نافع قدوائی
ریاست کی 80 پارلیمانی سیٹوں میں سے 10 پارلیمانی حلقوں میں پہلے مرحلے کی پولنگ 10 اپریل کو ہوگی ۔ ان دس سیٹوں میں تو بی ایس پی قائد مایاوتی کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ ابھی تک ان دس سیٹوں میں سے پانچ سیٹیں بی ایس پی کے قبضہ میں تھیں جب کہ دو سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس اور دو سیٹیں راشٹریہ لوک دل کے پاس اور ایک سیٹ سماج وادی پارٹی کے پاس تھیں ۔ مغربی یو پی میں گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی اس وجہ سے اس مرتبہ کے الیکشن میں کانگریس ایک ایسی پارٹی ہے جس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ مغربی یو پی میں اصل انتخابی موضوع مظفرنگر سمیت مغربی یو پی کے گزشتہ فرقہ وارانہ فسادات ہیں ۔ ان فسادات نے اس خطے میں برسوں پرانے جاٹ کسانوں اور مسلمانوں کے اتحاد کو نہ صرف پارہ پارہ کردیا ، بلکہ اب یہ دونوں ایک دوسرے کے بدترین دشمن بن گئے ہیں ۔ اگر جاٹ برادری کسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت کررہی ہے تو پھر اس پارٹی امیدوار کو مسلمان ووٹ دینے کو قطعی تیار نہیں ہیں ۔ یہی صورتحال مسلمانوں کے حمایت یافتہ امیدوار ، پارٹی کی ہے جس کو جاٹ کسان ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔
مظفرنگر وغیرہ کے فسادات میں بہوجن سماج پارٹی کے رول سے نہ تو مسلمان خوش ہیں اور نہ جاٹ کسان ۔ بی ایس پی کے مسلم ارکان پارلیمنٹ قادر رانا اور مولانا جمیل پر تو باقاعدہ مسلمانوں کو اکسانے ، فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کا نہ صرف الزام ہے بلکہ ان کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے اور ان پر مقدمہ چل رہا ہے ۔ بی ایس پی اپنی پانچ سیٹوں کو برقرار بھی رکھ سکے گی کہ نہیں یہ کہنا مشکل ہے ۔ بظاہر بی ایس پی کو اس طرح کی کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی ہے ۔ بی جے پی جس نے اصلاً فرقہ وارانہ فساد برپا کرایا اس کے ارکان اسمبلی نے فسادیوں کی قیادت کی ۔ حکم سنگھ ، بھارتیندر سنگھ ، سنگیت سوم ، سریش رانا ، ایسے بی جے پی کے لیڈر ہیں جن پر مقدمات چل رہے ہیں ۔ بی جے پی اپنے ان فسادی لیڈروں کی ہر طرح سے پشت پناہی اور سرپرستی کی ۔ سنگیت سوم اور سریش رانا کو مودی کی ریلی میں اعزاز بخشا گیا ۔ اس مرتبہ بھی بی جے پی نے حکم سنگھ اور بھارتیندر کو اس خطہ سے ٹکٹ دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی اس حلقہ سے بی جے پی کو کتنی کامیابی دلاپاتے ہیں ۔ حکمران سماج وادی پارٹی کے رول سے ابتداء میں مسلمانوں کی اکثریت ملائم سنگھ یادو ، اکھلیش یادو سے بے حد سخت ناراض تھے ۔ مسلمانوں کی یہ ناراضگی صدفیصد درست تھی کیونکہ اکھلیش یادو حکومت فسادات کو روکنے میں ناکام رہی تھی لیکن جلد ہی اکھلیش یادو کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔ جس کے لئے انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی طرف سے اظہار ندامت کیا بلکہ فسادات سے متاثرہ کنبوں کی بھرپور راحت رسانی کی اور قصوروار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی ۔ تیرہ سو سے زائد فسادیوں پر مقدمات قائم کئے اس سے مسلمانوں کی ناراضگی قدرے کم ہوئی ہے ۔
