اترپردیش میں ہر قیمت پر مسلم ووٹ تقسیم کرانے بی جے پی کا نیا کھیل ، پرانے کھلاڑی

اگلے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی اور راجیہ سبھا میں اکثریت کے لیے یو پی میں کامیابی اہم
نئی دہلی ۔ 31 ۔ مارچ : ( سیاست ڈاٹ کام ) : یو پی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اس مرتبہ کچھ الگ قسم کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ اس کے لیڈروں کی جانب سے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کے لیے بیانات کی اجرائی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والے نعرے بلند کرنے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔ کیوں کہ اس ( بی جے پی ) کا بدن فرقہ پرستی کے نہ مٹنے والے دھبوں سے داغدار ہوچکا ہے ۔ ان حالات میں وہ فرقہ پرستی کو راست ہوا دینے کی بجائے مسلمانوں میں موجود اپنے لوگوں سے کام لے گی ۔ان کی زبانوں سے وہ سب کچھ کہلوائے گی جس کا راست فائدہ اسے ( بی جے پی ) کو ہوگا ۔ ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں مسلمانوں کی نام نہاد ہمدرد جماعتیں اترپردیش کے انتخابی میدان میں اتر پڑیں گی ۔ وہ مسلم رائے دہندوں کو یہی تاثر دیں گی کہ ہم آپ کے ہمدرد ہے ۔ آپ کی نمائندگی صرف ہمارا حق ہے ۔ یہ قائدین ریاستی حکومت اور مختلف قومی و علاقائی جماعتوں کے قائدین کو مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمہ دار قرار دے کر یہ اعلان کریں گی کہ اب وہ اور ان کی تنظیمیں مسلمانوں کے حق کے لیے لڑیں گی جہاں تک یو پی کے انتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کرنے والی مسلم جماعتوں کا سوال ہے ۔ اترپردیش کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ان قائدین نے اترپردیش میں طاقتور موقف رکھنے والی ایسی شخصیتوں کو نظر انداز کردیا جو عوام میں ایک مقام رکھتے ہیں ۔ ان قائدین کی بجائے پارٹی کی ذمہ داریاں ایسے لوگوں کو تفویض کی گئیں جو کسی بھی طرح عوام کی کسوٹی پر نہیں اترتے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے یو پی اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے جن مسلم جماعتوں اور شخصیتوں کی خدمات حاصل کی ہیں خود ان میں مقابلہ شروع ہوگیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اترپردیش کے ایک غیر معروف اخبار کے ایک مدیر بھی اس صف میں شامل ہیں ۔ جنہیں اعتراض ہے کہ بی جے پی قیادت مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لیے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے قائدین کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے جب کہ دونوں کو ایک ہی کام سپرد کیا گیا ہے ۔ اس صحافی نے نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لیے بی جے پی کی بالراست مدد کررہا ہے ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ آر ایس ایس قیادت ، وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ اترپردیش میں بی جے پی کی ہر حال میں کامیابی چاہتے ہیں کیوں کہ انہیں اندازہ ہوگیا ہیکہ اگر یو پی اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج وادی پارٹی کامیاب ہوتی ہے تو 2019 کے عام انتخابات میں یو پی سے بی جے پی 20 نشستیں بھی حاصل نہیں کرسکے گی ۔ ایسے میں مرکز میں اقتدار کی برقراری اس کے لیے بہت مشکل ہوجائے گی ۔ اس کے علاوہ یو پی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے ذریعہ بی جے پی راجیہ سبھا میں اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ ایسے میں نام نہاد مسلم قائدین ہی اس کے لیے امید کی کرن بن گئے ہیں جو اپنے عجیب و غریب بیانات کے ذریعہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔ بی جے پی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں وہ مسلم ووٹوں کی تقسیم اور مسلمانوں و دلتوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتے ہوئے کامیاب ہوسکتی ہے کیوں کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں اس نے دیکھ لیا کہ 80 پارلیمانی نشستوں میں سے کم از کم 20 ایسے حلقہ تھے جہاں کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کے مسلم امیدوار دوسرے نمبر پر رہے اگر مسلمان دلت قریب ہو کر بی ایس پی کی مدد کرتے ہیں تو ریاست میں بی ایس پی حکومت بنالے گی جس کے بعد ہوسکتا ہے کہ مایاوتی کی قیادت میں دلت مسلم اتحاد کے نعرے ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی گونجنے لگیں ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے ہی بی جے پی نے مفاد پرست مسلم قائدین اور جماعتوں کو اترپردیش کے چکر کاٹتے رہنے کے کام پر مامور کردیا ہے لیکن یو پی کے مسلمانوں کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کی اس چال کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ اس لیے کہ یو پی میں جو کچھ بھی ہوگا اس کے اثرات لازمی طور پر ملک کے دوسری ریاستوں میں بھی مرتب ہوں گے ۔ لہذا یو پی کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں مسلم رائے دہندوں کو بہت ہی سوچ سمجھ کر صرف ایک سیکولر جماعت کے حق میں اپنے ووٹوں کا متحدہ استعمال کرنا ہوگا ۔۔