اجمیر دھماکے ‘ ملزمین کی براء ت

درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اجمیر شریف میں ہوئے بم دھماکوں کے مقدمہ میں عدالت نے سوامی اسیمانند کے بشمول جملہ چھ ملزمین کو الزامات منسوبہ سے بری کردیا ہے جبکہ تین افراد کو ملزم قرار دیدیا گیا ہے ۔ اس مقدمہ میں اسیما نند کو کلیدی ملزم قرار دیا گیا تھا اور اس کے دیگر ساتھیوں کو بھی مقدمہ میںماخوذ کرتے ہوئے ان کے خلاف فرد جرم پیش کی گئی تھی ۔ لیکن اب عدالت نے صرف تین ملزمین کو خاطی قرار دیا ہے اور چھ ملزمین کو بری کردیا ہے ۔ عدالت نے ثبوت و شواہد کی کمی کی وجہ سے شک کا فائدہ ملزمین کو دے کر انہیں الزامات منسوبہ سے بری کردیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت سے مرکز میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت قائم ہوئی ہے اس وقت سے دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کا رنگ بدلتا جا رہا ہے ۔ مالیگاوںبم دھماکوں کے مقدمہ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور اس کے ساتھیوں کو ضمانت دینے کی درخواست پر این آئی اے نے کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا ہے ۔ اب اجمیر بم دھماکوں کے مقدمہ میں سوامی اسیمانند اور اس کے ساتھیوں کو بری کردیا گیا ہے ۔ ایسے میں اگر انتہائی سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملزمین کو براء ت ملتی جائیگی تو پھر اس کی ذمہ داری ملک میں نفاذ قانون اور تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں پر عائد ہوگی ۔ ایسے کتنے ہی مقدمات ہیں جن میں ملزمین عدالتوں سے بری ہوتے جا رہے ہیں اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی پیشہ ورانہ مہارت اور ان کی تحقیقات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اجمیر شریف میں درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ میںہوا بم دھماکہ جہاں دہشت گردانہ کارروائی تھی وہیں یہ دھماکہ ملک کے سکیولر تانے بانے متاثر کرنے کی کوشش کے مترادف بھی تھا ۔ درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو ہندوستان میں ہر عقیدہ کے ماننے والوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔ وہاں جس طرح مسلمان پوری عقیدت و احترام سے حاضری دیتے ہیں وہیں ہندو ‘ عیسائی ‘ سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے ۔ ایسے میں اس درگاہ کو نشانہ بناتے ہوئے ملک کے سکیولر تانے بانے کو متاثر کرنے کی اور سماج میں نفاق اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے ۔
ہندوستان کے جس کسی شہر میں جب کبھی کوئی دہشت گردانہ کارروائی ہوئی ہے اس کی ہر ہندوستانی شہری نے مذمت کی ہے اور ہر کسی کو کرنی بھی چاہئے ۔ کئی مقدمات ایسے بھی ہیں جہاں ایسے حملے ہوتے ہی مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرادیا جاتا ہے ۔ یہ تحقیقاتی ایجنسیوں کا پہلے سے طئے شدہ طریقہ کار بھی ہوتا ہے ۔ تاہم بعض دہشت گردانہ کارروائیوں میں جب ہندو دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا اشارہ ملنے لگا اور ان کے خلاف ثبوت و شواہد مجتمع ہوگئے تھے بحالت مجبوری ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ دوران تحقیقات بعض ملزمین کی جانب سے اپنے جرم کا اقبال کئے جانے کی اطلاعات بھی رہی ہیں۔ تاہم اگر کوئی ملزم اپنے جرم کا اقبال نہ بھی کرے تو حقیقت کو منظر عام پر لانے اور ثبوت و شواہد اکٹھا کرنا تحقیقاتی ایجنسیوں کا اور پولیس کا کام ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں تحقیقاتی ایجنسیاں اور پولیس اپنے اس فریضہ کی تکمیل میں ناکام رہی ہیں ۔ کئی مقدمات میں تو بے قصور افراد کو گرفتار کرتے ہوئے اذیتیں دی گئیں اور انہیں جیلوں میں بند کردیا گیا ۔ بعد میں عدالتوں نے ان بے قصور افراد کو الزامات منسوبہ سے بری کردیا تھا ۔ اب بھی کئی ایسے معاملات کے فیصلے ہو رہے ہیں جن میں بے قصوروں کو عدالتوں سے رہائی مل رہی ہے ۔ یہ انصاف رسانی کا عمل حالانکہ تاخیر سے ہو رہا ہے لیکن ہو رہا ہے ۔ یہاں بھی تحقیقاتی ایجنسیوں اور پولیس کی کارکردگی پر ہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر قصور وار تک یہ لوگ کیوں نہیں پہونچ سکتے اور کیوں نہیں اصلی خاطیوں کو گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جاتا ہے ؟ ۔
یہ بہت ضروری ہے کہ جو لوگ بے قصور ہوں انہیں سزا نہ ملنی پائے لیکن یہ بھی بے انتہا ضروری ہے کہ جو لوگ خاطی ہیں اور مجرم ہیں انہیںلازما سزا ملے ۔ اگر پولیس محض ضابطہ کی تکمیل کرتی ہے یا پھر تحفظات ذہنی سے کام لیتے ہوئے تحقیقات انجام دیتی ہے تو پھر ان تحقیقات کا انجام یہی ہونا طئے ہے ۔ ایسے میں جو واقعی خاطی اور قصور وار مجرمین ہیں وہ کھلے عام آزادی سے گھومتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم اور منصوبوں کو پورا کرتے چلے جائیں گے ۔ بے قصور زندگیاں تلف ہوتی رہیں گی ۔ ملک میں بے چینی کا ماحول پیدا ہوگا ۔ ان سب حالات سے بچنا ضروری ہے اور ایسا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو ان کے کام کیلئے جواب دہ بنایا جائے ۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ کوئی بے قصور ایسے مقدمات میںسزا نہ پائے اور کوئی قصور وار اور خاطی شخص قانون کی گرفت سے بچنے نہ پائے۔