رشیدالدین
20 ماہ کے اقتدار میں بے قابو
نعروں کی سیاست …مسلمان نشانہ پر
بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کوئی بتائے مرکز میں این ڈی اے حکومت کے ابھی صرف 20 ماہ مکمل ہوئے ہیں۔ اقتدار کے حصول کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کچھ اس طرح بے قابو ہوچکا ہے جیسے انہیں آئندہ 10 سال تک حکومت چلانے کا لائسنس مل چکا ہو۔ توقع کے برخلاف اکثریت کے حصول سے سنگھ پریوار اسے اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کا سنہری موقع تصور کرنے لگا ہے۔ اس قدر کم مدت میں سنگھ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی بڑی عجلت ہے۔ بیک وقت کئی متنازعہ مسائل کو ہوا دے کر ہندو راشٹر کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ عدم رواداری اور نفرت کا ماحول ابھی ختم نہیں ہوا کہ مخصوص کلچر کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ملک میں اور بیرون ملک بین مذاہب یکجہتی اور یکساں ترقی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن سنگھ پریوار کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کرلی ہیں۔ ملک پر مخصوص تہذیب کو مسلط کرنے والے پہلے ملک کی تاریخ کا مطالعہ کریں جو کہ بھائی چارہ اور رواداری سے بھری پڑی ہے۔ ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے مسلم حکمرانوں نے کبھی رعایا پر اپنا مذہب مسلط نہیں کیا۔
اگر وہ ایسا کرتے تو آج ہندوستان میں اکثریت اور اقلیت کی آبادی میں اس قدر فرق نہ ہوتا۔ مسلم حکمرانوں کو برا بھلا کہنے والے ہوسکتا ہے آج ان کے مداح ہوتے۔ مسلم حکمرانوں نے ایک ہزار برس تک اپنی حکومت میں کبھی بھی اپنے مذہب اور تہذیب کا پرچار یا پھر اسے جبراً نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ تھی حقیقی معنوں میں رواداری اور فراخدلی لیکن آج صرف 20 ماہ کے اقتدار میں سنگھ پریوار بے لگام ہوچکا ہے۔ ہندو راشٹر کے ایجنڈہ کے ساتھ کام کرنے والے خودکو حقیقی ہندو راشٹر میں تصور کر رہے ہیں۔ زعفرانی تہذیب مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک زبان اور غذاؤں کے معاملہ میں بھی مداخلت کی جارہی ہے۔ دستور ہند کے بنیادی اصول سے واقف کوئی بھی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ جبراً کسی کی مذہبی آزادی کو سلب کیا جائے ۔ دستور ہند نے صرف مسلم اقلیت کو ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی دی ہے اور کوئی بھی طاقت اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔ اب تک تو صرف غذا کے معاملہ میں مداخلت کی جارہی تھی لیکن اب زبان پر بھی پہرے لگائے جارہے ہیں۔ ملک میں کھانا تو ان کی مرضی کا چل رہا تھا لیکن اب نعرہ بھی ان کی مرضی کا ہو، اس کی خلاف ورزی یا انکار پر دیش دروہی کا لیبل لگایا جارہاہے۔ سنگھ پریوار ملک میں ان غذاؤں اور نعروں کی فہرست جاری کردے جن کے کھانے اور نعرہ لگانے سے حب الوطنی اور نہ کھانے اور نعرہ نہ لگانے پر ملک دشمنی میں شمار ہوگا۔
وطن پرستی اور ملک دشمنی یا غداری کے معیارات کا بھی تعین کیا جائے۔ ہندوستان کیلئے اس کا دستور ہی حرف آخر ہے اور دستور سازوں نے کہیں بھی غذاؤں سے حب الوطنی کو نہیں جوڑا دستور میں واضح طور پر مذہبی آزادی کی صراحت کردی گئی تو کیا سنگھ پریوار دستور اور قانون سے بالا تر ہے ۔ جس طرح وقت کے تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے آر ایس ایس نے نیکر کے بجائے پتلون پہننے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح انہیں کوتاہ ذہنیت اور تنگ نظری کے جذبات سے ابھرنا ہوگا۔ نیکر کے ساتھ سوچ میں تبدیلی ملک کی بھلائی میں ہوگی۔ کھانا اور گانا بھی سنگھ پریوار کی مرضی کے مطابق ہو، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ حب الوطنی کے سرٹیفکٹ کی اجرائی کی دکان چلانے والوں کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ملک یہ جاننا چاہتا ہے کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر آر ایس ایس ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم کیوں لہرایا نہیں جاتا۔ کیا یہ قومی پرچم کی توہین نہیں ہے ۔ گاندھی جی کے قاتل کو شہید قرار دینا کیا حب الوطنی ہے؟ ’’جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے‘‘ والا معاملہ نہیں چلے گا۔ دستور ہند نے اظہار خیال ، سوچ اور مذہب کی آزادی فراہم کی ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی شہری کسی بھی مذہب کو اپنی پسند اور مرضی سے اختیار یا چھوڑ سکتا ہے یا پھر بے دین بھی رہنے کا حق حاصل ہے۔ اپنی پسند کے نظریات کو تھوپنے کا رجحان خطرناک ہے اور کسی کا جبر آج تک چلا ہے نہ آئندہ چلے گا ۔ متنازعہ نعروں کا عقیدہ سے راست ٹکراؤ ہے اور یہ نعرے لگانا کسی قیمت پر ممکن نہیں۔ دادری میں بیف کے نام پر اخلاق حسین کی ہلاکت کو عوام ابھی بھولے نہیں تھے کہ راجستھان میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا۔ راجستھان کے ایک یونیورسٹی میں مقیم چار کشمیری طلبہ کو صرف اس افواہ کی بنیاد پر مارپیٹ کی گئی کہ انہوں نے بیف کا پکوان کیا۔ حالانکہ تحقیقات کے بعد وہ میٹ پایا گیا۔ زعفرانی بریگیڈ کو میٹ یا بیف سے مطلب نہیں بلکہ ان کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے حوصلوں کو پست کرنا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی بیف کے نام پر تشدد اور حملے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اب تو پکوان سے قبل کیا سنگھ پریوار سے اجازت لینی پڑے گی؟ یہ رجحان وقتی طور پر سنگھ پریوار کو خوش کرسکتا ہے لیکن ملک کے وسیع تر مفادات کے مغائر ہے۔ نوجوان نسل کے ذہن میں نفرت کا بیج بونا ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے۔
صرف 33 فیصد ووٹ کے ساتھ ہندو راشٹر کا خواب محض جاگتی آنکھوں کا خواب نہیں تو کیا ہے ؟ اس قدر کم تائید کے سبب ہمیشہ عوام کے مرہون منت ہوتے ہوئے بھلائی کے کام انجام دینے چاہئے تھے۔ برخلاف اس کے بی جے پی نے حکومت کی کمان آر ایس ایس کے ہاتھ میں سونپ دی ہے۔ اگر آج حکومت کی 20 ماہ کی کارکردگی اور نریندر مودی کی مقبولیت کا سروے کیا جائے تو جو فیصد آئے گا، وہ شائد حکومت کی برقراری کو خطرہ ثابت ہوگا۔ حکومت کی مقبولیت میں کمی کا اندازہ دہلی اور بہار کی شکست سے لگایا جاسکتا ہے ۔ سنگھ کے قائد نے قومی ترانہ سے لفظ سندھ کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہ علاقہ اب پاکستان میں ہے۔ کیا سنگھ پریوار اکھنڈ بھارت کے نظریہ سے دستبردار ہوچکا ہے ؟ اگر سندھ پر اس قدر اعتراض ہو تو نریندر مودی کی پاکستانی حکمرانوں سے محبت کو کیا کہیں گے۔ اب تو امریکہ میں جلد ہی نواز شریف سے دوبارہ ملاقات کی تیاری کی جارہی ہے ۔ حب الوطنی کے مسئلہ پر نام نہاد دیش بھکتوں کی جانب سے جو معیارات اور جانچ کے پیمانے مقرر کئے گئے ہیں، مضحکہ خیز ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک کبھی اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی کہ ہر کسی کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے گئے ہوں۔ جو لوگ جنگ آزادی میں انگریزوں کے جاسوس تھے اور جن کی کوئی تاریخ نہیں ، آج وہ نئے نئے دیش بھکت بن چکے ہیں۔ لہذا خود کو دیش بھکت ثابت کرنے بار بار اس کا اظہار کیا جارہا ہے اور ساتھ میں دوسروں سے بھی اقرار کیلئے اصرار ہے۔ ملک کی آزادی میں چونکہ ان طاقتوں کی کوئی قربانیاں نہیں ہیں، لہذا وہ آج حب الوطنی کے نعروں کے ذریعہ دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جن کی قربانیوں سے ملک کی تاریخ بھری پڑی ہے ، انہیں زبانی اظہار کی کوئی ضرورت نہیں۔
