اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا

سوال : کالج اور کمپنیوں میں لڑکے، لڑکیاں مرد عورتیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور ایک ساتھ کام کرتے ہیں، ان کے درمیان ہاتھ ملانا، عام سی بات ہوگئی ہے ۔ میں جس کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں وہاں میرے ساتھ کئی ایک لڑکیاں ہیں جو فری ماحول کی ہیں وہ بلا تکلف مردوں سے ہاتھ ملادیتی ہیں۔میں جب ان سے ہاتھ ملانے سے کتراتا ہوں تو وہ مجھ پر ہنستے ہیں۔ مرد کا عورتوں سے ہاتھ ملانا آج کل فیشن اور اونچی سوسائٹی کی پہچان ہوگیا ہے ۔ شریعت میں اس بارے میں کوئی گنجائش ہے تو برائے مہربانی آگاہ کریں۔
محمد کامران، مہدی پٹنم
جواب : مسلمان مرد کا اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا شرعاً جائز نہیں۔ وہ فتنہ کا باعث ، فواحش و منکرات کا موجب ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی بھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ آپ عورتوں سے زبانی بیعت لیا کرتے تھے۔ لہذا آپ کا عمل اسلامی طریقہ کے مطابق ہے، آپ قطعاً اجنبی عورتوں سے مصافحہ نہ کر یں، اگرچہ وہ آپ پر ہنسا کریں کیونکہ آخرت کی کامیابی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق عمل کرنے میں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہی دنیا کی سب اعلیٰ تہذیب و ثقافت ہے۔

ستہ شوال میں فرض روزہ کی قضاء
سوال : رمضان شریف میں میری طبیعت اچانک بگڑ گئی جس کی وجہ سے ایک روزہ قضاء ہوگیا، میں ہر سال ستہ شوال کے روزے رکھتا ہوں۔ اگر چھ روزوں میں سے ایک روزہ میں رمضان کے روزہ کی قضاء کی نیت کرلی جائے تو کیا قضاء روزہ اور ستہ شوال ادا ہوجاتے ہیں یا نہیں ؟
ابراہیم خان ، ملے پلی
جواب : رمضان کے روزہ کی قضاء فرض ہے اور ستہ شوال کا روزہ سنت ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخص رمضان کی قضاء اور ستہ شوال کے سنت روزہ کی نیت سے ایک روزہ رکھنا چاہے تو شرعاً وہ روزہ قضاء کا ہوگا ۔ ستہ شوال کا نہیں۔ فتاوی عالمگیری ج : 1 ، ص : 197 میں ہے ’’ واذا نوی قضاء بعض رمضان و التطوع یقع عن رمضان فی قول ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ وھو روایۃ عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ کذا فی الذخیرۃ‘‘۔

