی اور کاوشوں کی غماز ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملت کے درد کو اپنے دل میں محسوس کرنے کا کھلا ثبوت بھی ہے ۔ اس طرح وہ مسلم اقلیتوں کے فلاح و بہبود میں ہمیشہ آگے رہتے ہیں ۔اسی طرح سے ایمسیٹ ، ایڈسیٹ ، لاء سیٹ ، بم سیٹ جیسے کئی مسابقتی امتحانات کی تیاری احاطہ سیاست میں ماہرین کے ذریعہ کروائی جاتی ہے جس میں نہ صرف شہر حیدرآباد بلکہ اضلاع کے مسلم اقلیتیں مستفید ہورہی ہیں ۔ اور ان مسابقتی امتحانوں کے ذریعے قوم اور ملت کے کئی ایک نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا مستقبل تابناک بن رہا ہے۔
مسلم معاشرے کی خواتین کو سماجی دھارے میں لانے اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر انہوں نے خواتین کے لئے پکوان کلاسس ، ٹیلرنگ کلاسس ، کوزہ نقاشی (Pot Painting) مہندی ڈیزائن ، ایمبرائڈری ورک ، کھلونوں کی تیاری ، موم بتی بنانا (Candle Making) اس کے علاوہ نقاشی ، خطاطی ، مصوری اور بناؤ سنگھار (Beautician Course) جو کہ عصر حاضر میں لازمی مانے جاتے ہیں ، ان تمام کی تربیت کا بھی انہوں نے بیڑہ اٹھایا جس میں انھیں کامیابی بھی نصیب ہورہی ہے اور مذکورہ تمام شعبوں میں پردہ دار خؤاتین کا بھی حوصلہ افزا تعاون حاصل ہورہا ہے اور مستورات بھی ان تمام سے مستفید ہورہی ہیں ۔ اب جناب زاہد علی خان صاحب کے فلاحی کاموں کا ذکر کریں تو کئی انگنت کارنامے ہیں جنھیں گنوانا دشوار ہے ۔ ان کی کاوشوں سے کئی ایک مسلم نعشوں کی تدفین (لاوارث مسلم نعشوں کی تدفین) عمل میں آئی ۔
کئی ایک مستحق طلباء و طالبات کو مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے دی جانے والی اسکالرشپس میں رہنمائی کی گئی جس سے کئی مستحق طلباء و طالبات ان اسکالرشپ سے مستفید ہوتے ہوئے آگے کی تعلیم کو جاری رکھ سکے ۔ آج روزنامہ سیاست کی وجہ سے مسلم معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقے میں فروغ آرہا ہے ۔ اسکالرشپس (تعلیمی وظیفے) کی بات کی جائے تو ہر کوئی حانتا ہے کہ دفتر سیاست میں اس ضمن میں رہنمائی کے لئے سال تمام گائیڈنس سیل دفتر پر قائم ہے ۔ جہاں کئی ایک اولیائے طلباء خدمات حاصل کرتے ہوئے اپنے نونہالوں کے لئے اسکالرشپش کو یقینی بنالیتے ہیں ۔ اس طرح ہر سرکاری رعایتوں میں مدد فراہم کرنے کے لئے روزنامہ سیاست روز اول سے تیار رہتا ہے تاکہ مسلم اقلیتیں ان مراعات سے مستفید ہوسکیں اور محروم نہ رہیں ۔
پیشہ ورانہ تدریس کے لئے بھی مستحق طلباء کو فیس ری ایمبرسمنٹ کے لئے رہنمائی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے آج تقریباً ہر گھر میں انجینئرنگ اور وکالت ، پیشہ تدریس جیسے پیشہ ورانہ تربیت یافتہ نوجوان دکھائی دیں گے ۔ ان کی ملازمت کے لئے بھی بھرپور رہنمائی کی جاتیح ہے ۔ آج سیاست کئی ایک فلاحی کاموں کے لئے بھی کافی شہرت رکھتا ہے ۔ سلویٰ فاطمہ کی پائلٹ ٹریننگ کے لئے تلنگانہ حکومت سے 35 لاکھ روپئے کی منظوری یقیناً ایک کارنامہ ہے ۔
بیواؤں کے لئے ، معذوروں کے لئے مالی اعانت کے طورپر وظیفے دلائے جاتے ہیں ۔ نیز مہلک بیماریوں جیسے کینسر وغیرہ کے علاج کے لئے بھی مالی اعانت یامالی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ اس طرح ریاستی و مرکز کے کسی فلاح اسکیم کو عمل آوری کے لئے حکومت سے کامیاب نمائندگی کی جاتی ہے اور حکومت سے منوایا جاتا ہے چاہے وہ ای جی سی ریزرویشن ہو یا ملازمتوں میں ریزرویشن ہو یا اعلی و عصری تعلیم کا مسئلہ ہو زاہد علی خان صاحب کی کاوشوں کی وجہ سے ہی مسلم اقلیتیں سرکاری و غیر سرکاری اعانتوں سے مستفید ہورہی ہیں ۔
زاہد علی خان صاحب کی عقابی نگاہ نے مستقبل کے مسئلہ کو بھانپتے ہوئے ایک فلاحی کام کی بنیاد ڈالی یعنی مسلم معاشرے میں شادی ایک مسئلہ بننے جارہا تھا ، کئی ایک نوجوان لڑکیاں اپنے جیون ساتھی کا خواب سجائے ہوئے بن بیاہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ تب ان نامساعد حالات میں زاہد علی خان صاحب نے ’’دوبدو‘‘ پروگرام کو شروع کیا ۔ الحمدللہ اب تک ’دوبدو‘ کے 44 کامیاب پروگرام عمل میں آئے جن کے ذریعے تقریباً 1200رشتے طے پائے اور ان کی یہ خدمات مسلم معاشرے میں اتنی شہرت رکھتے ہیں کہ لوگ بے چینی سے اس دوبدو پروگرام کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی جوان لڑکی یا لڑکے کی شادی کسی اچھے گھرانے میں طے پاسکے ۔
مسلم معاشرے میں شادیوں میں بے جا اسراف کا چلن بھی عام ہوتا جارہا تھا ۔ نمود و نمائش کے لئے ہمہ اقسام کے لوازمات و پکوانوں کو دسترخوان پر سجایا جارہا تھا جو ایک متوسط طبقے کے لئے کسی بوجھ سے کم نہیں تھا ۔ اس ضمن میں ان کی کاوشوں نے ’’ایک کھانا ایک میٹھا‘‘ کی تجویز رکھی جس کی ستائش ہورہی ہے ۔ اور یہ تمام جناب زاہد علی خان اور ان کے رفقاء کی کاوشوں سے ممکن ہورپارہا ہے ۔