اخبار بینی

میرا کالم              سید امتیاز الدین
دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ جو چیزیں کل تک رائج تھیں آج ان کا رواج ختم ہوگیا ہے ، لیکن اخبار ایسی چیز ہے جو ہر تھوڑے بہت پڑھے لکھے آدمی کی زندگی میں داخل ہے ۔ ہر صبح ہم بے چینی سے اپنے اخبار کا انتظار کرتے ہیں ۔ حالات حاضرہ میں ہمارا کوئی دخل نہیں لیکن ہم حالات حاضرہ جاننے کے لئے اتنے بے چین رہتے ہیں جیسے دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے ہماری مرضی کے مطابق ہورہا ہے ۔ ہماری طبعی عمر اور ہماری اخبار بینی کی عمر میں بہت کم فرق ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم کو بہت چھوٹی عمر میں اردو لکھنا پڑھنا آگیا تھا  ۔گھر کے لوگ ہم سے اخبار پڑھوا کر سنتے تھے  ۔ ہمارے گھر کوئی رشتہ دار آتے تو ان سے کہا جاتا ذرا اس بچے سے اخبار پڑھوا کر سنئے ، بہت صاف پڑھتا ہے ۔ ایک بار ہمارے تایا ہمارے گھر آئے ۔ ہم ان کو اخبار سنانے لگے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک ابھی جمہوریہ نہیں بنا تھا اور پریسیڈنٹ کی بجائے ملک کا صدر گورنر جنرل ہوا کرتا تھا ۔ ہم نے گورنر جنرل کو گورنر حب زل پڑھ دیا ۔ ہمارے تایا ہنسے اور کہا ’’میاں! اسے گورنر جن رل پڑھو‘‘ ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم اسکول میں شریک نہیں ہوئے تھے اور انگریزی تعلیم باقاعدہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ جب ہمارا اسکول میں داخلہ ہوگیا تو ایک انگریزی اخبار بھی جاری کرایا گیا ۔ ان دنوں سب سے سستا انگریزی اخبار فری پریس جرنل تھا جو بمبئی سے نکلتا تھا ۔ اس کی قیمت چھ پیسے تھی اور وہ دن میں تین بجے آتا تھا  اس طرح ہم صبح میں اردو اخبار پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور اسکول سے واپسی پر انگریزی اخبار پڑھتے تھے ۔ صبح کی اردو خبریں ذہن میں رہتی تھیں تو شام میں انگریزی خبریں کچھ کچھ سمجھ میں آجاتی تھیں ،

لیکن ایک بار عجیب اتفاق ہوا ۔ بمبئی کے کسی مقامی لیڈر کا انتقال ہوا اور فری پریس جرنل میں اس کے نام کے ساتھ Passes away لکھا ہوا آیا ۔ اتفاق دیکھئے کہ اس کے دوسرے ہی دن ہمارے کلاس ٹیچر نے ہم سے چاک منگوایا کیونکہ بورڈ پر لکھنے کے لئے کلاس میں چاک نہیں تھا ۔ چاک ہیڈ ماسٹر کے چپراسی کے پاس ہوتے تھے  ۔ہم کلاس سے جونہی باہر نکلے ہم کو ہیڈ ماسٹر دکھائی دیئے جن کے ہاتھ میں بید تھی ۔ اسکول کے اوقات میں اگرکوئی بچہ کلاس کے باہر دکھائی دیتا تو ہیڈ ماسٹر صاحب پہلے بید کا استعمال کرتے پھر باہر نکلنے کی وجہ پوچھتے ۔ ہم دور سے ان کو دیکھ کر تیزی سے دوبارہ کلاس میں داخل ہوگئے اور کلاس ٹیچر سے کہا Sir, Head Master is passing away ہمارے کلاس ٹیچر مسکرائے اور ہماری اصلاح کردی کہ ایسے موقع پر کیا کہنا چاہئے ۔ بہرحال ،  اخبار کے روزانہ مطالعے سے ہماری اردو ، انگریزی دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہتر ہوگئی اور عام معلومات بھی دوسروں سے زیادہ ہوگئیں ، جس کا فائدہ ہمیں جنرل نالج کے مقابلوں میں ہوا ۔ ہم اب بھی پابندی سے اخبار پڑھتے ہیں لیکن پورا اخبار کبھی نہیں پڑھتے ۔ دس پندرہ منٹ میں اپنی دلچسپی کی خبریں دیکھ لیتے ہیں ۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ہم کو اپنے مخصوص اخبار کے مطالعے کی عادت ہے ۔ اگر اخبار والا کوئی اور اخبار ڈال کر چلا جائے تو بڑی کوفت ہوتی ہے ۔
جب ہم ہائی اسکول میں آگئے تو ہماری خواہش ہوئی کہ کاش کبھی ہمارا نام بھی اخبار میں چھپے ۔ اتفاق دیکھئے کہ ہمارے محلے میں معین فاروقی صاحب رہتے تھے جو ہم سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے اور ہم سے آپ یا تم کی بجائے تُو سے خطاب کرتے تھے ۔ ایک دن انھوں نے ہم سے کہا ’’تو بھی کچھ لکھ بابو میں تیرے نام سے اپنے اخبار انگارے میں چھاپ دوں گا‘‘ ۔ ہم خوش تو بہت ہوئے لیکن پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ ’’آخر لکھوں کیا‘‘ ۔ کہنے لگے ’’لطیفے لکھ یا منتخب اشعار لکھ میں چھاپ دوں گا‘‘ ۔ ہم نے ہر ہفتے یہ سلسلہ شروع کیا ۔ ہمارے پاس مختلف عنوانات کے تحت اشعار کی ایک کتاب تھی جیسے محبت ، گلاب ، رقیب ، زاہد وغیرہ ۔ لطیفے تو خود ہم کو بہت یاد تھے  ۔لیکن ہم کو شبہ ہے کہ اس اخبار میں پروف ریڈنگ نام کی چیز برائے نام ہوتی تھی کیونکہ ہمارے بھیجے ہوئے اشعار اور لطیفے تو چھپ جاتے تھے لیکن ہمارا نام آنے سے رہ جاتا تھا۔ ایک بار ہم نے معین فاروقی صاحب سے شکایت کی کہ ’بھائی میرے لطیفے تو چھپے ہیں لیکن میرا نام غائب ہے ‘ ہنس کر بولے ’یہ خود ایک لطیفہ ہے‘ ۔ اس کے بعد ہم نے پڑھائی کا بہانہ کرکے یہ سلسلہ منقطع کردیا ۔