مروہ سے سعی کا آغاز کرنا
سوال : میں اس سال عمرہ کیلئے گیا تھا ، طواف کے بعد میں مروہ سے داخل ہوا اور مروہ سے میں نے اپنی سعی کا آغاز کیا اور سات چکر مکمل کرلئے ۔ بعد ازاں میرے دوست نے کہا کہ تمہاری سعی صحیح نہیں ہوئی کیونکہ سعی کا آغاز صفا سے کرنا چاہئے تھا ۔ اس کے بعد ایک دوست نے مشورہ دیا کہ تم مزید ایک چکر مروہ سے صفا اور صفا سے مروہ کرلو ۔ انشاء اللہ تمہاری سعی ہوجائے گی ۔ ان کے کہنے کے مطابق میں نے صفا سے دوبارہ سعی کا آغاز کیا ۔ مروہ پہنچ کر پھر مروہ سے صفا کو گیا ۔ اس طرح میں نے سعی مکمل کی ۔ واپسی کے بعد سے میرے دل میں خلش ہے ۔ اگر آپ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو باعث تشکر۔
محمد خالد، مغلپورہ
جواب : شرعاً سعی کا آغاز صفا سے کرنا چاہئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد اور عمل دونوں کے ذریعہ صفا سے سعی کا آغاز کرنے اور مروہ پر ختم کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے ، جب آیت کریمہ ’’ ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ (یعنی صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) کا نزول ہوا تو صحابہ کرام نے عرض کیا ہم سعی کا آ غاز صفا سے کریں یا مروہ سے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابدوا بما بدأ اللہ بہ ۔ اللہ تعالیٰ نے جس سے آغاز فرمایا اسی سے آغاز کرو (یعنی آیت کریمہ میں صفا کا ذکر پہلے ہے اس لئے آغاز اسی سے کرنے کا حکم ہے) اگر کوئی شخص ترتیب کو بدل دے اور صفا کے بجائے مروہ سے سعی کا آغاز کرے تو اس پر مزید ایک چکر یعنی صفا سے مروہ تک لازم ہوگی۔ اگر وہ ایک چکر مکمل کرلے تو سعی کے سات چکر مکمل ہوکر واجب ادا ہوجائے گا۔ بدائع الاصنائع جلد دوم کتاب الحج ص : 319 میں ہے : ولنا ان الترتیب ھھنا مأموربہ لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فعلہ
اما قولہ فلما روی انہ لما نزل قولہ عز و جل ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ قالوا بأیھما نبدأیا رسول اللہ فقال صلی اللہ علیہ وسلم ابدا وابما بدأ اللہ بہ واما فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہ بدأ بالصفا و ختم بالمروۃ و افعال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مثل ھذا موجبۃ لما تبین … فاذا بدأ بالمروۃ الی الصفا لا یعتد بذلک الشوط فاذا جاء من الصفا الی المروۃ حتی یتم سبعۃ ۔
پس آپ کی سعی مکمل ہوگئی، صرف ایک چکر کافی تھی۔ دوسری چکر کی ضرورت نہ تھی۔

قبرستان میں دنیوی گفتگو کرنا
سوال : عموماً نماز جنازہ کے لئے وقت باقی رہے تو لوگ گفتگو کرتے ہیں اور قبرستان میں میت کے قریبی عزیز و اقارب تدفین میں مصروف رہتے ہیں اور دیگر رشتہ دار و احباب باتیں کرتے رہتے ہیں، وہ بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کوئی خاص ذکر اس وقت مسنون ہے تو بیان کیجئے ؟
عبدالستار، نامپلی
جواب : نماز جنازہ میں شرکت کرنا تدفین میں شریک رہنا موجب اجر و ثواب ہے۔ اسی طرح کسی کا انتقال کرجانا دنیا کی بے ثباتی پر دلالت کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور ہمارے بدن میں موجود ہماری روح ایک دن اس بدن کو چھوڑ کر روانہ ہوجائے گی پھر اس جسم میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ شخص جو مانباپ کا منظور نظر تھا ، اولاد کا محبوب تھا، دوست و احباب کا دلعزیز تھا ، وہی ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب اس کے بے جان جسم کو جلد سے جلد زمین کے نیچے دفن کرنے کی فکر کریں گے اور اس کے بعد کے منازل اس کو اکیلے ، تنہا طئے کرنے ہوں گے ۔ اس کے ماں باپ ، اولاد ، دوست و ا حباب ، رشتہ دار قبر تک ساتھ آئیں گے پھر واپس چلے جائیں گے ۔ قبر میں تنہا چھوڑ جائیں گے۔ نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مونس پاس ہوگا ۔ بس وہ ہوگا ، اس کے اعمال ہوں گے اور خدا کا فضل ہوگا ۔ اسی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی تر غیب دی کیونکہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔
بناء بریں حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 401 میں ہے : جنازہ کے ساتھ جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور غور و فکر کرے کہ میت کو کیا حالات درپیش ہوں گے اور اس دنیا کے انجام و نتیجہ پر غور کرے اور اس موقعہ پر بالخصوص لا یعنی بے فائدہ گفتگو سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر و شغل اور نصیحت حاصل کرنے کا وقت ہے ۔ تاہم بلند آواز سے ذکر نہ کرے اور ایسے وقت میں غافل رہنا نہایت بری بات ہے اور اگر وہ ذکر نہ کرے تو اس کو خاموش رہنا چاہئے ۔ وفی السراج یستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکراللہ تعالیٰ والتفکر فیما یلقاہ المیت وان ھذا عاقبۃ أھل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام فان ھذا وقت ذکر و موعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فان لم یذکراللہ تعالیٰ فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقراء ۃ ولا بالذکر۔

