اختر شیرانی ۔ حسن و ادا اور رومانی احساس کا شاعر

ڈاکٹر محمد فیض احمد
اردو کے رومانی احساس کے شاعر اختر شیرانی (1948-1905) کے ہاں بھی رومانیت کے واضح پہلو پائے جاتے ہیں جس میں احساس حسن کی شدت ، جمال پرستی اور عورت کے حسن کو مرکزیت حاصل ہے ۔
بہارستان کے مندر کی ان کو دیویاں کہئے
جو گل کو کرشن کہے ان کو اس کی گوپیاں کہئے
کوئی جان ملاحت ہے کوئی کان صباحت ہے
مجھے تو کچھ انہیں بیمار کلیوں سے محبت ہے
اختر اپنے خیال میں بھگوان کرشن اور ان کی بتیس ہزار گوپیوں کی دیومالائی کہانی کو اپنی رومانیت اور اس کی تخلیقیت کے آئینہ میں دیکھتے ہیں وہ اس لئے کہ زندگی کی حقیقتیں انہیں بیزار کردیتی ہیں تب ہی تو وہ حسن کی سرمستی ، عورت کے حسن و شباب ، مناظر فطرت اور تخیلی ماورائی کے حسین و خوشنما جہاں میں اپنے کو کم کرکے جنگل اور گھٹاؤں کا مسافر بن جانا بہتر سمجھتے ہیں ۔

فرش زمردیں پر کچھ پھول سورہے ہیں
نغمے کی پر کی جنبش جن کو جگارہی ہے
جنگل مہک رہا ہے کلیاں چٹک رہی ہیں
ہرتان میں الہی کیا گل کھلارہی ہے
پھرتی ہیں آؤارہ متوالی گھٹائیاں اس طرح
اور ہوائیں اس طرح
جھومتا پھرتا ہو جیسے میگساروں کا ہجوم
بادہ خواروں کا ہجوم
اختر شیرانی کی جمال پرستی تخیل کی رنگ آمیزی کے علاوہ فطری کا بیان بھی ان کے کلام میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔ فطرت پرستی اور حسن کاری اور موسم بہاراں میں حسن فطرت کی جاذبیت کے سبب ان کے احساسات میں رومانیت ابھر آتی ہے ۔
جب وقت پہ سب رنگینیاں اس وادی میں یکجا ہوتی ہیں
تب کلیوں کے رنگیں پہلو سے کچھ حوریں پیدا ہوتی ہیں
خیالات کی مصوری اختر کو ایک حسین بت تراش بنادیتی ہے جن میں رومانیت اور تخیل کی آمیزش کی گھلاوٹ الفاظ کے سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں۔

روپہلی چاندنی نے رات کو کھلی چھت پر
ادا سے سوئے ہوئے بار بار دیکھا ہے
سنہری دھوپ کی کرنوں نے بام پرتم کو
بکھیرے گیسوئے مشکیں بہار دیکھا ہے
سنہرے پانی میں چاندی سے پاؤں لٹکائے
شفق نے تم کو سر جوئے بار دیکھا ہے
اخترکا محاکماتی انداز بیاں ان کے احساس کی فطری مرقع کشی سے عبادات ہے ۔ ان کے رومانی جذبہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس کیفیت کو تمام جزئیات کے ساتھ ابھارا ہے ۔ اپنی چند محبوباؤں سلمی ، لیلی ، لبنی ، ریحانہ ، جوگن ، نورجہاں ، عذرا اور شیریں میں نظم جوگن کے اشعار ملاحظہ فرمائے ۔
پتوں سے اب تک اس کی آواز آرہی ہے
اب تک میں سرجھکائے ذرہ کھڑا ہوں
اب تک وہی تجلی آنکھوں پہ چھارہی ہے
دیکھو وہ کوئی جوگن جنگل میں گارہی ہے
اختر کی شاعری میں جنسی محبت کے علاوہ محبوبہ سے وابستگی کے جذبات نمایاں نظر آتے ہیں یعنی ان کی محبوبہ کے حسن وجمال کے خیال کی بابت تخیل ماورائیت سے قریب جاپہنچتا ہے جو شدید احساس سے عبارت ہے ۔ یہی رومانی احساس جوش محبت کی تڑپ کو مزید گر ملتا ہے ، یہ رنگ کسی بھی عاشق کو اپنی معشوقہ کے لئے ناممکن حقائق پر تخیل کی چادر تلے آسمان سے تارے توڑنے اور اس کے ماتھے پر سجانے کی باتیں اس شدید رومانیت سے عبارت ہے جس کا حقیقت سے سروکار نہیں اس رومانی احساس کو دیکھئے ۔
تم حکم دے تو ستاروں کو چھین لاؤں میں
فلک سے اس کے نظاروں کو چھین لاؤں میں
ارم کی مست بہاروں کو چھین لاؤں میں
ندائی کو یہ تماشا دکھا بھی جا سلمی

