اسلامی تہذیب کا تحفظ اور ہماری ذمہ داریوں پر سمینار، مولانا صادق محی الدین فہیم و دیگر کا خطاب
حیدرآباد۔8 مارچ(سیاست نیوز) معاشرے کے بگاڑ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کے باوجود کامیابی سے محرومی ملت اسلامیہ کے ذمہ داران کے لئے تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ آج یہاں سلامہ اکیڈیمی کے دفتر واقع پرانی حویلی میںاسلامی تہذیب کا تحفظ اور ہماری ذمہ داریوں پرمنعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مفتی صادق محی الدین فہیم نظامی ان خیالات کا اظہار کررہے تھے۔مولانا اصطفاء الحسن ندوی‘ لکھنو‘ پروفیسر سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی‘ ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد‘ مولانا محمد یوسف پیرزادہ‘ مولانا محمد مھتدی‘ مولانا انجم فراز ندوی‘ نئی دہلی‘ جناب ناظم الدین فاروقی‘قاری عبدالمنان اور دیگر اسلامی اسکالرس نے بھی معاشرے میںپائے جانے والے بگاڑ کو ختم کرنے کے لئے درکار حکمت عملی پراپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا مفتی صادق محی الدین نے اپنے سلسلے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اصلاح کیلئے سخت الفاظ کا استعمال شدت پسندی ہوگی جو عوام کو ناگوار بھی گذرے گا۔ انہوں نے سہل اور موثر انداز میںاپنی بات عوام تک پہنچانے کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے ہندوستان میںاسلامی تہذیب کے فروغ میںصوفیائے کرام کے احسانات کو ناقابلِ فراموش قراردیا۔ انہوں نے مزیدکہاکہ تزکیہ نفس اور قلب کی پاکیز گی کو یقینی بنانے میںصوفیائے کرام کا اہم رول رہا ہے۔ انسانوں کو انسان بنانے میںدرس گاہوں اور خانقاہوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مولانا نے سمینار کے عنوان کو اپنی تقریر کا موضوع بناتے ہوئے کہاکہ پیدائش سے لیکر موت تک اسلامی تعلیمات انسانیت کیلئے رہبری اور رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔انہو ں نے آقائے دوجہاںؐ کی حیات مبارکہ کے تمام گوشوں کو اپنی زندگی میںشامل کرلینے سے معاشرتی بگاڑ کے خاتمہ کا یقین دلایا۔انہوں نے کہاکہ آج قرآن اور سنت رسول ؐ کو چھوڑ کرمسلم بہنیں علاج ومعالجہ کے نام پر اغیار کے پاس جارہی ہیںاور دین سے بے بہرہ ہماری بہنوں کو ہمیں ایسے غیرشرعی اور غیراسلامی حرکتوں سے روکنا ضروری ہے۔مولانا مفتی صادق محی الدین فہیم نے کہاکہ اعلیٰ اور عصری تعلیم کے حصول میںملت اسلامیہ کافی پیچھے ہوگئی ہے جس کا منفی اثر معاشرتی زندگی پر بھی پڑرہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایسے علاقوں کی مساجد کو قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا مرکز بنانا چاہئے جہاں پر معاشی طور پر کمزور مسلم خاندانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے ۔مولانا مفتی صادق محی الدین فہیم نے اسلامی فکر کو عام کرنے اور رائج کرنے کے لئے علاقائی مساجد کو مراکز بنانے پر زوردیا۔ انہو ں نے مخلوط تعلیمی نظام کی بھی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ مخلوط تعلیمی نظام بھی ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کی ایک اہم وجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ احتساب کا تصور انسان کو برائیوں سے روکنے میں معاون ہوگا۔ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد نے کہاکہ لباس‘ زبان‘ سیاست‘ معاشرت ‘ تہذیب کی علامتیں ہیںمگر تہذیب نہیں۔ انہو ںنے کہاکہ دنیا کی 36تہذیبوں کی نشاندہی کی گئی اور سوائے اسلامی تہذیب کے کسی نے بھی انسان کو اُس کا حقیقی مقام نہیں دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اللہ کا ڈر وخوف دلوں میں پیدا کرنا ہی اسلامی تہذیب کا اہم جز ہے۔انہوں نے آپسی اتحاد کی کمی کو اغیار کی طاقت قراردیا او رکہاکہ پاکیز ہ معاشرے کے قیام کے لئے اسلامی تہذیب کا فروغ نہایت ضروری ہے۔پروفیسر سلیمان صدیقی نے کہا ارض پر انسان کچھ مدت کے لئے بھیجا گیا ہے جہاں پر وہ اپنی پیدائش سے لیکر موت تک ایک امتحانی زندگی گذار رہا ہے۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو ساری انسانیت کے لئے بہتر زندگی گذارنے کا ذریعہ بتایا۔ انہوں نے کہاکہ صبح قیامت تک قرآن مجید کے اسرار ورموز کھلتے رہیںگے۔ پروفیسر سلیمان صدیقی نے کہاکہ احادیث قرآنی تعلیمات کا عمل ہے جس کو اپنی زندگی میںشامل کرلینے سے معاشرتی بگاڑ کو دور کیاجاسکے گا۔