سنگھ پریوار دراصل نئے نئے دیش بھکت ہیں، انہیں بار بار حب الوطنی ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کا ہر ذرہ مسلمانوں کی حب الوطنی کا گواہ ہے۔ ملک کی عظمت کو دنیا بھر میں بلند رکھنے والی تاریخی عمارتیں مسلمانوں کی ہندوستان سے محبت کی نشانی ہے۔ اگر مسلمانوں کی حب الوطنی پر شبہ ہو تو لال قلعہ پر قومی پرچم کیوں لہرایا جاتا ہے جبکہ یہ مسلمانوں کی عظمت کی نشانی ہے۔ تاریخ میں ایک بھی مجاہد آزادی کو سنگھ پریوار اپنا ثابت نہیں کرسکتا۔ برخلاف اس کے انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مسلم بادشاہوں سے لیکر جہاد کا فتویٰ جاری کرنے والے علمائے دین تک مسلمانوں کی طویل فہرست ہے۔ علمائے دین نے جیل صعوبتیں برداشت کیں۔ شوکت علی گوہر ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابوالکلام آزاد سے لیکر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام تک مسلمانوں نے حب الوطنی کا عملی ثبوت دیا ہے۔ ہندوستان کے ہر شعبہ میں چاہے وہ کھیل ہو یا فلم انڈسٹری مسلمانوں نے دنیا میں ہندوستان کا پرچم بلند کیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ نسل در نسل ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھ رہے ہیں، حالانکہ وہ مرنے کے بعد بھی اپنے وطن میں دو گز زمین کے مالک رہیںگے ۔ برخلاف اس کے حکومت این آر آئیز کو ووٹ کا حق دینے پر غور کر رہی ہے۔ اندرون ملک نہ سہی بیرون ملک سے بی جے پی کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے منصوبہ کے تحت اس تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ این آر آئیز ہندوستان کے حالات سے کیا واقف ہوں گے کہ ان سے صحیح فیصلے کی امید کی جاسکے۔ آسام اور بنگال میں آج تک مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہا جاتا ہے جبکہ انہیں ہندوستانی شہریت حاصل ہے۔ یہ پالیسی دراصل اٹل بہاری واجپائی دور حکومت میں ایل کے اڈوانی کی تیار کردہ ہے جس پر عمل آوری آج کی جارہی ہے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد 4 ریاستوں کے مجوزہ انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرناہے۔آسام اور مغربی بنگال میں بی جے پی اپنے قدم مضبوط کرنے کوشاں ہیں جبکہ کیرالا اور ٹاملناڈو میں اس کا وجود نہیں کے برابر ہے۔ لہذا مذہبی جذبات اور نفرت کی سیاست کے ذریعہ 4 ریاستوں میں ووٹ بینک مستحکم کرنے اور آئندہ سال ہونے والے اترپردیش اسمبلی انتخابات کی تیاری ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے دستور کی دفعہ 44 کی برخواستگی کیلئے وزیراعظم سے نمائندگی کی ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ بروقت نمائندگی ہے کیونکہ بی جے پی کے ایجنڈہ میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ شامل ہیں۔ رام مندر اور یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل کے ذریعہ بی جے پی کسی بھی وقت سماج کو بانٹنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ راز الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
پہلے پر کاٹ کر ہم کو بے پر کیا
اب زباں پر بھی پہرے لگانے لگے