بی جے پی کو فائدہ پہنچانے جئے م جئے بھیم کا نعرہ ، سیاسی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ
حیدرآباد ۔ 29 ۔ مارچ : ( سیاست ڈاٹ کام ) : آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کو قومی سیاست میں کافی اہمیت حاصل ہے ۔ مرکز میں حکومت کی تشکیل میں اس ریاست کا اہم رول ہوتا ہے جہاں سے 80 ارکان لوک سبھا کا انتخاب عمل میں آتا ہے جب کہ اترپردیش اسمبلی میں ارکان کی تعداد 403 ہے ۔ نام نہاد قوم پرستوں با الفاظ دیگر فرقہ پرستوں نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے اس ریاست کو فرقہ وارانہ لحاظ سے ایک حساس ریاست میں تبدیل کردیا ہے اور اس خطرناک رجحان نے 90 کے دہے سے زور پکڑا ہے ۔ اس ریاست میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات کا انعقاد عمل میں آنے والا ہے ۔ ریاست میں برسر اقتدار سماج وادی پارٹی ان انتخابات میں 2012 کے اسمبلی انتخابات کا اعادہ کرنے کی خاطر ابھی سے انتخابی تیاریاں شروع کرچکی ہے ۔ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں اقتدار سے محروم ہونے والی بی ایس پی ( بہوجن سماج پارٹی ) بھی اس مرتبہ کسی قسم کی کوتاہی برتنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس کے قائدین فرقہ پرستی کی بکواس کے ذریعہ ہندوؤں کے پسماندہ طبقات کے متحدہ ووٹ حاصل کرنے کے منصوبوں کو حقیقی شکل دینے کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی قیادت اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کو یقین ہے کہ بی جے پی اپنے مذہبی اور فرقہ پرست ایجنڈہ کی بنیاد پر نہ صرف ہندو ووٹروں کی تائید اپنے حق میں کرے گی بلکہ مختلف جماعتوں کو انتخابی میدان میں اتار کر ریاست کے مسلم رائے دہندوں کے ووٹ تقسیم کردے گی ۔ اس کا یہی منصوبہ ہے کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات کی طرح مسلم ووٹوں کو کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی میں تقسیم کردیا جائے ۔ آپ کو بتادیں کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 20 فیصد ہے اور مسلم رائے دہندے ریاست کے 403 اسمبلی حلقوں میں سے تقریبا 300 حلقوں میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اترپردیش کے اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کے طاقتور موقف کا اندازہ موجودہ اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ایوان اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد 64 ہے ۔ جس میں پیس پارٹی آف انڈیا کے 4 ارکان بھی شامل ہیں ۔ اس پارٹی نے 2012 اسمبلی انتخابات میں پہلی مرتبہ حصہ لیتے ہوئے چار نشستیں حاصل کی ہیں ۔ جب کہ 2012 اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کو 224 بی ایس پی کو 80 ، کانگریس کو 28 اور بی جے پی کو صرف 47 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوسکی تھی ۔ آر ایل ڈی نے 9 ، پیس پارٹی آف انڈیا نے 4 ، این سی پی نے ایک اور آزاد امیدواروں نے 14 اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی ، اترپردیش کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں بھی 2014 کے عام انتخابات کی طرح مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کے منصوبہ پر عمل آوری کو یقینی بنانے کی خواہاں ہے اور اس کے اس مشن کو حیدرآباد سے اٹھنے والا نعرہ ’جئے م جئے بھیم ‘ پورا کرے گا ۔ ایک دن قبل ہی مجلس کے صدر اسد الدین اویسی نے اعلان کیا ہے کہ اترپردیش میں مجلس کا نعرہ جئے م جئے بھیم ہوگا ۔ اور اس نعرہ کے تحت ان کی پارٹی مسلمانوں اور دلتوں کو متحد کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لے گی ۔ اسد اویسی کے مطابق بی جے پی اور سماج وادی پارٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہے ۔ سماج وادی پارٹی کو مجلس کے یو پی اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے سے خوف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے دوروں میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے ۔ تاہم سیاسی پنڈتوں کے خیال میں یو پی اسمبلی انتخابات میں مجلس کو اتارنے کا مقصد ہی مسلم ووٹوں کی تقسیم ہے ۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا مطلب بی ایس پی ، ایس پی کا نقصان اور بی جے پی کا راست فائدہ ہے ۔ 2014 کے عام انتخابات میں بھی بی جے پی نے مسلم ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ ریاست کی 80 پارلیمانی نشستوں میں سے بی جے پی نے 71 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ اپنی فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی بنیاد پر اس نے 42.3 فیصد ووٹ حاصل کئے جب کہ سماج وادی پارٹی 22.2 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے صرف 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کرسکی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان تمام حلقوں پر ملائم سنگھ یادو کے ارکان خاندان منتخب ہوئے ۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی اور سب سے زیادہ نقصان بی ایس پی کو ہوا ۔ اس نے 19.6 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ایک پارلیمانی نشست بھی حاصل نہ کرسکی ۔ اس کے برعکس 7.5 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی کانگریس کو امیتھی اور رائے بریلی کی دو نشستوں پر کامیابی ملی اپنا دل 1.0 فیصد ووٹوں کے ساتھ 2 حلقوں میں کامیاب رہا ۔ ان حالات میں جئے م جئے بھیم کا نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں کسی مسلم سیاسی جماعت کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے سے بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔ اس کے برعکس مایاوتی اور ملائم سنگھ کی پارٹیوں کو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے ۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے پہلے ہی مسلمانوں کو اپنے ووٹ تقسیم نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ ایسے میں یو پی کے مسلمانوں کو ان کے ووٹوں کی تقسیم کے لیے کی جارہی سازشوں سے چوکنا رہنا ہوگا ۔ انہیں اپنے ہمدردوں اور بی جے پی کے آلہ کاروں میں فرق کرنا ہوگا ۔ اگر مسلمان متحدہ طور پر بی ایس پی کو ووٹ دیتے ہیں تو بی جے پی جیسی طاقتیں کم از کم یو پی میں اقتدار کے قریب نہیں پہنچ سکتی ۔۔