1982 ء میں ایک دن ہم نے ریڈیو پر سنا کہ جوش ملیح آبادی کا کراچی میں انتقال ہوگیا ۔  نہ جانے اس دن ہم پر کیا بھوت سوار ہوا کہ ہم نے بمشکل ایک گھنٹے میں ایک تعزیتی نظم لکھ دی اور اسے فون پر اپنے بڑے بھائی شاذ تمکنت کو سنائی ۔ بھائی نے نہ صرف اسے پسند کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسے فوراً سیاست میں دے دو ۔ ہم اپنی نظم لئے ہوئے لرزتے کانپتے سیاست کے دفتر پہنچے ۔ محبوب حسین جگر صاحب ایک بڑے ہال میں بیٹھتے تھے اور ہر آنے والا پہلے ان کی نظروں میں آتا تھا اور وہ سلام کو ہاتھ اٹھادیتے تھے ۔ جگر صاحب مجھے اچھی طرح جانتے تھے ۔ کچھ تو میرے بڑے بھائی کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میں اسی علاقے کا الکٹریکل انجینئر بھی تھا ۔ بہت اخلاق سے ملے ۔ میں نے جیب سے اپنی نظم نکالی اور کہا کہ یہ نظم جوش صاحب کے انتقال پر میں نے لکھی ہے ۔ جگر صاحب کچھ پریشان سے ہوگئے ۔ شاید انھوں نے سوچا ہو کہ ایک انجینئر کو شاعری سے کیا سروکار ۔ کہیں یہ محض تُک بندی نہ ہو یا مالِ مسروقہ نہ ہو ۔ بہرحال ہم جیسے تیسے اپنی نظم انھیں تھما کر واپس ہوگئے ۔ معلوم ہوا کہ بعد میں جگر صاحب نے ہمارے بھائی کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا یہ نظم آپ نے دیکھی ہے ۔ بھائی نے انھیں اطمینان دلایا ۔ چنانچہ دوسرے دن سیاست کے پہلے صفحے پر جوش صاحب کے انتقال کی خبر چھپی تھی اور دوسرے صفحے پر اس ناچیز کی تعزیتی نظم ۔ ہم اپنی نظم دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اپنے دو دوستوں کو دکھائی ۔ ایک دوست جو بال کی کھال نکالنے میں ماہر تھے ۔ کہنے لگے ’ اس نظم کے اوپر تمہاری اور جوش صاحب کی تصاویر ہوتیں تو اچھا تھا‘ ۔ دوسرے دوست جو کسی کی کہی ہوئی بات کو کاٹنے میں یکتا تھے ۔ کہنے لگے ’’ہرگز نہیں ! دو تصاویر شائع ہوتیں تو لوگوں کو شبہ ہوتا کہ اصل میں انتقال کس کا ہوا ہے‘‘ ۔ مزید دھکّا ہم کو اس وقت پہنچا جب مجتبیٰ حسین صاحب نے ، جو ان دنوں حیدرآباد آئے ہوئے تھے ،بھائی سے فون پر پوچھا ’کیا آپ کے بھائی صاحب عرصے سے جوش صاحب کے مرنے کے منتظر تھے کہ ان کی تجہیز وتکفین سے پہلے ہی نظم چھپوادی‘ ۔

