محمد نعیم وجاہت
چیف منسٹر صاحب اپنا وعدہ پورا کریں
قوم کا مفاد، اسمبلی میں امتحان
روزنامہ سیاست کی 12 فیصد مسلم تحفظات تحریک تلنگانہ کے ہر گھر کا حصہ بن گئی ہے۔ تحریک کے حوصلہ افزا ردعمل سے سرکاری مشنری اور سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے، یہاں تک کہ انٹلی جنس نے بھی اس سلسلے میں حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے۔ اسمبلی اور کونسل کے اجلاس میں بھی موضوع بحث بننے کا امکان ہے۔ روزنامہ سیاست کی جانب سے چلائی جانے والی یہ تحریک غیر جانبدارانہ ہے، جس کا نہ کوئی سیاسی مقصد ہے اور نہ ہی حکومت کے خلاف یا کسی سیاسی جماعت کی تائید میں ہے۔ ریاست تلنگانہ میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری جائدادوں پر تقررات کے لئے اعلامیہ کی اجرائی عمل میں آرہی ہے۔ اگر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جاتے ہیں تو 12 ہزار جائدادوں پر مسلمانوں کا تقرر یقینی ہے۔ پھر مسلمانوں کو اتنا ہی فائدہ تعلیمی میدان اور دیگر شعبوں میں بھی ہوگا۔
بڑے پیمانے پر تقررات کے اعلان کے بعد مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے روزنامہ سیاست نے ایڈیٹر جناب زاہد علی خاں کی سرپرستی میں حکومت پر جمہوری انداز میں دباؤ ڈالنے کے لئے 12 فیصد مسلم تحفظات کی تحریک کا آغاز کیا، جس پر مسلمانانِ تلنگانہ حوصلہ افزا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزراء، ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ، تحصیلداروں، آر ڈی اوز، کلکٹرس اور دیگر کو تحفظات فراہم کرنے کی یادداشتیں پیش کر رہے ہیں۔
یہ تحریک شہر اور اضلاع میں بڑے زور و شور سے چل رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں، قائدین، مذہبی رہنما، رضاکارانہ و فلاحی تنظیمیں اور مذہبی انجمنیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کر رہی ہیں۔ ہر محفل اور ہر تقریب میں یہی چرچا ہے کہ نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں نے ملت کے مفاد کے لئے اس تحریک کو گاؤں گاؤں اور چپے چپے تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے نظام آباد اور ورنگل میں مسلمانوں کے اجلاس سے خطاب کیا۔اس کا مثبت ردعمل یہ ہے کہ جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر سیاسی قائدین تحریک کا حصہ بن رہے ہیں، اس طرح روز بروز تحریک کامیاب اور مستحکم ہو رہی ہے، جس کا ثبوت منتخب عوامی نمائندوں، تحصیلداروں اور کلکٹرس کو موصول ہونے والی یادداشتیں ہیں۔ صرف ایک دن میں سنگاریڈی کے تحصیلدار کو 40 یادداشتیں پیش کی گئیں، یعنی روز بروز عوام کا جوش و خروش بڑھ رہا ہے۔نظام آباد اور ورنگل کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ جماعت اسلامی، جمعیۃ العلماء، ایس آئی او، مجلس بچاؤ تحریک، پاپولر فرنٹ، ویلفیر پارٹی، مساجد کمیٹیوں کے صدور، طلبہ تنظیموں کے نمائندے، سرکاری ملازمین، پروفیسرس، یعنی تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں نے شرکت کی اور روزنامہ سیاست کی تحریک کو وقت کا تقاضہ قرار دیتے ہوئے تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپنے اپنے مشورے دیئے۔ مزید یہ کہ عید الاضحی کی مصروفیت کے باوجود تحریک کے حق میں مسلمان اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔
علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد 2014ء کی انتخابی مہم کے دوران سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں اندرون 4 ماہ 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ کو اپنی پارٹی کے انتخابی منشور میں بھی شامل کیا تھا۔ بعد ازاں اسمبلی کے اجلاس میں اپنے عہد کو پورا کرنے کا تیقن دیا اور ایک سرکاری افطار پارٹی میں اندرون ایک سال مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے وعدہ کو دہرایا۔
اب جب کہ ٹی آر ایس حکومت اپنے اقتدار کے 15 ماہ مکمل کرچکی ہے اور تلنگانہ اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن ملازمتوں کی فراہمی کے لئے مسلسل اعلامیہ جاری کر رہی ہے، تو اس صورت میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے لئے حکومت پر جمہوری طرز پر دباؤ ڈالنے کے لئے تحریک کا آغاز ضروری ہو گیا ہے۔ روزنامہ سیاست نے اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو تحفظات کی تحریک میں حصہ دار بناکر مسلم اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔ جناب عامر علی خاں نے تحریک کے آغاز سے قبل مختلف ماہرین قانون، دستور کے واقف کاروں اور 4 فیصد مسلم تحفظات کے وقت عملی اقدامات کرنے والوں سے اس سلسلے میں تفصیلی بات چیت کی اور ان سے مشورے حاصل کئے۔
