اترپردیش میں مجرموں کے ساتھ جاری جنگ غلط راہ پر ۔ قانون کی بالادستی کم کرنے کی کوشش پولیس کونہیں کرنا چاہئے۔سنکر سین

چیف منسٹر اترپردیش کی پشت پناہی ملنے کے بعدمجرموں کے خلاف ریاست کی پولیس سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ کچھ مجرموں کو انکاونٹر میں ماردیاگیا ہے تو کچھ موت کے خوف سے خودسپردگی اختیارکرتے ہوئے جان بچانے کی جدوجہد میں لگ گئے ہیں۔

پولیس ہیڈکوارٹر کے ذریعہ سے حاصل ڈاٹا کے مطابق مارچ2017سے جاریہ جنوری تک 1,142انکاونٹرس ریکارڈ کئے گئے ہیں مارے جانے والے مبینہ مجرمین کی تعداد 38تک پہنچ گئی ہے۔

انکاونٹرماہرین کی گولی مارنے کے لئے خدمات حاصل کی جارہی ہے‘ لکھنو‘ سہارنپور‘ گورکھپور‘ باغپت اورریاست کے دیگر علاقوں میں انکاونٹرس انجام دئے گئے ہیں۔

کیونکہ چیف منسٹر کی جانب سے اس کو ہری جھنڈی دیکھائی گئی ہے اور پولیس کو چیف منسٹر کی جانب سے ملی کھلی چھوٹ تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے کہ پولیس ان اختیارات کا غلط استعمال تو نہیں کرے گی۔

عوام کی منظوری کے لئے پولیس انکاونٹرس حقیقت میں ایک طریقہ ہے۔ مجرموں کے ساتھ انصاف کی سریت دھیمی ہے۔ مقدمہ‘ عدالتی کاروائی اور سنوائی ۔اس عدالتی نظام کا استفادہ اٹھاتے ہوئے مجرمین آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں۔

انکاونٹرس اس رحجان کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے جونظام انصاف اور نظم وضبط کی برقراری کے لئے عوامی مطالبہ کا فوری حل نہیں ہے۔صحیح انداز میں پولیس کی موثر کارکردگی کے لئے ‘ غیرقانونی انکاونٹرس کی پیشہ وارانہ اور پولیس لیڈرس کی جانب سے سرزنش ہورہی ہے۔

یہ پولیس کے اندر غیر قانونیت اور قانون کی خلاف ورزی تصور کی جارہی ہے۔جمہوری سماج میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قانون توڑنے کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بالخصوص وہاں جہاں پر قانون کی بالادستی ہے۔یہ قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ خودمختاری اور منفی اثرات کا سبب ہے۔ اس کو صحیح جواب قانون کو مضبوط کرنا اور قانونی عمل کو فروغ دینا ہے۔

اندھرا پولیس کی جانب سے کئے گئے فرضی انکاونٹرس کے خلاف آندھرا پردیش سیول لبرٹیز کمیٹی( اے پی سی ایل سی) کے شکایت کے بعد نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے حیدرآباد میں ایک پبلک ہیرنگ منعقد کی اور شواہد جمع کئے۔ کمیشن نے محسوس کیا کہ خانگی دفعہ میں فرضی انکاونٹرس کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا‘ اور سیکشن46(3)کریمنل پروسیجر کوڈ کو اس طرح ختم نہیں کیاجاسکتا۔

مذکورہ سنوائی کے بعد اس قسم کے انکاونٹرس میں ملوث پولیس افسروں کے خلاف محکمہ اندر یا محکمے کے سی ائی ڈی اور پھر دیگر اداروں کے ذریعہ تحقیقات کی سفارش کی تھی مگر این ایچ آر سی کی مذکورہ سفارشات کاغذ تک محدو د ہوکر رہ گئی ہیں۔قانون نافذکرنے کے نام پر قانون سے کھلواڑ غلط حکمت عملی ہے اور اس کے نتائج بھی خطرناک نکلیں گے۔

میں نے اپنے کئی سال کی پولیس سروس اور این ایچ آر سی سے وابستہ رہنے کے دوران دیکھا ہے کہ پولیس طاقت غیر ضروری اقدامات اور ذاتی خوشی کے لئے کیا کرتی ہے۔

جرم او رمجرمین پر شکنجہ کسنے کے نام پر وہ پرانے اعداد وشمار کاسہارا لیتے ہیں۔ کئی بے قصور لوگوں اپنی جان اور مال سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔طاقت کا استحصال کرنے والے اس خطرناک اور ہیبت ناک کھیل میں ملوث افراد کو یوپی پولیس کے ریٹائرڈ سینئر افیسر نے احتیاط برتنے کا انتباہ دیا ہے۔

فی الحال کچھ افیسر اپن اس کام سے خوش ہیں مگر اس وقت سیاسی کھلاڑی ان کے بچاؤ کے لئے آگے نہیں ائیں گے‘جن کی حمایت میں قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے بلکہ حکمران کی خوشنودی کے لئے یہ کام جارہا ہے۔