خیر بات چل رہی تھی اخبار بینی کی اور ہم ادھر اُدھر بھٹک گئے  ۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کل اخبار پڑھنے کا مزہ نہیں رہا  ۔ہر روز ایک جیسی خبریں چھپتی ہیں ۔ سنا ہے کہ کسی زمانے میں پاکستان ریڈیو سے ایک صاحب خبریں پڑھتے تھے جن کا نام تھا شکیل احمد ۔ شکیل احمد خبریں اس اعتماد سے پڑھتے تھے کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ بغیر نیوز بلیٹن کے بھی محض اپنے تجربے اور مہارت سے خبریں سناسکتے تھے  ۔ آج کل دنیا اور ملک کے حالات ایسے ہیں کہ آپ آج بتاسکتے ہیں کہ کل کے اخبار میں کیا آنے والا ہے ۔ مشرق وسطی ، شام ، فلسطین وغیرہ میں کہیں نہ کہیں خودکش حملہ ہوتا ہے ، جس میں سیکڑوں جانیں جاتی ہیں اورکسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ہمارے ملک میں کہیں سیلاب میں یا تو کئی گھر بہہ گئے ہیں یا ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ کر محصور ہیں ۔ حکومت کی کارکردگی سے اپوزیشن پارٹیاں بالکل غیر مطمئن ہیں اور خود حکومت بے حد مطمئن ہے اور بار بار اپنی پیٹھ ٹھونک رہی ہے ۔ بعض لوگ کروڑوں اربوں کا غبن کرکے دیار غیر میں جابسے اور وطن سے دوری میں عافیت محسوس کررہے ہیں ۔وزیراعظم بالعموم بیرونی دوروں پر رہتے ہیں اور ٹوئیٹر پر اہل وطن کو سلام شوق بھیجتے ہیں ۔ مقامی  خبروں میں آشنا کے ہاتھوں شوہر کا قتل یا شبہے کی بنیاد پر شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل ، یا نصف شب میں آٹو رکشا میں کسی لڑکی کے ساتھ بدسلوکی ۔ بس ایسی ہی خبریں تھوڑے سے الٹ پھیر کے ساتھ دیکھنے میں آتی ہیں ۔ ہماری سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آئی کہ ایسے میاں بیوی جو ایک دوسرے سے ناراض ہیں سیدھے سیدھے طلاق یا قانونی علحدگی کیوں نہیں اختیار کرلیتے ۔ جیل جانے سے تو بچ جائیں گے اور اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا موقع تو رہیگا ۔ خیر ہم مشورہ دینے والے کون اور ہمارا مشورہ سننے والا کون ہے ۔
اخبار بینی کی ایک قسم اجتماعی اخبار بینی بھی ہے ۔ ہم جن دنوں پابندی سے واک یعنی چہل قدمی کے لئے جاتے تھے تو واپسی میں ایک ہوٹل میں اپنے تین چار دوستوں کے ساتھ چائے پیتے تھے ۔ وہاں ایک صاحب چند ناخواندہ لوگوں کے گھیرے میں بیٹھ کرپڑھتے تھے ، جسے باقی لوگ نہایت غور سے سنتے تھے  شاید نیوز ریڈر صاحب کا معاوضہ ایک کپ چائے تھا جو انکے سامعین انھیں پلاتے تھے ۔ ایک مرتبہ تو اخبار پڑھ رہے تھے ۔ انھوں نے سرخی پڑھی ’زیر تعمیر عمارت منہدم‘ ۔ انھوں نے چیخ مار کر کہا ’ارے میں تو بھول ہی گیا تھا ۔ میں ایک کمرہ بنوارہا ہوں جس کے لئے ریتی اور سیمنٹ آنے والی ہے‘ یہ کہہ کر وہ اخبار ٹیبل پر ڈال کر تیزی سے رخصت ہوگئے ۔

