اب کی بارش میں یہ دیوار بھی گرجائے گی

رشیدالدین
16 ویں لوک سبھا کے چناؤ فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوتے ہی اہم سیاسی جماعتوں کے رنگ بھی بدلنے لگے ہیں۔ کرپشن کے خاتمہ اور ترقی کے نام پر شروع ہونے والی انتخابی مہم آخری مرحلہ میں سیکولرازم اور جارحانہ فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم کو روکنا سیکولرازم کی دعویدار جماعتوں کیلئے چیلنج سے کم نہیں۔ انتخابی مرحلہ کے دوران وقتاً فوقتاً منظر عام پر آنے والے اوپنین پول اور تیزی سے بدلتے انتخابی موضوعات نے 80 کروڑ سے زائد رائے دہندوں کی ذمہ داری میں اضافہ کردیا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی نے جن مسائل کو انتخابی موضوع بنایا ، آج ان کی جگہ نئے موضوعات نے لے لی ہے۔ کانگریس اپنی حکومت کی دو میعادوں کو عوام کے درمیان پیش کرنے میں ناکام ہوگئی۔ کیونکہ منموہن سنگھ کے وزارت عظمیٰ دور میں حکومت کے کارناموں سے زیادہ ناکامیاں ملیں گی۔

بی جے پی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن اور اسکامس کو موضوع بناکر کانگریس کو دفاعی موقف میں کردیا لیکن جب یہ موضوعات فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے تو اس نے جارحانہ فرقہ پرستی کی اپنی روایتی پالیسی کو اختیار کرلیا۔ نریندر مودی اور ان کی جارحانہ فرقہ پرست پالیسی کے غلبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کے پسندیدہ مسائل کی شمولیت تک انتخابی منشور کی اجرائی کو موخر کرنا پڑا۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے انتخاب کے بعد پیڈ میڈیا اور سنگھ پریوار نے کچھ اس طرح مہم چلائی کہ نریندر مودی کا قد بی جے پی سے بڑا ہوگیا اور مودی آگے نکل گئے جبکہ پارٹی پیچھے رہ گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ منصوبہ بند سازش کے ذریعہ سیکولر ووٹ تقسیم کرنے کی تیاری ہوچکی ہے تاکہ نریندر مودی کا راستہ آسان ہوجائے۔ اس سازش میں پرائے لوگوں کے ساتھ کچھ اپنے بھی ہیں جو دن رات سیکولرازم کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی کیلئے ’’ہنوز دلی دور است‘‘۔ ہندوستان کے رائے دہندوں کے شعور پر ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ وہ اس بناوٹی لہر کا شکار نہیں ہوں گے ۔ رائے دہندوں کو سیکولرازم اور جارحانہ فرقہ پرستی کے درمیان انتخاب کرنا ہوگا ۔

انتخابی مہم کے نقطہ عروج پر وزیراعظم منموہن سنگھ کے سابق میڈیا مشیر سنجے بارو اور محکمہ کوئلہ کے سابق سکریٹری پی سی پاریکھ کی تصانیف کا منظر عام پر آنا خود کئی شبہات کو جنم دیتا ہے۔ تصانیف کی اجرائی سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن اس کیلئے جس وقت کا تعین کیا گیا اس پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسی تصانیف جو راست طور پر وزیراعظم کے خلاف ہیں، ان کی رائے دہی سے عین قبل اجرائی سے یقیناً بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ ان تصانیف کی اجرائی اور اس کے پس پردہ مقاصد سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف بیورو کریسی میں نہیں بلکہ خود وزیراعظم کے دفتر میں بی جے پی کے ہمدرد موجود تھے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سنجے بارو اور پی سی پاریکھ نے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی انتخابی مہم چلائی ہے۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم کا جہاں تک سوال ہے، عام آدمی کے سربراہ اروند کجریوال کے رول پر بھی شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کجریوال کی نریندر مودی سے وارناسی میں راست ٹکر سے ملک بھر میں سیکولر ووٹ کی تقسیم کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کجریوال نے مودی کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے سارے ملک میں سیکولر ووٹ عام آدمی پارٹی کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے۔ کجریوال نے ملک بھر میں تقریباً 400 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ سیکولر ووٹ جب کجریوال اور کانگریس کے درمیان تقسیم ہوں تو ظاہر ہے کہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کجریوال نے مودی کو چیلنج کیا لیکن نریندر مودی بھول کر بھی کجریوال اور عام آدمی پارٹی کو نشانہ بنانے سے گریز کر رہے ہیں۔ مودی کے نشانہ پر صرف سونیا گاندھی اور راہول گاندھی ہیں۔