سلام کے بعد مصلیوں کی طرف رخ کرنا
سوال : ہماری مسجد کے امام صاحب ہمیشہ سلام پھیرنے کے بعد مصلیوں کی طرف رخ کیا کرتے تھے۔ اب چند دن سے کبھی وہ سیدھے جانب اور کبھی بائیں جانب رخ کر رہے ہیں۔ شرعی لحاظ سے صحیح طریقہ کیا ہے؟
سید واجد، کارون
جواب : سلام پھیرنے کے بعد امام کے پلٹنے کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ سیدھے جانب رخ کرنا چاہئے اور بعض نے کہا کہ مصلیوں کی طرف رخ کرنا چاہئے اور بائیں جانب رخ کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد مسجد میں داخل ہونے والے کو کوئی شبہ باقی نہ رہے، اس لئے امام کو پلٹنے کا حکم ہے۔ اس کو تینوں جہتوں میں سے کسی بھی جانب رخ کرنے کا اختیار ہے۔ بدائع الصنائع جلد اول ، ص : 394 میں ثم اختلف المشائخ فی کیفیۃ الانحراف
قال بعضھم : ینحرف الی یمین القبلۃ تبر کا بالتیامن ۔ و قال بعضھم : ینحرف الی الیسار لیکون یسارہ الی الیمین ، و قال بعضھم : ھو مخیر ان شاء انحرف یمنۃ وان شاء یسرۃ، وھو الصحیح لان ماھوالمقصود من الانحراف وھو زوال الاشتباہ یحصل بالأمرین جمیعاً۔

قسم پر قائم نہ رہنا
سوال : میرے اور میرے شوہر کے درمیان عموماً ہماری ساس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور ساس کی غلطی ہوتی تو بھی میرے شوہر مجھ پر غصہ ہوتے۔ جب ان کو ہماری ساس کی غلطیوں کا اندازہ ہوا تو انہوں نے قسم کھائی کہ کبھی ہمارے درمیان ساس کی وجہ سے کوئی جھگڑا نہیں ہوگا ۔ تاہم وہ اپنی قسم پر قائم نہیں رہ سکے اور ہمارے درمیان کئی جھگڑے ہوئے ۔ صرف ساس کی وجہ سے ۔ اب اس کا کفارہ کیا ہے ؟
فاطمہ فردوس، ورنگل
جواب : صورت مسئول عنہا میں آپ کے شوہر نے قرآن کی قسم کھائی تھی کہ والدہ کی وجہ سے ہم میاں بیوی کے بیج کبھی لڑائی نہیں ہوگی لیکن وہ اس قسم پر قائم نہیں رہ سکے اور قسم توڑ دیئے اس لئے آپ کے شوہر پر قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو صبح و شام کھانا کھلانا ، یا دس مسکینوں کو متوسط کپڑا پہنانا یا تین دن روزہ رکھنا لازم ہے۔ لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم ۔ (سورۃ المائدۃ 89/5 )

علاتی بہن کی لڑکی سے نکاح
سوال : زید کی دو بیویاں ہیں، ایک رشیدہ ، دوسری فریدہ۔ زید کو رشیدہ کے بطن سے ایک لڑکی مسماۃ خالدہ ہے اور دوسری بیوی فریدہ کے بطن سے ایک لڑکا خسرو ہے ۔ اب خالدہ کی لڑکی نفیسہ کے ساتھ خسرو کا نکاح کرنے کا ارادہ ہے۔ شرعی لحاظ سے خسرو کا نکاح نفیسہ سے جائز ہے یا نہیں ؟
نام …
جواب : خالدہ ، خسرو کی علاتی بہن ہے اور علاتی بہن کی لڑکی بھی شرعاً حرام ہے ، وہ درحقیقت بھانجی ہی ہے اور حقیقی علاتی اور اخیافی بھانجی سے نکاح شرعاً جائز نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 273 باب المحرمات میں ہے : و کذا بنات الاخ والاخت وان سفلن ۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ رد المحتار جلد دوم باب المحرمات میں ہے : حرام اصلہ و فرعہ، و بنت أخیہ و اختہ و بنتھا ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں خسرو کا نکاح اپنی علاتی بہن خالدہ کی دختر نفیسہ کے ساتھ شرعاً جائز نہیں۔