خلیق الزماں نصرت
احمد ندیم قاسمی کا خاندانی نام احمد شاہ جو پیر غلام نبی شاہ کے صاحبزادے تھے ۔ 20 نومبر 1916 ء کو انگہ تحصیل خوشاب ، ضلع سرگودھا ، پنجاب (پاکستان) میں پیدا ہوئے ۔ خشونت سنگھ بھی خوشاب کے رہنے والے تھے ۔ ان کے قبیلے کو اعوان کہا جاتا ہے ۔ جب احمد ندیم 8 سال کے ہی تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا ۔ انہوں نے والد کے انتقال کے ایک سال بعد انگہ کی مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے پرائمری اسکول کا امتحان پاس کیا ۔ بی اے کرنے کے بعد ان کی پہلی نظم محمد علی جوہر شائع ہوئی تھی ۔ کئی لوگوں نے اس نظم کے بارے میں لکھا ہے کہ 15 سال کی عمر میں لکھی گئی ہے لیکن غلط ہے ۔
یتیمی نے انہیں زندگی کی چکی میں پسنے کے لئے اس طرح مجبور کردیا کہ انہیں جو بھی کام ملتا گیا ، کرتے گئے ۔ اس کے آگے کا راستہ ڈھونڈتے رہے ۔ ایسی حالت نے ان کے جینے کے انداز کو نیا کردیا ۔ ندیم کی زندگی جی کر اس سے جو تلخ تجربات حاصل کئے ، اس کو زمانے کے سامنے اپنی تحریر سے ظاہر کرتے رہے ۔
پہلی نوکری احمد ندیم قاسمی نے لاہور میں ریفارم کمشنر کے دفتر میں محرر کے طور پر کی ۔ اس وقت انھیں وہاں سے صرف 20 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی ۔ٹیلی فون آپریٹر کا بھی کام کیا ۔ چند سال کسٹم میں بھی رہے ۔ اس کے بعد پشاور ریڈیو اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹرکی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ایک خاص بات 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت وہ اسی ریڈیو اسٹیشن پر تھے ۔ پشاور ریڈیو نے اپنے پروگرام کا آغاز احمد ندیم قاسمی کے لکھے ترانے سے کیا ۔ انہوں نے ادب کے تمام صنفوں میں طبع آزمائی کی ، غزلیں لکھیں ، افسانے لکھے ، صحافی کا کام کیا ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے آخری جنرل سکریٹری رہے ۔ تحقیق و تنقید میں بھی بڑا نام کیا ۔ بچوں کے ادب میں کام کیا ۔ ان کی موت تک 17 افسانوی مجموعے ، 8 شعری مجموعے ، 3 تحقیق و تنقید ، 6 ترجمے اور 3 بچوں کے لئے کتابیں لکھیں ۔ اخبار کے کالم اور اداریہ کی تعداد تو بے شمار ہیں جو شائع ہونے سے رہ گئے ۔ اس سلسلے میں ان کا خاص کام ’’فنون‘‘ کی ادارت تھی جو ملک کیا بیرون ملک میں بھی پڑھا جاتا تھا ۔ اس کی آخری عمر تک سرپرستی کی ، مختلف روزناموں میں کالم لکھا ۔ امروز ، ہلال پاکستان ، لاہور ، احسان ، جنگ کراچی میں مختلف عنوانات سے کالم لکھتے رہے ۔ انہوں نے فرضی نام سے مختلف سیاسی کالم لکھے ۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کی کئی نسلوں کی رہنمائی کی ۔ ابتداء میں مسلم لیگ سے جڑے رہے ، پھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے ۔ لیکن ان کے خیالات جب ترقی پسندوں سے میل نہیں کھانے لگے تو اسے بھی چھوڑ دیا ۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کو بھی ناپسند کیا ۔ 1951 ء میں آپ کو نظر بند رکھا گیا ۔
