اب دیکھو عدالت بھی وہی بول رہی ہے

رشیدالدین

کالا دھن… بڑے افراد کو بچانے کی کوشش
سردار پٹیل کے نام پر مودی کی سیاست

عام انتخابات میں کامیابی کیلئے بی جے پی نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مختلف مسائل کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے ان کا سیاسی اغراض کیلئے استعمال کیا تھا۔ ان کی حقیقت عوام کے سامنے آنے لگی ہے۔ بی جے پی نے اپنے منصوبہ بند پروپگنڈہ کے ذریعہ کمزور اپوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اب اس کے غبارہ سے ہوا نکلنے لگی ہے۔ مسائل جو بھی ہوں کوئی بھی پارٹی وقتی طور پر ان کا سیاسی استحصال کرسکتی ہے لیکن ہمیشہ ایک ہی مسئلہ کامیابی کا ضامن نہیں بن سکتا۔ یو پی اے حکومت کی کمزوریوں اور ناکامیوں کا بی جے پی کو فائدہ پہنچا اس کا اثر ریاستوں کے اسمبلی نتائج میں دیکھنے کو ملا۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں کامیابی کا جشن منانے بی جے پی تیاری کر رہی تھی کہ سپریم کورٹ نے جشن کا رنگ پھیکا کردیا۔ کالے دھن اور دہلی میں تشکیل حکومت کے مسئلہ پر ایک ہی دن میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی سرزنش کی۔ شاید یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک ہی دن میں دو امور میں مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک مسئلہ بیرونی ممالک سے کالے دھن کی واپسی اور بیرون ملک کالا دھن رکھنے والوں کے ناموں کا انکشاف کا تھا تو دوسرا دہلی کے عوام کو منتخب حکومت سے محروم کرنے سے متعلق تھا۔ دونوں مسائل پر سپریم کورٹ کے سخت تیور نے حکومت کے ہوش ٹھکانے لگادیئے جو دو ریاستوں میں کامیابی سے بے قابو ہوچکی تھی۔

سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد مرکز نے بیرون ملک کھاتے رکھنے والے 627 افراد کے ناموں کی فہرست عدالت میں پیش کی ۔ سپریم کورٹ نے کالے دھن کی واپسی کے اقدامات کے سلسلہ میں حکومت کی سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہوئے ریمارک کیا کہ اگر اس معاملہ کو حکومت پر چھوڑ دیا جائے تو زندگی بھر بھی تحقیقات مکمل نہیں ہوں گی۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعہ جانچ کو آگے بڑھانے میں سپریم کورٹ سنجیدہ ہے۔ حکومت نے کالا دھن رکھنے والوں کی فہرست عدالت کے حوالے کی لیکن اس سے حکومت خود بے نقاب ہوگئی ہے۔ عوام کو توقع تھی کہ اپوزیشن میں رہ کر کالے دھن پر سیاست کرنے والی بی جے پی اب برسر اقتدار آنے کے بعد اس سلسلہ میں اہم انکشافات کرے گی لیکن معاملہ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ کے مصداق ثابت ہوا۔ حکومت نے وہی لسٹ عدالت میں پیش کی جو پہلے ہی تحقیقاتی ٹیم کو حوالے کی گئی تھی ۔ جو نام پیش کئے گئے، وہ غیر اہم افراد کے ہیں،

