اترپردیش ضمنی انتخابات۔سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد نے اہم لڑائی میں بی جے پی کو چاروں خانے چت کردیا

گورکھپور۔بھارتیہ جنتا پارٹی کواترپردیش کے دو اہم لوک سبھا سیٹوں گورکھپور اور پھلپور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ مذکورہ سیٹیں چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کے نائب کیشو پرساد موریہ کے سال2017میں ایوان اسمبلی میں داخلہ کے بعد خالی ہوگئی تھیں جہاں پر ضمنی انتخابات کرائے گئے۔

سماج وادی پارٹی کے امیدوار ناگیندر پرتاب سنگھ پٹیل نے پھلپور لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی کے امیدوار کو59613ووٹوں سے تاریخی شکست دی ۔

اسی طرح سماج وادی پارٹی کے گورکھپور امیدوار پروین کمار نشد نے 21916ووٹ کی اکثریت سے بی جے پی کے امیدوار کو شکست فاش کیا۔

دونوں سیٹیں بی جے پی کے لئے کافی اہمیت کی حامل تھی ۔ کیونکہ گورکھپور لوک سبھا حلقے پر 1998سے یوگی ادتیہ ناتھ کا قبضہ تھا۔ پہلے بار جب اپنے رہنما ادویاناتھ کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ لوک سبھا حلقہ گورکھپور سے منتخب ہوئے تھے وہ محض26سال کی ایوان میں سب سے کم عمر رکن پارلیمنٹ تھے جو تین مرتبہ منتخب ہوکرلوک سبھا گئے تھے‘ اس کے علاوہ یوگی ادتیہ ناتھ نے530127ووٹ حاصل کرکے ملک کی سب سے اول رکن پارلیمنٹ بن گئے تھے جس نے اتنی بڑ ی تعداد میں ووٹ لئے اور51فیصد ووٹ پر قبضہ کیاتھا

۔دوسری طرف پھلپور لوک سبھا سیٹ جس پر 2014میں بی جے پی نے اپنا قبضہ جمایاتھا اور یہ حلقہ بھی بی جے پی کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے۔

یہاں سے سابق میں جواہرلال نہرو‘ ان کی بہن وجئے لکشمی پنڈی اور سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ منتخب ہوکر آئے ہیں۔

ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ نے 503564ووٹ حاصل کئے تھے اور مجموعی رائے دہی کے 52.43فیصد ووٹوں پر انہوں نے اپنا قبضہ جمایا۔

سیاست میں نہ تو کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن ‘ اس بار بہوجن سماج پارٹی نے سماج وادی پارٹی کا ساتھ دیا ہے تاکہ بی جے پی کو روکا جاسکے۔ اس قبل1992میں دونوں نے ہاتھ ملایاتھا‘ تاکہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی کی کلیان سنگھ حکومت کو اقتدار سے بیدخل کیاجاسکے۔

گورکھپور اور پھلپور میں جہاں پر بی ایس پی نے ایس پی امیدواروں کی مدد کا تجربہ کیا ہے اس کا مقصد اترپردیش اور ہندوستان کی مجوزہ سیاست کی رحجان کو تبدیل کرنا اور عام انتخابات کے تیاری ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=W_ogo4NFYd8

ایس پی ‘ بی ایس پی نے مشترکہ طور پر ووٹ ڈالے تاکہ بی جے پی کی مضبوط قلعہ میں دارڑ ڈال سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد کی گرمی میں یوگی ادتیہ ناتھ اور ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ کی نمائندگی والے حلقوں میں اس کا اثر صاف طورپر محسوس ہوا۔

اگر ہم ایک نظر2017کے اسمبلی الیکشن میں ووٹوں کی تقسیم پر ڈالیں گے تو یہ بات سامنے ائے گی کہ ایس پی‘ بی ایس پی‘ کانگریس کے درمیان میں تقسیم ہونے والے ووٹوں کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوا تھا۔

یوگی ادتیہ ناتھ کو شکست دینے کے بجائے ایس پی اور بی ایس پی نے ایک دوسرے کے خلاف ہی اپنے امیدوار کھڑا کئے۔ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سے یہ بات تو صاف ہوگئی ہے کہ یہ بی جے پی کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔

یوپی ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد سمجھا یہ جارہا ہے کہ یوگی اور مودی دونوں کے اثر کو ختم کرتے ہوئے ریاست میں بی ایس پی اور ایس پی اتحاد رائے دہندوں کو اپنی طرف راغب کرانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگا۔ایس پی ‘ بی ایس پی‘ کانگریس اور آر ایل ڈی کے اتحاد نے2017 کے اسمبلی الیکشن میں52فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔

اگر ہم 2014کے جنرل الیکشن کا جائزہ لیں تو ایس پی‘بی ایس پی کانگریس اور اپنا دل نے مشترکہ طور پرسب سے اوپرتھے اور50.3فیصد ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ بی جے پی کو 42.3فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

اترپردیش کے ضمنی الیکشن چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اور ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ کے گورکھپور او رپھپلور لوک سبھا حلقہ کو چھوڑنے کے بعد مذکورہ حلقوں پر دوبارہ کامیابی دونوں کے لئے وقار کا مسئلہ بن گئی تھی ۔

اور یہ دوروایتی حریف سیاسی جماعتوں بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) اور سماج وادی پارٹی( ایس پی) کے درمیان میں انتخابی اتحاد کے قیام کا امتحان بھی تھا۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے دونوں سیاسی جماعتیں 1991کے بعد پہلی مرتبہ پھلپور اور گورکھپور میں متحدہوکر سامنے ائے۔

سال2019کے لوک سبھا الیکشن کے لئے ضمنی انتخابات کو ادتیہ ناتھ کے لئے اگر ’’ریہرسل‘‘ قراردیاگیا تو مذکورہ ضمنی الیکشن برسراقتدار بی جے پی‘ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے سہ رخی مقابلے کے گواہی دیں گے

سیاست ویب ٹیم کی پیش