اخلاقی انحطاط اور اس کا نبوی علاج

سوال : مسلم معاشرہ میں روز بہ روز خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں اور مسلمان برائی کو برائی نہیں سمجھ رہا ہے، غیبت ، چغلی دوسرے کی ٹوہ میں رہنا کسی کی برائی بیان کرنا اور اس پر ہنسنا اس طرح کی اخلاقی خرابیاں مسلم معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہیں۔ بداخلاقی ، بدکرداری کی کوئی لمٹ نہیں رہی۔ آپ سے ادباً التجاء ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ کیسا رہنا چاہئے ؟
محمد عبدالاحد، سکندرآباد
جواب : نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنے دل کو دوسروں سے متعلق پاک و صاف رکھنے پر زور دیا اور آپ کے روبرو کسی دوسرے کی شکایت کی جائے تو سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے : میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں۔ (ابو داؤد السنین) ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے دو افراد سے متعلق آپ کو شکایت پہنچائی جسے سن کر آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو کنایۃً فرمایا کہ اس طرح کی باتیں مجھے نہ پہنچایا کرو۔ (بخاری 127:41 )
آپ ہمیشہ صحابہ کو تلقین فرماتے کہ وہ دوسروں کے حق میں اچھی گفتگو کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اخلاق کی بلندی یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے بلکہ عمدہ اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقے ہی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے نیکی کا مفہوم حسن خلق (عمدہ اخلاق) بیان فرمایا۔ یعنی نیکی دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے : البر احسن الخلق (سلم 1980:40 یہ بھی فرمایا : اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا‘‘ یعنی مومنین میں سب سے زیادہ کامل مؤمن وہ ہیں جو ان میں زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں (ترمذی) اس سے واضح ہے کہ ایمان کی تکمیل اخلاق اور طرز معاشرت کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔ فرمایا : ان خیارکم احسنکم اخلاقا (بخاری) تم میں وہی بہتر ہے جس کے اخلاق دوسروں سے اچھے ہوں۔ ایک بار آپ نے فرمایا : اچھے اخلاق والے کو اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ دار اور قائم اللیل (شب بیدار) کا درجہ مل جاتا ہے ۔ (ابو داؤد)
صرف یہی نہیں آپ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرہ میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے ، ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کیلئے وہی پسند نہ کرو جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ (مسلم) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دوسرے سے روگردانی اختیار نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی خواہ مخواہ ٹوہ میں رہو اور اے اللہ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ (مسلم) یہی اخلاق عالیہ کی تعلیم تھی کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی آپ کے گرویدہ تھے لیکن افسوس کہ مسلمان اپنے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ اور اخلاقیات پر مبنی اعلیٰ تعلیمات کو رکھنے کے باوجود اخلاقی اعتبار سے تنزل کے شکار ہیں۔ ہر مسلمان اپنے اخلاق کو اخلاق نبوی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

متعدد اذانوں کا جواب
سوال : حیدرآباد کو مساجد کا شہر کہا جاسکتا ہے۔ بالخصوص پرانے شہر کے ایک محلہ میں کئی مساجد ہوتے ہیں، ہمارے گھر کے قریب بھی چار پانچ مساجد ہیں اور کئی مساجد کی اذان کی آواز ہمارے گھر میں آتی ہے ۔ بسا اوقات ہم کسی دوسرے مقام پرہوتے ہیں۔ وہاں بھی ایک سے زائد کئی مساجد سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ اذان کا جواب دینا ہے لیکن کیا ہر اذان کا جواب دینا لازم ہے۔ ایک وقت کی اذان کئی مساجد سے سنائی دیتی ہے تو کیا ہر مسجد کی اذان کا الگ الگ جواب دینا ضروری ہے یا اس کے کچھ علحدہ احکامات ہیں۔
محمد عبدالقدوس قادری، بورا بنڈہ
جواب : شرعاً اذان کا جواب دینا واجب ہے اور اگر ایک ہی وقت میں متعدد مساجد سے اذان کی آواز آئے تو پہلے جس اذان کو سنے اس کا جواب دینا کافی ہے، بقیہ اذانوں کا جواب دینا لازم نہیں۔ اس کی مسجد کی اذان تک انتظار کرنا ضروری نہیں، پہلی اذان کے جواب سے وجوب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا ۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول کتاب الصلوۃ باب الاذان صفحہ 426 میں ہے : (و یجیب) وجوبا وقال الحلوانی ندبا والواجب الاجابۃ بالقدم (من سمع الاذان) اور رد المحتار مطلب فی کراھۃ تکرار الجماعہ فی المسجد صفحہ 428 میں ہے : قولہ (ولو تکرر) ای بأن اذن واحد بعد واحد، امالو سمعھم فی آن واحد من جھات فسیاتی قولہ (اجاب الاول) سوائً کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ … فالحرمۃ للاول ۔
پس صورت مسئول عنہا میں وقتی نماز کے لئے متعدد مساجد سے دی جانے والی ایک اذان کا جواب دینا کافی ہے اور سب سے پہلی اذان کا جواب دے ۔ اگرچہ وہ مسجد اس سے کافی فاصلہ پر ہی ہو اور جس مسجد میں وہ نماز ادا کرتا ہے اس مسجد کی اذان کا انتظار کرنا یا اسی مسجد کی اذان کا جواب دینا ضروری نہیں۔