فلموں کے ڈائیلاگ اور گانے بھی لکھے ۔ مختلف اعزازات اور انعام سے انہیں نوازا گیا جس میں پاکستانی ادب کا انعام ’ستارہ امتیاز‘ پاکستان اور آدم جی ایوارڈ بھی انہیں ملا ۔ شاعری کے میدان میں بہت اچھے اچھے اشعار کے خالق بنے ۔ انھوں نے پاکستان ، سعودی عرب ، عرب امارات اور مغربی ممالک کے سینکڑوں مشاعروں اور سمیناروں میں شرکت کرکے اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے ۔ میں نے ان کی شاعری کے برمحل اشعار کا انتخاب کیا ہے جو میری مستقبل میں آنے والی کتاب برمحل اشعار (حصہ دوم) میں شامل ہیں ۔
انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا اسے پلٹ کے تو جھونکا ہوا کا تھا
(جدید اردو غزل بخط شاعر خود ص 79)
آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا
(جدید اردو غزل بخط شاعر خود ص 13)
کون کہتا ہے موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
(جدید اردو غزل بخط شاعر خود ص 20)
شب وصال ہے گل کردو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
(مشہور اشعار ص 206)
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
(مشہور اشعار ص 206)
ہم کو شاہوں کی عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلادیتے ہیں
(اردو غزل ص 294)
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
(ضرب المثل ص 51)
اور یہ شعر ہمارے ذہن میں برسوں سے محفوظ ہے لیکن مآخذ نہیں ملا ۔ پاکستانی شعراء کے مجموعے یہاں دستیاب نہیں ہیں ۔ اس لئے میں انہیں پڑھ نہیں سکا ۔ ہاں پاکستان میں ان کے مجموعے جلال و کمال ، محیط ، دوام ، رم جھم ، شعلہ گل ، دشت وفا ، لوح خاک ، کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوچکے ہیں ۔ ان کے تبصرے میں نے پڑھے ہیں ۔ ان کے چیدہ چیدہ اشعار ہمارے مطالعے میں رہے ۔ رسالوں میں غزلیں بھی پڑھیں ہیں ۔ ٹی وی پر مشاعرے میں نے پڑھتے ہوئے سنا بھی ہے ۔
یاد رکھو تو دل کے پاس ہیں ہم
بھول جاؤ تو فاصلے ہیں بہت
ان کے ان اشعار کی خاص حوبی لفظیات کی برکھارت کی ٹھنڈی بجلیاں ہیں ،جس سے پڑھنے والوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ جاتی ہے ۔ حقائق کی پردہ کشائی بڑی احتیاط سے کرتے ہیں ۔ کبھی معنی کو ننگا نہیں ہونے دیتے ۔ یہ سننے والوں کے دل میں گھر کرجاتی ہے ۔
احمد ندیم قاسمی ترقی پسندوں کی نسل سے ابھرنے والے شاعروں میں کافی تیز و طرار تھے ۔ انہوںنے بدلتے رجحانات سے پیدا ہونے والے کرب کو اپنی شاعری میں شامل ہونے نہیں دیا جس کی وجہ سے محرومی اور نارسائی نے اس جدید نسل کو اپنی ذات کے غم سمیٹنے پر مجبور کردیا تھا ۔ کسی نے شراب پینے میں زندگی تباہ کردی ۔ کوئی ریل کے آگے آکر مرگیا ۔ کسی نے دنیاسے علحدگی حاصل کرلی ۔
احمد ندیم قاسمی بہت دنوں تک دمے کے مرض سے پریشان رہے ۔ موت سے دو روز قبل پتہ چلا کہ انہیں انجائنا ہوگیا ہے ۔ لاہور کے اسپتال میں لے جائے گئے مگر وہ بچ نہیں سکے ۔ پاکستان کا یہ شاعر اپنے ہزاروں شیدائی اور علمائے ادب کو چھوڑکر 10 جولائی 2006 ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔ ان کی خواہش کے مطابق مرکر بھی ان کی موت بے کار نہیں جائے گی ۔ ندیم ہم جیسے لاکھوں ادب نوازوں کو ایک نئی راہ دکھاتے رہیں گے ۔