چونکہ لوک سبھا الیکشن میں سیکولرازم داؤ پر لگا ہوا ہے اس وجہ سے ریاست کے سنجیدہ علماء اور قائدین نے مسلمانوں کو یہ نیک مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کو بکھرنے نہ دیں اور مسلمان اپنے حلقہ میں بی جے پی کو ہرانے کی پوزیشن میں دکھائی دینے والے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیں ۔ اگر مسلمانوں نے یہ مشورہ مان لیا تو ان کے ووٹ ادھر ادھر سیکولر پارٹیوں میں تقسیم ہونے سے بچ جائیں گے ۔ کانگریس کے پاس جاٹ کسانوں کو ریزرویشن دینے کا موضوع ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے ۔ ایک مدت تک اس خطہ میں چودھری چرن سنگھ ان کی بھارتیہ کرانتی دل کا طوطی بولتا تھا ۔ چرن سنگھ کے جانشین چودھری اجیت سنگھ اس خطہ میں اپنے والد کے قائم کردہ سیاسی رعب داب برقرار رکھنے میں پوری طرح کامیاب نہیں رہے ۔ چودھری اجیت سنگھ کی کمزوری کی بنا پر اس خطہ میں سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی کو اپنے پنجے گاڑنے کا موقع مل گیا اور راشٹریہ لوک دل دوسرے اور تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی ۔اترپردیش میں پہلے مرحلے کی پولنگ مظفر نگر فسادات کے حوالے ملک کی سیاست کی سمت کو طے کردے گی کہ ملک سیکولر رہے گا یا پھر ہندو راشٹرا کی طرف جائے گا ۔
اترپردیش میں مودی بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی دلانے میں کامیاب ہوں گے اس کے آثار بظاہر کم ہی نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کی ملائم سنگھ یادو نے زبردست گھیرابندی کررکھی ہے ۔ مودی کو مشکل میں ڈالنے کے لئے ملائم سنگھ یادو نے اپنی روایتی مین پوری کی سیٹ کے ساتھ اعظم گڑھ پارلیمانی حلقہ سے بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیاہے ۔ اعظم گڑھ سے ملائم کی امیدواری کا اثر پورے پورانچل پر پڑے گا ۔ ریاست کی 80 سیٹوں میں سے تقریباً 30 ، 32 سیٹیں پورانچل کی ہیں ۔ پورانچل میں سماج وادی پارٹی کا پہلے ہی بول بالا ہے اور اب ملائم سنگھ کے الیکشن لڑنے سے پورانچل میں سماج وادی پارٹی کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہوگئی ہے ۔ وارانسی ہندوؤں کا مقدس شہر ہے ۔ اس بنا پر نریندر مودی نے اس حلقہ کو اپنے لئے سب سے محفوظ حلقہ مان کر یہاں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بی جے پی کو اقتدار کی سیڑھیوں تک پہونچانے میں ہمیشہ ’’بھگوان‘‘ کے نام کی ضرورت پڑتی ہے اس سے پہلے بی جے پی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا جب اس نے پورے زور سے جے شری رام کے نعروں کا جاپ کیا
اور جب بی جے پی مریادا پرشوتم رام کے تئیں بے اعتنائی برتنی شروع کی تب سے بی جے پی سے عام ہندو بیزار ہوگئے ۔ نتیجہ میں دو پارلیمانی الیکشنوں میں بی جے پی کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اب کی مرتبہ مودی وادیوں نے ’’بھگوان شیوشنکر‘‘ کو سیاسی استعمال کے لئے کھوج نکالا اور مودی وادیوں نے شیوجی کے نعرے ’’ہر ہرمہادیو‘‘ کے طرز پر ہر ہر مودی ، گھر گھر مودی کا جاپ شروع کیا ہے ۔ اگرچہ ’’ہر ہرمہادیو‘‘ کے اس بیجا استعمال پر خود شنکر اچاریہ سروپا نندجی نے سخت اعتراض کرتے ہوئے آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھگوت کو احتجاجی مکتوب بھی لکھا ہے ۔ شنکر اچاریہ کی مخالفت کے بعد مودی وادی نرم پڑے ہیں اور اب مودی نے پارٹی کے کارکنوں کو اس قسم کے نعرے ، بینر ، پوسٹر جاری کرنے سے روک دیا ہے ۔ دوسری جانب اس معاملہ کو ایک مقامی وکیل وارانسی کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں لے گئے ہیں ۔ اس استغاثہ پر فاضل عدالت 3 اپریل کو سماعت کرے گی ۔ سماج وادی پارٹی نے مودی کے ان بینر پوسٹروں کے جواب میں ’’تھر تھر مودی‘‘ کے بینر پوسٹر لگائے ہیں ۔
وارانسی میں مودی کی جیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ عام آدمی پارٹی کے قائد اور دہلی کے سابق وزیراعلی اروند کیجریوال نے کھڑی کردی ہے ۔
