اترپردیش کی اہم سیاسی پارٹیاں حکمت عملی سے عاری

غضنفر علی خان
اترپردیش میں ایک طرح کا سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ یہاں کی دونوں طاقتور سیاسی پارٹیاں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی سخت اندرون اختلافات کی شکار ہیں۔ دونوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس ریاست میں کامیابی یا ناکامی بی جے پی کے آئندہ سیاسی موقف کا فیصلہ کرے گی ۔ سماج وادی پارٹی کی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ یہاں باپ بیٹے اکھلیش یادواور صدر پا رٹی ملائم سنگھ یادو میں ٹھنی ہوئی ہے۔ بیٹا اپنے سگے چچا شیوپال یادو کو کابینہ سے علحدہ کردیتا ہے تو کچھ ہی دیر بعد والد ملائم سنگھ یادو اپنے بھائی کو دوبارہ واپس لاتے ہیں۔ صاحبزادہ کیونکہ اپنے والد سے راست تصادم نہیں چاہتے ہیں، اس لئے زہر کے گھونٹ پی کر چپ ہوجاتے ہیں لیکن یہ خاموشی کسی طوفان سے پہلے سمندر میں پائے جانے والا سکوت کے مماثل ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سماج وادی سے خارج کردہ ایک اور لیڈر امر سنگھ کو ملائم سنگھ نے پارٹی کا جنرل سکریٹری مقرر کیا ہے ۔ یہ فیصلہ ان کا اپنا ضرور ہے لیکن اس سے نہ صرف اکھلیش یادو بلکہ پارٹی کے کئی اور لیڈر سخت ناراض ہیں ۔ امر سنگھ کے سماج وادی پارٹی سے علحدہ کئے جانے کے بعد انہوں نے سماج وادی پارٹی کے خلاف اپنی ایک علحدہ پارٹی قائم کی تھی جس نے انتخابات بھی لڑے تھے لیکن امر سنگھ کو اور پارٹی کے سارے امیدواروں کو شکست ہوئی تھی ۔ امر سنگھ پارٹی کو جوڑنے کا کوئی کام نہیں کرسکے۔پھر آج ان میں ملائم سنگھ کو کیا خوبی دکھائی دے رہی ہے کہ انہیں نہ صرف پارٹی میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے بلکہ جنرل سکریٹری کا اہم عہدہ بھی سونپا گیا ہے ۔ آج سماج وادی پارٹی اترپردیش میں حکمراں ہے جہاں کی لاء ا ینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔

آئے دن اجتماعی عصمت ریزی ، قتل اور لوٹ مار کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔ان مسائل کوحل کرنے کے بجائے پارٹی میں سینئر لیڈرس ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں۔ وہ بھی کوئی اور نہیں پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو اور ان کے بیٹے اکھلیش یادو اور ان کے بھائی شیوپال یادو تلواریں سونپے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف مصروفِ جنگ ہے جبکہ یہ اندازہ سب ہی کو ہے کہ مجوزہ اسمبلی چناؤ میں پارٹی کا جیتنا آسان نہیں ہے  اورپارٹی کی جیت جمہوریت و سیکولرازم کی بقاء کی خاطر ضروری ہے ۔ اگر یہاں سے بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے تو مرکز میں اس کا اقتدار مضبوط ہوگا اور اترپردیش سے ایک سیکولر حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ ملائم سنگھ یادو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے جیتے جی پارٹی کو کوئی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔ ان کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کیونکہ جب بھی کوئی سیاسی سونامی آنے والی ہوتی ہے تو کسی بھی ریاست میں یہی ہوتا ہے کہ وہاں کی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف یونہی نبرد آزما ہوجاتی ہیں۔ اترپردیش کی تو بات ہی اور ہے۔ یہاں تو چچا بھتیجے اور بیٹے میں لڑائی ہورہی ہے ۔ ہورہی ہے اس لئے کہ ابھی باہمی اختلافات کی آگ سرد نہیں ہوئی ہے بلکہ اس آگ پر ملائم سنگھ یادو کی ادھوری کوشش سے راکھ کی ایک تہہ جم گئی ہے جو کبھی بھی بکھر سکتی ہے اور اس کے ساتھ دبک بھی سکتی ہے ۔ آخر کب ہماری علاقائی سیکولر پارٹیاں یہ سبق سکھیں گی کہ ان کی داخلی کمزوریاں نہ صرف ان کی تباہی کا باعث بنے گی بلکہ ملک کے سیکولرازم کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔ یہ تو بات ہوئی سماج وادی پار ٹی کی ۔ اترپردیش میں اقتدار کی دعویدار دوسری پارٹی بہوجن سماج ہے جس کی کرتا دھرتا انتہائی نلوں مزاج مایاوتی ہیں۔ ان کی پارٹی میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ پارٹی کے کچھ سینئر لیڈروں نے بی جے پی میں شرکت کرلی ہے اور اب یہی چاروں برجیش پاٹھک ، سوامی پرساد لوریا، جگل کشور اور دارا سنگھ چوہان نے بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی مرتب کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔ کہیں یہ چاروں گھر کے بھیدی ثابت نہ تو۔