2004ء کے عام انتخابات میں کانگریس نے مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور اندرون دو ماہ چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرنے والے ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی نے اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے لئے 5 فیصد تحفظات کا اعلان بھی کردیا، لیکن جب 5 فیصد تحفظات کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیا کہ بی سی تحفظات میں کسی طبقہ یا فرقہ کی شمولیت اور اخراج کا اختیار صرف بی سی کمیشن کو ہے۔ اگر حکومت مسلمانوں کو بی سی تحفظات میں شامل کرنا چاہتی ہے تو بی سی کمیشن تشکیل دے کر اس کو قانونی اختیارات فراہم کرے اور مسلمانوں کی پسماندگی کا ریکارڈ پیش کرے۔اعداد و شمار کی عدم فراہمی پر بی سی کمیشن کی سفارش کو بھی ہائی کورٹ نے قبول کرنے سے انکار کردیا، تاہم ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر 4 فیصد مسلم تحفظات پر حکم التواء حاصل کیا، جس سے ریاست کے مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات حاصل ہوئے۔
یہ تلخ حقائق اور تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر بھی 4 فیصد مسلم تحفظات کے قانونی کشاکش سے اچھی طرح واقف ہیں، ان کے مشیر اور ماہرین قانون ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی کا جائزہ لینے کے لئے سابق آئی اے ایس عہدہ دار مسٹر سدھیر کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دے کر 6 ماہ میں رپورٹ طلب کی ہے، جب کہ اس کمیٹی کو کوئی قانونی اختیار بھی نہیں ہے۔ 2 ستمبر کو کمیٹی کی تشکیل کے 6 ماہ مکمل ہو چکے ہیں، لیکن اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دراصل مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی سفارش کا اختیار بی سی کمیشن کو ہے، اس لئے تحریک کے ذریعہ سرکاری عہدہ داروں اور منتخب عوامی نمائندوں کو یادداشتیں پیش کرکے مسلم تحفظات کے لئے بی سی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ تحفظات کا حصول مسلمانوں کا دستوری حق ہے۔تشکیل ریاست سے قبل مخالفین تلنگانہ مسلمانوں کو علحدہ ریاست کے خلاف بتا رہے تھے۔ مجلس بھی ریاست کی تقسیم کے خلاف تھی، جس کی وجہ سے مخالفین تلنگانہ مسلمانوں کا حوالہ دے کر مرکز پر علحدہ ریاست تشکیل نہ دینے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ ایسی صورت میں علحدہ تلنگانہ کی حامی جماعتوں کو مسلمانوں کے رول پر بڑی تشویش تھی، لیکن ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے اس وقت ایسا دانشمندانہ رول ادا کیا کہ تلنگانہ کے مسلمان علحدہ ریاست کی تحریک سے جڑ گئے۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو تحریک سے نہ جوڑا جاتا تو آج تلنگانہ کے عوام مسلمانوں کو مخالف تلنگانہ کہہ کر ان کی تحریک کی مخالفت کرتے۔
روزنامہ سیاست صرف ایک اخبار ہی نہیں بلکہ ایک تحریک بھی ہے۔ سیاست کے ذریعہ تربیت حاصل کرکے شہر حیدرآباد میں 900 سے زائد مسلم نوجوانوں نے پولیس کی ملازمت حاصل کی۔ سیاست کی جانب سے مسابقتی امتحانات کے لئے مسلم طلبہ کو تربیت دی جاتی ہے، ملازمتوں کے حصول کے لئے رہنمائی کی جاتی، ریاستی و مرکزی حکومتوں کے اسکالر شپس، شادی مبارک اسکیم اور دیگر اسکالر شپس سے استفادہ کے لئے روزنامہ سیاست نے مسلم طلبہ کی ہمیشہ رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور حق تلفیوں کو اخبار کے ذریعہ ارباب مجاز تک پہنچانے اور منتخب عوامی نمائندوں کو جھنجھوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ایک طرف حکومت کی فلاحی اسکیمات سے استفادہ کے لئے رہنمائی کی جاتی ہے اور دوسری طرف ان اسکیمات میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ سیاست نے ملت کو نقصان پہنچانے والے ہر اقدام کی ہمیشہ مخالفت کی ہے، چنانچہ وقف جائدادوں پر ناجائز قبضوں اور حکومت کی جانب سے فروختگی کے خلاف تحریک چلاکر مسلمانوں میں شعور بیدار کیا، آلیر انکاؤنٹر کے خلاف آواز اُٹھائی اور اب 12 فیصد مسلم تحفظات کا بیڑا اُٹھایا ہے۔
یوں تو تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن 12 فیصد مسلم تحفظات اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں وہ کتنی سنجیدہ ہیں؟ 29 ستمبر سے منعقد ہونے والے اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے اجلاس میں معلوم ہو جائے گا۔ اگر یہ سیاسی جماعتیں اور قائدین مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں تو دونوں ایوانوں کے اجلاس میں تحفظات کے مسئلہ کو ضرور اُٹھائیں گے۔