اپنی معشوقہ کو رجھانے کے لئے وہ بلند حوصلہ مندی کا اظہار کررہے ہیں یعنی وہ ایک رومانی فضا تیار کی جارہی ہے جو انہیں ذہنی تسکین وہ آسودگی کا سامان کرتی ہے ۔ اختر بھی اسی خیالی جنت کے شیدائی اور زندگی اور اس کے تلخ حقائق سے فرار کا ایک خوشنما طرز ہے ۔ اسی شوق فرار کو ان کی نظم اے عشق کہیں لے چل میں دیکھئے۔
آنکھوں میں سماتی ہے اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن مہتاب نما دنیا
جنت کی طرح رنگین شاداب دنیا
للہ وہیں لے چل ، اے عشق کہیں لے چل
یہ نظم اختر کی خیالی دنیا کی بہشت کی سیر کرائی ہے ۔یہ خیال انسان کی محرومیت کو خیالی پذیرائی کے ذریعہ نکھارتی ہے ۔ اس قسم کی کیفیت میں ہر شخص اپنی شبابی زندگی میں ضرور مبتلا ہوتا ہے ۔ یہ کیفیت فطری اور رومانی ہے اس شاعرانہ تصور کوہم اختر کی شاعری میں محسوس کرسکتے ہیں جو اردو کے دوسرے شاعروں کے مقابلے میں انوکھے دل پذیر خیالات لگتے ہیں ، اچھا تو رومانی محبت میں ایک احساس الم انگیزی اور حزن و ملال بھی ہے ۔ وہ اس لئے کہ رنگین و حسین دنیا ہر کسی کو فراہم نہیں ہوتی تب ہی تو وہ اپنے تئیں دنیا سے بیزاری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
مرا بس ہو تو اخترؔ میں انہیں کا رنگ ہوجاؤں
ہمیشہ کے لئے ان چمپئی پردوں میں سو جاؤں
مجھے ان کی رسیلی گود میں مرنے کی حسرت ہے
مجھے تو کچھ انہیں بیمار کلیوں سے محبت ہے