اروند کیجریوال وارانسی میں نریندر مودی کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گے ۔ اروند کیجریوال کی وارانسی میں جس طرح سے پذیرائی ہوئی اور ان کی حمایت میں عوام جس طرح سے سڑکوں پر نکلے ، اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اروند کیجریوال اس حلقہ سے خوب الیکشن لڑیں گے اور نتائج تک مودی کو مسلسل پریشانی میں ڈال رکھیں گے ۔ اگر تمام سیکولر جماعتوں نے مودی کو ہرانے کے لئے اروند کیجریوال کی حمایت کردی تو مودی کے لئے اس حلقہ سے الیکشن جیتنا مشکل ہوجائے گا ۔ ویسے سماج وادی پارٹی کے ذرائع یعنی پارٹی کے بڑے لیڈروں کی رائے ہے کہ سماج وادی پارٹی اس حلقہ سے اپنے امیدوار وجے چورسیا کو ہٹالے اور پارٹی سماج وادی پارٹی کی حمایت کردے تو اس سے پارٹی کی سیکولر شبیہ میں اور زیادہ نکھار آئے گا ۔ اگرچہ کہ وزیراعلی اکھلیش یادو نے پارٹی کے امیدوار ہٹائے جانے کے امکان کو مسترد کردیا ہے ۔ کانگریس نے ابھی اس حلقہ سے اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ قومی ایکتا دل کی جانب سے سیاسی مافیا مختار انصاری میدان میں ہیں ۔ گزشتہ الیکشن میں انھوں نے بی جے پی کے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو سخت ٹکردی تھی حالانکہ مختار انصاری الیکشن ہار گئے تھے ۔ اس حلقہ میں تقریباً 22 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں اور اگر تمام سیکولر پارٹیاں اروند کیجریوال کی حمایت کردیں تو مودی کو جیت کے لالے پڑجائیں گے ۔
اعظم گڑھ سماج وادی پارٹی کے لئے ہمیشہ بے حد خوش قسمت رہا ہے ۔ پارٹی نے جب جب اس حلقہ سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تب تب اسے کامیابی ملی ۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن کی مہم بھی اعظم گڑھ سے شروع ہوئی نتیجہ میں سماج وادی پارٹی کو 224 سیٹیں ملیں ۔ اعظم گڑھ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے یہاں کے مسلمان عام طور پر تعلیم یافتہ ہیں ۔ یہاں دینی مدارس کا جال بچھا ہوا ہے ، اعظم گڑھ کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش مسلسل کی جارہی ہے ۔ جس کے نتیجہ میں دہشت گردی کے معاملے میں پکڑے گئے مسلم نوجوانوں کا تعلق اعظم گڑھ سے جوڑا جاتارہا ہے ۔ سابقہ ملائم کے دور حکومت رہی ہو یا مایاوتی کا دور ہو یا پھر اکھلیش یادو کا دور ، ہر حکومت کے زمانے میں دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو نہ صرف پکڑا گیا بلکہ ان کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں اعظم گڑھ سے ضرور جوڑا گیا ۔ چنانچہ آج کل بھی عام انتخابات کی گونج میں مبینہ مسلم دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور اس میں اعظم گڑھ کو گھسیٹا جارہا ہے ۔ ملائم سنگھ یادو سے اگرچہ مسلمان ناراض ہیں لیکن ملائم سنگھ یادو روٹھے اور ناراض مسلمانوں کو منانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں چنانچہ عام انتخابات سے پہلے ہی مسلمانوں کو منانے کی کوششیں شروع کردی تھیں ۔ ملائم سنگھ یادو ایک ایسے سیاستداں ہیں جن سے مسلمان ، علماء و دانشور ، سیاسی ، غیر سیاسی سب سے بہت کھلے دل سے ملتے ہیں اور ملائم سنگھ یادو بھی مسلمانوں کو ہر طرح سے مطمئن کرکے واپس لوٹاتے ہیں ۔
اب جب کہ ملک کا سیکولرازم داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ ملک پر فسطائی طاقتیں حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہیں ۔ ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کی ذرا سی غلطی یا لغزش خود ان کی ہی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے ۔ اس خطہ کے جمعیتہ العلماء ہند کے مولانا ارشد مدنی ، مولانا سید سلمان حسنی ندوی ، مولانا خالد رشید فرنگی محلی ، مجلس مشاورت سمیت تمام ملی تنظیموں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بی جے پی کو ہرانے والے سیکولر امیدوار کے حق میں ووٹ دیں کیونکہ یہ مسلمانوں اور سیکولرازم دونوں کے لئے بے حد ضروری ہے ۔