مسجد میں قیام کے دوران غسل کا لاحق ہونا
سوال : چند سال بیشتر مجھے حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی ، پہلے ہم عمرہ کئے ، پھر حج سے قبل مدینہ منورہ گئے، مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ میں تہجد کے وقت مسجد نبوی میں داخل ہوجاتا اور ظہر تک مسجد نبوی ہی میں رہتا، ایک دن فجر کی نماز کے بعد میں سوگیا اور اس دوران مجھے غسل لاحق ہوگیا ۔ میں مسجد نبوی سے نکل کر ہوٹل آیا اور غسل کیا پھر مسجد نبوی کو چلے گیا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ غسل کی ضرورت ہو تو کسی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتے۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں اس حالت میں مسجد نبوی جیسی مقدس و متبرک مسجد میں رہا ۔ میں نے اس ضمن میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کی ہے اور نفل نمازیں بھی پڑھی ہے۔ مزید کوئی کفارہ ہو تو بیان کیجئے ۔
محمد وسیم، ای میل
جواب : اگر کوئی شخص مسجد میں سوجائے اور اس کو غسل کی حاجت لاحق ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ تیمم کرلے اور مسجد سے باہر آجائے اگر کسی کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا اور تیمم کے بغیر ہی مسجد سے نکلے اور بعد میں صدق دل سے توبہ کرلے تو انشاء اللہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا لیکن اس کیلئے کوئی کفارہ نہیں اور ایسی صورت مسجد نبوی میں طاری ہوجائے تو بھی یہی حکم ہے ۔ واضخ رہے کہ اس تیمم سے نماز وغیرہ ادا نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ تیمم محض مسجد کے تقدس و احترام کیلئے ہے۔ رد المحتار جلد اول باب الطھارۃ صفحہ 262 میں ہے : وان احتلم فی المسجد تیمم للخروج اذا لم یخف وان خاف یجلس مع التیمم ولا یصلی ولا یقرأ ویویدہ ماقلناہ ان نفس النوم فی المسجد لیس عبادۃ حتی تیمم وانما ھولا جل مکثہ فی المسجد أو لا جل مشیہ للخروج۔

جمعہ کی اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنا
سوال : میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلئے گیا، مجھے وقت کا علم نہ تھا ، کافی دیر پہلے میں مسجد پہنچ گیا۔ ، پندرہ منٹ بعد خطیب صاحب نے اردو خطبہ تقریر کی۔ دوران تقریر قریبی صف میں ایک شخص نے جمعہ سے قبل کی سنت پڑھنا شروع کردی، یہ بات خطیب صاحب کو اچھی معلوم نہیں ہوئی ۔ انہوں نے اردو تقریر کے دوران اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو تقریر کے دوران سنت نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ خطیب صاحب کے اس بیان سے مجھے اطمینان نہیں ہوا کیونکہ اردو تقریر عموماً ہمارے ہندوستان، پاکستان میں ہوتی ہے۔ سعودی عرب و دیگر ممالک میں صرف دو ہی خطبے عربی میں ہوتے ہیں تو کس طرح اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ براہ کرم میرے اس سوال کا جواب جلد سے جلد اپنے شرعی کالم کے ذریعہ دیں تو نہ صرف میرے بلکہ کئی ایک افراد کے معلومات میں اضافہ ہوگا۔
شیخ عمران قادری، ٹولی چوکی
جواب : جمعہ کا پہلا عربی خطبہ شروع کرنے کیلئے امام کے قیام سے لیکر دونوں خطبے ختم کرنے تک بلکہ نماز جمعہ پڑھ لینے تک کوئی نماز پڑھنا سنت ہو یا نفل اور بات کرنا شرعاً مکروہ ہے۔ در مختار کتاب الصلاۃ باب الجمعہ میں ہے : (واذا خرج الامام) من الحجرۃ ان کان والافقیامہ للصعود شرح المجمع (فلا صلاۃ) ولا کلام (الی تمامھا ۔ ردالمحتار میں ہے: و غایۃ البیان انھما یکرمان من حین یخرج الایام الی ان یفرغ من الصلاۃ ۔ پس خطیب صاحب کا جمعہ کے دن اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنے کو صحیح قرار نہیں دینا شرعاً درست نہیں۔