شاعروں کی تخلیقیت میں نمایاں پہلو اس کی موسیقیت اور غنائیت ہے ۔ قاری کو باندھے رکھتی ہے ۔ اختر کے کلام میں بھی ترغی نعمے ،صوتی کیفیات و آہنگ ، جذبہ کا شدید تاثر ، کیف و خیال ، احساس جمال کی چاہت اور تصوریت کے ساتھ مشاہدات اور احساس کی گہرائی پائی جاتی ہے ۔ جو فطری معلوم ہوتے ہیں ، اکیسویں صدی کی تھکادینے والی زندگی انسان اختر کی شاعری میں ایک نئی پراسرار دنیا کی تخلیقیت اپنی جانب کھینچتی ہے ۔ جب اختر کی حیات کا زمانہ اس قسم کے ماحول سے مبرا تھا لیکن اس پرسکون ماحول میں بھی ان کا ذہن بے چین تھا ایک ایسی دنیا کی تلاش میں جہاں سکون ، پیار اور رومان ہو ۔ اس لئے اختر اپنی محبوباؤں کے توسط سے جو ان سے باتیں کرتی ہو یا تخلیقی پیکر رکھتی ہے بہرحال ان کے ہاں ایک رومانی فضا تو ضرور دیکھی جاسکتی ہے ۔
سورج کی سب سے پہلی کرن خوشنما سہی
لیکن تری آنکھوں کی طرح دل نشیں کہاں
آنکھوں نے ذرے ذرے پہ سجدے لٹادے
کیا جانے جا چھپا مرا پردہ نشیں جہاں
کس کے در پر نہ کئے سجدے نگاہوں نے مگر
ہائے تقدیر وہ غارت گر ایماں نہ ملا
اختر اپنی شاعری میں سلمی نامی حسینہ کی محبت کے ترانہ خوب گنگائے ہیں جو شاعرانہ ہیولا نہیں ہے بلکہ وہ اس پر فریفتہ اور اس کے اسیر ہیں اختر کے یہی منظرنامہ پیش ہے ۔
اگر مجھے نہ ملیں تم ، تمہارے سر کی قسم
میں اپنی ساری جوانی تباہ کردوں گا
انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کسی حصہ میں حسن کی تلاش ضرور کرتا ہے اس سے متعلق سرگرداں رہتا ہے تو ساری دنیا اس کی تسکین میں حائل اور دشمن نظر آتی ہے ۔ یہی احساس اختر شیرانی حسن کا بھی ہے ۔ اس میں وہ عورت کا حسن و سرمستی ، فطرت کے مناظر اور وطن سے محبت میں ان رومانی عناصر کو تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
دکھادو ایک جھلک اپنی بس نگاہوں کو
دوبارہ دیکھنے کی ہے ہوس نگاہوں کو
اختر کے کلام کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں سکون کے متلاشی تھے انہیں وہ سکون کسی نازنین ہی دے پاتی تھی لہذا وہ رومانی تصور کے تابع اور ذہنی تاثرات کے انکشاف کی شاعری کرتے رہے ۔ یہ جذباتی ابال انہیں سماج میں بدنامی سے بھی دوچار کردیتا تھا۔

بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہا ہوں
اس شمع رو کا جب پروانہ بن گیا ہوں
بستی کی لڑکیوں میں افسانہ بن گیا ہوں
ہر ماہوش کے لب کا پیمانہ بن گیا ہوں
دیوانہ ہورہاہوں ، دیوانہ بن گیا ہوں
دیوانہ بن گیا ہوں سلمی سے دل لگا کر
جہاں تک مشرقی تہذیب معاشقہ لڑانے کو معیوب قرار دیتی ہے لہذا یہ شغل محض افواہوں کا بازار گرمادیتا ہے ، لیکن ان سماجی حقائق کے باوجود اختر اس جیتے جاگتے پیکر جو ان کو عورت کے حسن میں نظر آتا ہے ۔
جب تلک دل میں محبت نہ ہوتی تھی پیدا
میرے افکار کے پھولوں میں بہار آئی نہ تھی
میرے اشعار میں رنگینی و رعنائی نہ تھی
میرے تخیل میں ندرت نہ ہوئی تھی پیدا
اختر کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ان کے ہاں رومانیت کے مختلف رنگ و روپ ہیں جو محبت کی تقدیس سے مملو ہیں ۔ اسی تاثر کو انہوں نے اپنی شاعری میں موضوع بنایا جو مطالبات انسانی ہیں جس میں کسی جسم کی طلب ، معشوق کی سراپا نگاری کے خد و خال میں لذت پسندی اور چاہت میں وہ عورت کے ایسے متنوع اوصاف گنواتے ہیں جن میں دلکشی ، حسن و ادا اور رنگینی پائی جاتی ہے ۔بہرحال اختر کے تصور عشق میں محبوب کی اک خوبصورت تصویر آویزاں ہے یہی میرے مطالعہ کا محاکمہ ہے ۔