جن میں کوئی اہم سیاستداں یا صنعت کار شامل نہیں ہیں۔ ان کھاتوں کی تفصیل پیش کی گئی جن میں رقم کا اندراج کئی برس پرانا اور اکاؤنٹس میں رقم بھی معمولی ہے۔ 627 میں 350 افراد کے بارے میں جانچ کی گنجائش ہے جبکہ باقی این آر آئیز کے اکاؤنٹ ہیں جن پر ہندوستان کے ٹیکس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بینک کھاتوں میں اندراجات 1999 ء اور 2005 ء کے درمیان کے ہیں جبکہ ایک اکاونٹ میں آخری انٹری 1973 کی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی حکومت بھی سیاہ دھن رکھنے والے سفید پوش افراد کو بچانا چاہتی ہے۔ بعض اکاؤنٹس میں مجموعی رقم 5 تا 10 کروڑ بتائی گئی ہے۔ اگر ان تمام کھاتوں کو منجمد کردیا جائے تو حکومت کو مشکل سے 100 تا 200 کروڑ روپئے ملیں گے۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کالے دھن کے مسئلہ پر جو مہم چلائی گئی اقتدار میں آتے ہی خاموشی کیوں؟ پتہ یہ چلا کہ حکومت بھلے تبدیل ہوجائے لیکن ہر پارٹی پر کالے دھن والوں کا کنٹرول ہے۔ ظاہر ہے کہ انتخابات میں کالے دھن کا ہی استعمال ہوتا ہے ۔ لہذا ہر پارٹی کو ایسے افراد کی ضرورت پڑتی ہے ۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ اپنے خفیہ مددگاروں کو بے نقاب کیا جائے ۔

نریندر مودی اور بی جے پی قائدین کیا بھول گئے کہ انہوں نے بیرونی بینکوں میں 55000 کھاتوں اور 25 لاکھ کروڑ کی رقم کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب صرف معمولی رقم کی 627 کھاتوں پر اکتفا کیوں ؟ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ تشکیل حکومت کے 100 دن میں ساری بلیک منی ملک لائی جائے گی اور ہر عام آدمی کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپئے جمع کئے جائیں گے۔ تشکیل حکومت کو 150 دن مکمل ہوگئے لیکن ابھی تک بلیک منی کا ایک روپیہ بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔ کہاں ہے انا ہزارے اور بابا رام دیو جنہوں نے کالے دھن کے مسئلہ پر احتجاج اور ستیہ گرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو درپردہ سیاسی فائدہ پہنچایا تھا۔ مرن برت کرنے والے گاندھیائی رہنما انا ہزارے چپ کیوں ہیں؟ فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے بلیک منی کے نام پر احتجاج کے صلہ میں مرکزی وزارت میں جگہ بنالی۔ کالے دھن کے مسئلہ پر بی جے پی کی نیت بھی داغدار ہے۔ لہذا سپریم کورٹ سے عوام کو امید ہے کہ وہ کالا دھن رکھنے والے سفید پوش افراد کو بے نقاب کرے گا۔

ملک میں جمہوریت کے اہم ستون مانے جانے والے ادارے مقننہ اور عاملہ بھلے ہی غیر جانبدار باقی نہیں رہے لیکن عدلیہ ابھی بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عدلیہ کے آزادانہ اور غیر جانبدار موقف کے سبب ملک میں جمہوریت باقی ہے۔ کئی اہم مواقع پر عدلیہ نے قانون اور دستور کی حکمرانی اور بالادستی کو یقینی بنایا اور حکومتوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا ۔ کئی معاملات میں عدلیہ نے مقننہ اور عاملہ کے فرائض کو انجام دیتے ہوئے انصاف رسانی کا کام کیا۔ کالے دھن کے علاوہ دہلی میں 8 ماہ سے عوام کو منتخب حکومت سے محروم رکھنے کے مسئلہ پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کی سرزنش کی۔