کجریوال کے حق میں مودی کے ہمدردانہ رویہ کی آخر کیا وجوہات ہیں؟ کہیں یہ سازش تو نہیں کہ ملک بھر میں سیکولر اور اقلیت کے ووٹ تقسیم کردیئے جائیں۔ یہ سازش کانگریس کو ہرانے اور مودی کو جتانے کی بھی ہوسکتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوزائدہ پارٹی نے پہلی مرتبہ تقریباً 400 نشستوں پر مقابلہ کا فیصلہ کیوں کیا؟ ملک میں انا ہزارے کی قیادت میں کرپشن کے خلاف اٹھی تحریک اور اس میں شامل افراد کے ٹریک ریکارڈ کا جائزہ لیں تو عام آدمی پارٹی بھی شک کے دائرہ میں نظر آئے گی ۔ انا ہزارے اور ان کی تحریک میں شامل بابا رام دیو کی بی جے پی سے ہمدردی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ انا ہزارے کے قریبی اور بااعتماد رفقاء جنرل وی کے سنگھ اور کرن بیدی کی بی جے پی میں شمولیت سے ان اندیشوں کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کجریوال کا وارناسی میں مودی سے مقابلہ بی جے پی کو شکست دینے نہیں بلکہ ملک بھر میں اسے کامیاب کرنے کے مقصد سے ہے۔ دانستہ یا نادانستہ ہی سہی عام آدمی پارٹی سیکولر ووٹ کی تقسیم میں اہم رول ادا کرنے جارہی ہے۔ اگر یہ غلط ہے تو مودی کے نشانہ پر کجریوال کیوں نہیں؟ دہلی میں حکومت کی تشکیل پھر استعفیٰ اور اب اسمبلی کی تحلیل پر اصرار کیا بی جے پی کا راستہ صاف کرنے کی کوشش نہیں ۔ راہول گاندھی کے خلاف امیٹھی سے مقابلہ کرنے والے عام آدمی پارٹی کے قائد کمار وشواس کے نشانہ پر صرف گاندھی خاندان ہے۔ انہوں نے کبھی بھی نریندر مودی کو نشانہ نہیں بنایا۔ عام آدمی پارٹی قائدین کی بی جے پی سے اس ہمدردی سے عوام کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟

ملک میں 300 سے زائد لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی ہے اور اقلیتی رائے دہندے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ان حلقوں میں سیکولر پارٹیاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں اقلیتی ووٹ بے اثر ہوجائیں گے ۔ سیکولر پارٹیوں کو صرف ووٹ حاصل کرنے سے مطلب ہے لیکن ووٹ کی تقسیم روکنے کی کوئی فکر نہیں۔ سیکولر ووٹ کسی ایک پارٹی کے حق میں جانے کے امکانات کافی کم ہیں۔

جس طرح کشن گنج حلقہ میں کانگریس کے امیدوار مولانا اسرار الحق کے خلاف مقابلہ سے جنتا دل یونائٹیڈ کے امیدوار نے دستبرداری اختیار کرلی ۔ دیگر حلقوں میں بھی اسی طرح کی مثالوں کی ضرورت ہے تاکہ جارحانہ فرقہ پرستی کو روکا جاسکے۔ ملک کی سیکولر اور مذہبی رواداری کے روایات کا تحفظ الیکشن 2014 ء میں سیکولر جماعتوں اور رائے دہندوں کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ سیکولر پارٹیاں ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے روکنے کی باتیں تو کر رہی ہیں لیکن ان میں باہم تال میل کی کمی اور مشترکہ حکمت عملی کا فقدان ہے۔ بعض جماعتوں کا یہ حال ہے کہ وہ نتائج کے بعد اقتدار کیلئے فرقہ پرست طاقتوں کے حلیف بننے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی مہم اور عام آدمی پارٹی کے عروج کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کرپشن اور یو پی اے حکومت کے مختلف اسکامس اہم انتخابی موضوع تھے لیکن اب سیکولرازم بنام فرقہ پرستی موضوع بن چکا ہے۔ کانگریس میں کرپشن کے داغ کو اپنے دامن سے دھونے کیلئے جس طرح مہم چلائی اگرچہ وہ کامیاب ہوگئی لیکن جارحانہ فرقہ پرستی سے نمٹنے کیلئے اس کے پاس طاقتور قیادت اور حکمت عملی کی کمی ہے ۔ کرپشن کے مسئلہ سے توجہ ہٹانا کانگریس کیلئے خسارہ کا سودا ثابت ہوا۔ ویسے بھی اس مسئلہ پر وہ دفاعی موقف میں تھی۔

