عقیل احمد
پیرس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کارٹونس کی اشاعت پر تباہی و بربادی اور ہلاکت کا شکار ہونے والے ہفتہ وار میگزین سے فرانسیسی مسلم تنظیموں نے بار بار درخواست کی تھی کہ وہ اپنے میگزین میں پیغمبر اسلام ؐ کے کارٹونس بنانے اور مضحکہ اُڑانے ( نعوذ باللہ ) سے گریز کرے۔میگزین کے ایڈیٹر اور کارٹونسٹس پر یہ بھی واضح کردیا گیا تھا کہ مسلمان اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و مال ، آل و اولاد اور دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ مسلم سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود چارلی ہبڈو کے ایڈیٹر اس کے کارٹونسٹس اور دیگر ذمہ داروں نے اظہار خیال کی آزادی کے نام پر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کارٹونس شائع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ نتیجہ میں اب اس ہفتہ وار میگزین کے کم از کم 6ذمہ دار مستقبل میں کارٹونس کا موضوع بن گئے ہیں۔ اب ساری دنیا میں ان کی ہلاکتوں کے واقعہ پر کارٹونس بنائے جارہے ہیں۔ ویسے بھی فرانس اور دیگر یوروپی ممالک میں حالیہ برسوں کے دوران دین اسلام کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور لوگ اچھی خاصی تعداد میں دامن اسلام میں پناہ لے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یوروپ میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی فرانس میں آباد ہے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار میں مسلمانوں کی آبادی دو ملین یا 20لاکھ بتائی گئی ہے
لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار میں یہ آبادی تقریباً 7 ملین ہے ( 70 لاکھ بتائی جاتی ہے) چارلی ہبڈو نے اگرچہ مسلسل اسلام، مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی لیکن اس میگزین کی حفاظت کرتے ہوئے ایک مسلم پولیس عہدہ دار احمد میرا بیٹ نے اپنی جان گنوادی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف یہودیوں کے زیر اثر میڈیا میں ایک ایسا گوشہ بھی ابھررہا ہے اس مسلم پولیس عہدہ دار کو منظر عام پر لایا جو مسلح بندوق بردار بھائیوں کا نشانہ بنا۔ پیرس میں جب دو نقاب پوش بندوق بردار راکٹ سے مارے جانے والے گرینیڈس سے لیس چارلی ہیڈو کے دفتر میں داخل ہوئے اس وقت احمد میرا بیٹ اور فرینک لبرین سولارو مارے گئے تھے اس واقعہ کے جو فوٹیجس سامنے آئے اس میں دل کو دہلادینے والا وہ منظر بھی تھا جس میں مسٹر احمد میرا بیٹ کو سڑک پر گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا۔ 42سالہ بائی سیکل پٹرول میان ( گشت کرنے والا سپاہی ) احمد میرا بیٹ ایک مسلمان تھے، اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے۔ اس پولیس عہدہ دارکو فرانس میں زبردست خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ ہزاروں لوگوں نے ’ میں احمد ہوں ‘ کے نعرے بلند کئے۔ پیرس کی سڑکوں پر ریالی نکالی، بعض فرانسیسیوں نے احمد میرا بیٹ کے بارے میں کہا کہ اس جانباز پولیس عہدہ دار نے ان لوگوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی جنہوں نے ان کے مذہب کا مذاق اُڑایا تھا۔ احمد میرا بیٹ کے رفقاء کا کہنا تھا کہ انہیں چارلی ہبڈو میگزین کے دفتر پر حملے کے فوٹیج میں یہ دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا کہ اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے باوجود بندوق برداروں نے ان پر گولیاں چلادیں، اس طرح ایک بہادر پولیس عہدہ دار نے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی جانے دے دی۔بندوق برداروں نے احمد میرا بیٹ کے سر میں بالکل قریبی فاصلے سے گولی ماری تھی۔ ٹوئٹر پر ہزاروں مرد و خواتین نے احمد میرا بیٹ کی قربانی کی ستائش کرتے ہوئے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ احمد میرا بیٹ مشرقی پیرس کے لیوری گرگان سے تعلق رکھتے تھے اور گزشتہ 8برسوں سے محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
احمد میرابیٹ کے رفقاء نے اپنے ساتھی کے قتل پر اظہار رنج کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھی کو بندوق برداروں نے بہت ہی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا۔ اس منظر کو دیکھ کر انہیں شدید صدمہ پہنچا ہے۔ پولیس ڈپارٹمنٹل سکریٹری روککو کانٹینٹو کے مطابق احمد میرابیٹ ایک باضمیر اور بہت ہی خاموش طبع انسان تھے۔ ٹوئٹر پر احمد میرا بیٹ کی موت کے بارے میں بے شمار پیامات پوسٹ کئے گئے جس میں ایک اس طرح تھا: ’’ احمد میرابیٹ نے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی جان گنوادی ‘‘جس کے لئے میں اس جانباز سپاہی کو سلام کرتا ہوں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ احمد میرا بیٹ ان 12مہلوکین میں سے ایک ہیں جو بندوق برداروں بھائیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ مہلوکین میں 8صحافی بشمول وہ کارٹونسٹس شامل ہیں جنہوں نے شان رسالتؐ میںگستاخی کرتے ہوئے کارٹونس تیار کئے اور انہیں شائع کرایا تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھوں ایک بہادر مسلح پولیس عہدہ دار جاں بحق ہوا ہے جو اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کررہے تھے اور یہ ایسا اہم نکتہ ہے جس پر فرانسیسی شہریوں اور ساری دنیا کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔احمد میرابیٹ شادی شدہ تھے، ان کے ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ وہ احمد میرابیٹ کو پیرس کے شمال مشرق میں واقع مشہور مسلم قبرستان میں دفن کرنے کے خواہاں ہیں جہاں کم از کم 7000 مسلم پہلے ہی سے مدفون ہیں۔