اسی طرح بعض لوگ نہایت تحقیقی نظر سے اخبار پڑھتے ہیں ۔ ایک بار انتقال کے کالم میں کسی صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ۔ دو تین مرحومین کے سانحۂ ارتحال کی اطلاع کے بعد اسی کالم میں پھر انہی صاحب کے انتقال کی خبر چھپ گئی ۔ یہ صاحب جو تحقیقی نظر رکھتے تھے فوراً اخبار کے دفتر پہنچے اور انتقال کا کالم دیکھ کر دریافت کرنے لگے کہ یہ کتنا عجیب واقعہ ہے کہ ایک ہی دن میں دو ہم نام اشخاص جن کی ولدیت بھی ایک ہے انتقال کرگئے ۔ اگر اس خبر کی تصدیق ہوجائے تو میں یہ تراشہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لئے روانہ کروں ۔

ایک زمانہ تھا جب اخبار صرف خبروں تک محدود رہتا تھا لیکن اب اخبار سماجی خدمات بھی انجام دے رہا ہے ۔ جیسے روزگار کے مواقع ، مسابقتی امتحانات کی رہ نمائی ، دوبدو رشتے ، تربیتی کورس اور کلاسس ، اردو کے فروغ کی کوششیں وغیرہ ۔ لیکن ابھی بھی ایک محاذ ایسا ہے جس میں کامیابی ملنا باقی ہے اور وہ ہے شادیوں میں فضول خرچی ۔ شادیوں میں سادگی سے متفق تو سب ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو بہت کم لوگ کھرے اترتے ہیں ۔ جس دن صحیح معنی میں سادگی سے شادیاں ہونے لگیں گی ہم سمجھیں گے کہ یہ مشن پورا ہوا ۔ اس سال رمضان کی عید کے بعد شاندار شادیوں کے دعوت نامے جو ہمیں ملے ہیں آج تک کبھی نہیں ملے تھے ۔ پُرتکلف ضیافتوں کے لئے میزبان ہی ذمہ دار نہیں بلکہ باذوق مہمان بھی شریک ہیں ، جو میلوں کی مسافت طے کرکے دور دور کے شادی خانوں میں ہونے والی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں اور لذیذ کھانوں کا لطف اٹھاتے ہیں ۔ حال ہی میں ہم کو ایک شادی میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا جو ہمارے گھر سے چودہ کیلومیٹر دور تھی ۔ ہم جب پہنچے تو نکاح جبھی ختم ہوا تھا اور لوگ نوشہ سے مل رہے تھے ۔ ہم بھی غلطی سے شہ نشین پر چڑھ گئے ۔ ہمارے ساتھ ایک اور محترم ساتھی بھی تھے ۔ جب ہم دلہے اور اس کے عزیز و اقارب سے مل کر نیچے اترے تو ڈائننگ ہال بھرچکا تھا ۔ ہمارے ساتھ جو محترم ساتھی تھے ہم سے کہنے لگے ’’تم نے دلہے سے مل کر زندگی کی بدترین غلطی کی ہے ۔ ارے میاں دلہا کہاں بھاگا جاتا ہے ۔ پہلے کھانا کھاتے پھر اطمینان قلب کے ساتھ مبارکباد دیتے‘‘ ۔ بہرحال شادیوں میں کوئی محض شرکت کے خیال سے شریک نہیں ہوتا ۔ لذت  کام و دہن اصل محرک ہوتی ہے ۔

چلتے چلتے پھر ایک بار اخبار بینی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اخبار بینی کے کچھ چھوٹے موٹے نقصانات بھی ہیں ۔کبھی اخبار میں ساڑیوں کے ڈسکاونٹ سیل کے اشتہار آجاتے ہیں ۔ ہم ایسے فتنہ خیز اشتہار والے صفحے کو مفاد عامہ کے پیش نظر غائب کردیتے ہیں تاکہ بیوی کی نظر نہ پڑے۔ ہماری ملازمہ اردو لکھنا پڑھنا جانتی ہے ۔ کام ختم کرنے کے بعد وہ کچھ دیر اخبار دیکھ کر جاتی ہے ۔ چار چھ دن پہلے ہم نے اخبار میں دیکھا کہ گھریلو ملازمہ کی اقل ترین تنخواہ نو ہزار ہوا کرے گی ۔ اس خبر کو پڑھتے ہی ہم پر جیسے بجلی گرپڑی ۔ ہم نے سالم اخبار نہایت محفوظ جگہ پر چھپادیا ۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ تو صاحبو! اخبار بینی کے بارے میں آج کی حد تک بس اتنا ہی ۔