عدالت کا یہ ریمارک حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ جمہوریت میں مستقل طور پر صدر راج کی کوئی گنجائش نہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد دہلی میں حکومت سازی کے مسئلہ پر سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا۔ دراصل مرکزی حکومت، دہلی میں دوبارہ انتخابات کو ٹالنا چاہتی ہے۔ بی جے پی بڑی جماعت کے موقف کے باوجود تشکیل حکومت کے موقف میں نہیں ہے پھر 8 ماہ سے اسمبلی کو معطل رکھتے ہوئے عوام کے جمہوری حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی میں انتخابات کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بہانے انتخابات کو ٹالنے کیلئے لیفٹننٹ گورنر کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ عددی طاقت کے اعتبار سے کسی بھی پارٹی کے پاس حکومت سازی کیلئے درکار اکثریت نہیں ہے۔ دہلی کا ہر بچہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ صرف نئے انتخابات ہی مسئلہ کا واحد حل ہے، پھر عوام کو جمہوری و دستوری حق سے محروم رکھنا ناقابل فہم ہے۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے ساتھ دہلی کے چناؤ ہونے چاہئے تھے لیکن مرکز جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ کے چناؤ تک دہلی میں جوں کا توں موقف رکھنا چاہتا ہے۔ تاکہ دہلی کے تین اسمبلی حلقوں کے مجوزہ ضمنی چناؤ میں عوام کی رائے معلوم کی جاسکے۔ دہلی کے ترلوک پوری علاقہ میں دیپاولی کے دن پھوٹ پڑا تشدد اس بات کا اشارہ ہے کہ بی جے پی دہلی کے انتخابات کو کس راستہ پر لے جانا چاہتی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد نے بی جے پی قائدین کے ملوث ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ وزیراعظم اور وزارت داخلہ کی ناک کے نیچے فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا اور حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے۔ شاید رائے دہندوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی یہ سازش ہے۔ نریندر مودی بھلے ہی اتحاد و یکجہتی کا درس دیں لیکن حکومت پر آر ایس ایس کے کنٹرول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ہریانہ اور مہاراشٹرا کے چیف منسٹرس کا تعلق آر ایس ایس سے ہے اور دونوں نے اس تعلق پر فخر کا اظہار کیا۔ چیف منسٹر ہی کیا ملک کے وزیراعظم، وزیر داخلہ، کئی مرکزی وزراء اور کئی ریاستوں کے گورنرس بھی آر ایس ایس کے پرچارک ہیں۔ آر ایس ایس نے ملک کے تعلیمی نظام کو زعفرانی رنگ دینے کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا ہے جس کا ثبوت مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی سے آر ایس ایس قائدین کی حالیہ ملاقات ہے۔ نریندر مودی کو وزیراعظم سے زیادہ ملک میں ’’بیسٹ ایونٹ مینجر‘‘ کے طور پر شہرت حاصل ہوئی ہے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش تقاریب کا ملک بھر میں جس انداز سے انعقاد عمل میں آیا تھا، وہ خود بھی سردار پٹیل سے عقیدت سے زیادہ سیاسی فائدہ کی کوشش ہے۔ سردار پٹیل کے یوم پیدائش کو شاندار طریقہ سے مناتے ہوئے نریندر مودی نے سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی برسی کو بھلادیا۔ نریندر مودی نے اندرا گاندھی کی سمادھی پہنچ کر خراج پیش کرنے سے گریز کیا جبکہ سردار پٹیل کے نام پر ملک بھر میں ’’یونٹی رن‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔ نریندر مودی نے اس موقع پر عوام کو بھائی چارہ اور یکجہتی کا حلف دلایا ۔

کاش ان کی آواز دہلی کے ترلوک پوری علاقہ تک پہنچ پاتی جہاں فرقہ وارانہ تشدد کے باعث اقلیتی طبقہ کے افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی کو اچانک سردار پٹیل کی یاد کیوں آئی؟ انہوں نے چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے کتنی بار سردار پٹیل کے یوم پیدائش کے دن دوڑ کا اہتمام کیا۔ دراصل کانگریس سے وابستہ قومی قائدین کو عوام کے ذہنوں سے نکالنے کیلئے سردار پٹیل کا سہارا لیا گیا ہے۔ مودی نے سردار پٹیل کو مہاتما گاندھی کے برابر کھڑا کرنے کی کوشش کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ مہاتما گاندھی ، سردار پٹیل کے بغیر ادھورے تھے۔ ملک کے اتحاد و یکجہتی کیلئے سردار پٹیل کے کارناموں کے ساتھ ساتھ نریندر مودی کو قوم کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ یہی سردار پٹیل تھے جنہوں نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے آر ایس ایس پر پابندی اور اس کے قائدین کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے تھے۔ کالے دھن اور دہلی حکومت کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کی مرکزی حکومت کو دی گئی نصیحت پر معراج فیض آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
میں بول رہا تھا تو تھا ناراض زمانہ
اب دیکھو عدالت بھی وہی بول رہی ہے