مایاوتی گرچہ یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ انہیں کچھ سینئر لیڈروں کے پا رٹی سے علحدہ ہوجانے اور بی جے پی میں شامل ہوجانے سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ بی جے پی نے ان چاروں کو اپنی عاملہ میں شامل کرلیا ہے جو آئندہ ہفتہ کوذی کوڈ میں ہونے والے اجلاس  عاملہ میں شرکت کریں گے ۔ یہ تو نہیں کہا جاس کتا کہ فی الواقع بہوجن سماج کے بعد سابقہ لیڈر اترپردیش میں کوئی سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا اس قابل ہیں کہ وہ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ مایاوتی اور پارٹی کی انتخابی حکمت عملی سے بخوبی واقف ہیں۔ کچھ اور نہ کرسکیں تو کم از کم اپنے ہتھکنڈہ استعمال کرسکتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات سے قبل کیوں پارٹی کے لیڈروں نے بغاوت کی ، ان کی کیا سیاسی مجبوریاں تھیں یا یہ کسی مقصد کے پیش نظر بی جے پی میں شامل ہوئے اور کیوں بی جے پی نے انہیں فوراً قبول کرلیا بلکہ انہیں اپنی قومی عاملہ میں شامل کرلیا ۔ غرض یہ کہ اترپردیش میں دونوں علاقائی پارٹیاں کسی نہ کسی طرح کی افراتفری کا شکار ہیں۔ سماج وادی پارٹی میں اگر باپ بیٹے اور چچا میں خاموش جنگ ہورہی ہے تو بہوجن سماج پارٹی سے سینئر لیڈر کیوں بھاگ رہے ہیں؟ دونوں  پارٹیوں کی اہمیت یہ ہے کہ اترپردیش میں خواہ اقتدار کسی ایک کو حاصل ہو یہ بات طئے شدہ ہے کہ دونوں کے ہوتے ہوئے بی جے پی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بجائے اس کے کہ دونوں میں کوئی مفاہمت ہو دونوں ہی اپنی اپنی کمزوریوں کو ظاہر کر رہی ہیں۔ بی جے پی ضرور اس کا فائدہ ا ٹھاسکتی ہے بلکہ چاہتی یہی ہے کہ کسی طرح سیکولر ووٹ تقسیم ہو اور اس وقت کی تقسیم کا راست فائدہ بی جے پی کو ملے ۔ یہ ایک بنیادی بات ہے کہ اترپردیش کی ان دونوں پارٹیوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے بدبختانہ طرز عمل کو ختم کریں لیکن آثار کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ سماج وادی پارٹی اس وقت اترپردیش میں اپنی حکومت پر فخر کرتی ہے تو بہوجن سماج پا رٹی ملک کی فرقہ پرست اور دلت دشمن طاقتوں کو زیر کرنے کے بجائے سماج وادی پارٹی کو شکست دینا چاہتی ہے ۔ دونوں کی ترجیحات قومی مفادات سے بہت دور ہیں اور بظاہر دونوں کی قیادت میں یہ شعور پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے کہ ان کے مشترکہ دشمن بی جے پی کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے ۔ بی جے پی میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو بہوجن سماج سے نکلے ہوئے لیڈروں کو یکلخت عاملہ میں شامل کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ انتخابی حکمت عملی ہرگز نئے لوگوں کے ہاتھ ہی نہیں دی جانی چاہئے لیکن بی جے پی کی قیادت بہوجن سماج سے ٹوٹ کر آئے ہوئے لیڈروں کو خوش آمدد کرنے پر تلی ہوئی ہے کیونکہ بی جے پی کی مرکزی قیادت بہت مضبوط ہے اور اس کے آگے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ اس لئے بہوجن سماج سے آئے ہوئے چاروں لیڈروں کو اپنے بچاؤ کے لئے زیادہ ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مجموعی طور پر سیاسی صورتحال ان دنوں بہت زیادہ گنجلک اور  پیچیدہ ہے۔