بی جے پی نے جب جارحانہ فرقہ پرستی کا سہارا لیا تو کانگریس دوبارہ بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس کی مہم سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پارٹی نے شکست کو تسلیم کرلیا ہو۔ اسی دوران الیکشن کمیشن نے اشتعال انگیز تقاریر کے معاملہ میں بی جے پی قائد امیت شاہ پر عائد پابندی کو برخاست کردیا جبکہ سماج وادی قائد اعظم خاں پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دونوں کا جرم ایک ہے تو پھر سلوک بھی ایک طرح کا ہونا چاہئے ۔ الیکشن کمیشن تمام کو مساوی موقعے کی بات کرتا ہے۔ لہذا اعظم خاں پر بھی پابندی ختم ہونی چاہئے ۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی جس انداز سے سونیا اور راہول کو نشانہ بنارہے ہیں ، اس میں تحقیر کا عنصر کچھ زیادہ ہے۔ کیا ہندوستان اور بی جے پی گاندھی خاندان کی قربانیوں کو فراموش کرسکتے ہیں ؟ پنڈت جواہر لال نہرو جدید ہندوستان کے معمار تھے جبکہ راجیو گاندھی نے ہندوستان کو کمپیوٹر ٹکنالوجی سے آراستہ کیا۔ سونیا گاندھی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور پارٹی کے استحکام پر توجہ دی۔اگر وہ چاہتیں تو منموہن سنگھ کی جگہ دو میعاد کیلئے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہ سکتی تھیں۔ اس خاندان پر تنقید کرنے والے نریندر مودی اپنا یا پھر اپنے خاندان کا کوئی کارنامہ عوام کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ؟ یقیناً نریندر مودی اپنے ایک کارنامہ کے ذریعہ دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں اور وہ کارنامہ 2002 ء گجرات فسادات ہے ۔ نریندر مودی کو مسلم ووٹ سے محرومی کا خوف لاحق ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مخصوص میڈیا کو گجرات فسادات پر اپنی صفائی پیش کی۔ دوسری طرف پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ اور دیگر قائدین لکھنو میں مسلم مذہبی شخصیتوں سے رجوع ہوئے۔ بعض نام نہاد اور مسلمانوں کے ٹھیکیدار مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے افراد یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان نریندر مودی سے خائف ہیں۔ ایک بزرگ سیاستداں کے بقول گنبد اقتدار کے یہ کبوتر دراصل دسترخوان اقتدار کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ مودی ہو یا کوئی اور مسلمانوں کے خوفزدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمان اور خوف کبھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔ مودی سے ڈراکر راج ناتھ سنگھ کو ہمدرد کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 1947 ء سے مسلمان ملک میں کئی بار خون کا غسل کرچکے ہیں۔ 1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت سے بڑھ کر کوئی اور سانحہ مسلمانوں پر نہیں گزرا لیکن مسلمانوں نے اس مصیبت کو بھی صبر و تحمل کے ساتھ نمٹا۔ اس عظیم سانحہ کے باوجود مسلمان خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس سانحہ کے بعد مسلمانوں میں اسلامی شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک ملک میں فرقہ پرست عناصر کا سوال ہے پی وی نرسمہا راؤ کا نام تاریخ میں ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ نرسمہا راؤ فرقہ پرستی کی یونیورسٹی تھے اور نریندر مودی صرف ایک طالب علم ہیں۔ مسلمانوں کو اقلیت کہہ کر احساس کمتری پیدا کرنے والے یہ قائدین جان لیں کہ مسلمان ملک کی اقلیت نہیں بلکہ دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ الیکشن 2014 ء میں فرقہ پرستوں کو اقتدار سے روکنے کے مسئلہ پر منظر بھوپالی نے کچھ اس طرح مشورہ دیا ؎
اپنے پرکھوں کی وراثت کو سنبھالو ورنہ
اب کی بارش میں یہ دیوار بھی گرجائے گی