مجازی خدا
سوال : میرے شوہر معمولی باتوں پر مجھ سے جھگڑا کرتے ہیں، گالی گلوج کرتے ہیں، تیرے ماں باپ جاہل ، تو جاہل اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں کبھی مجبور ہوکر انسانی تقاضوں کے تحت اگر میں بچت کروں تو کہتے ہیں کہ شوہر مجازی خدا ہے، گالی دے سکتا ہے ، مار بھی سکتا ہے ۔ تم کچھ نہیں کہنا ورنہ گنہگار ہوں گی، وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتے ہیں، اچھا ہو تو کچھ نہیں ، غلط ہو تو مجھے ہی سخت سست کہتے ہیں۔
علماء کرام صرف شوہر کے حقوق بیان کرتے ہیں، بیویوں کے نہیں، جس کی وجہ سے ان کو شئی مل جاتی ہے۔ براہ کرم تفصیل سے جواب دیجئے تاکہ استفادہ عام ہو۔
نام مخفی
جواب : اللہ نے مردوںکو عورتوں پر متعدد وجوہات کی بناء ایک درجہ فضیلت عطا کی ہے، مردوں کو عورتوں پر نگران بنایا، عورتوںکو معاش سے بری الذمہ کردیا اور ان کا نفقہ اور ضروریات کی تکمیل مردوں پر لازم کردی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الرجال قواموں علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما نفقوا من اموالھم (سورۃ النساء 34/4 )
ترجمہ : مرد ، عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے مال میں سے ان (عورتوں) پر خرچ کرتے ہیں۔
لیکن جہاں تک حقوق کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے مرد و خواتین کے حقوق میں مساوات و برابری کو رکھا جس طرح عورتوں پر شوہر اور بچوں کے حقوق اور فرائض و ذمہ داریاں ہیں، اس طرح شوہروں پربھی ان کی بیویوں کے حقوق و واجبات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف و للرجال علیھن درجۃ الایۃ (سورۃ البقرہ 228/2 ) ۔
ترجمہ : عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسے کہ ان کے ذمہ داریاں ہیں۔ بھلائی کے ساتھ اور مردو ںکو عورتوں پرایک درجہ فضیلت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کریں، حسن معاشرت سے پیش آئیں اور ان کے ساتھ بھلائی اور نرمی کا معاملہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ارشاد نبوی ہے ۔ خیرکم خیرکم لأھلہ (الحدیث) تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر ہو اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں، خیرکم الطفکم بأھلہ (الحدیث) ترجمہ : تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ پر سب سے زیادہ نرم ہو۔
شوہر بیوی پر ناحق برہم ہو اور ہمیشہ گالی گلوج سے پیش آئے، بیوی پر زیادتی کرے تو بلا شبہ وہ گنہگار ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ماخوذ ہوگا۔ ایسے حالات میں بیوی کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ صبر کا انجام بہت اونچا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ الصبر ثوابہ الجنۃ (الحدیث) ترجمہ : صبر اس کا ثواب جنت ہی ہے۔ تاہم بیوی، شوہر کی مسلسل زیادتیوں سے تنگ آکر بے قابو ہوجائے اور کبھی دلبرداشتہ ہوکر جواب دیدے تو وہ آخرت میں ماخوذ نہیں ہوںگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الامن ظلم وکان اللہ سمیعا علیما۔ (سورۃ النساء 148/4 ) ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کسی (کی) بری بات کا بہ آواز بلند( ظاہر او علانیۃ) کہنا پسند نہیں فرماتا۔ سوائے اس کے جس پر ظلم ہو اور اللہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔ نیز شوہر کا خود کو مجازی خدا گرداننا اور اپنی زیادتی کو روا سمجھنا شرعاً درست نہیں۔