اب اس پر ہوگی کچھ مرہم نوازی

 

کشمیر پر مذاکرات بے فیض
ہماچل اور گجرات… نتائج کا قومی سیاست پر اثر

رشیدالدین
گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں مرکز نے کشمیر میں قیام امن کیلئے مذاکرات کار کا تقرر کیا تو دوسری طرف نوٹ بندی کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ کشمیر میں صورتحال کے بہتر ہونے کا دعویٰ کرنے والی نریندر مودی حکومت نے مذاکرات کار کا تقرر کرتے ہوئے یہ اعتراف کرلیا کہ وادی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ کشمیر کیلئے خصوصی نمائندہ کا تقرر اور وہ بھی اچانک ، آیا یہ حکومت کا اپنا فیصلہ ہے یا کسی کے دباؤ کا نتیجہ ؟ اگر مان لیا جائے کہ یہ حکومت کا اپنا فیصلہ ہے تو پھر عوام کے جذبات کو سمجھنے اور کشمیریوں کے درد کو محسوس کر نے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ 15 اگست کو لال قلعہ سے وزیراعظم نے کشمیریوں کا دل جیتنے کی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ گولی سے نہیں بلکہ میٹھی بولی سے کشمیریوں کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے گی لیکن اس معاملہ میں پیشرفت کو تین ماہ گزر گئے ۔ بی جے پی حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں ہمیشہ فوج اور سیکوریٹی فورسس کے ذریعہ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی ۔ عوام کے خلاف کارروائیوں میں پیلیٹ گنس کا استعمال کیا گیا جس میں کئی نوجوانوں کی بینائی چلی گئی۔ مودی تو زخموں پر مرہم رکھنے کی بات کر رہے تھے لیکن حکومت کا طرز عمل زخمیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے والا تھا۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کے ذریعہ اقتدار کا خواب تو پورا ہوگیا لیکن اس اتحاد سے کشمیری عوام کو کوئی راحت نہیں ملی۔ صورتحال اس قدر بگڑی کہ کوئی اور حکومت ہوتی تو شاید ابھی تک صدر راج نافذ کردیا جاتا۔ ’’بعد از خرابی بصرا خواجہ بیدار شد‘‘ کے مصداق مذاکرات کار کا تقرر کرتے ہوئے حکومت نے مسئلہ کی یکسوئی میں اپنی سنجیدگی کا ڈرامہ کیا ہے ۔ اس تقرر سے غیر معمولی نتائج اور امید اس لئے بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ حکومت اور دہلی میں اقتدار میں بیٹھے افراد کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم خود اس معاملہ میں پہل کرتے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیراعظم کی حیثیت سے سری نگر میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا اہتمام کرتے ہوئے کشمیر کے تمام فریقین کی سماعت کی تھی۔ مذاکرات کار کی حیثیت سے دنیشور مشرا ذمہ داری سنبھالتے ہی کشمیر پہنچے لیکن حریت کے دونوں گروپس نے ملاقات سے انکار کردیا۔ نیشنل کانفرنس پی ڈی پی اور دیگر سیاسی قائدین سے ملاقات پر انہیں اکتفا کرنا پڑا۔ مذاکرات کار کے تقرر سے قبل مرکز نے حوالہ ریاکٹ کے عنوان سے حریت قائدین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور کئی قائدین کو جیل بھیج دیا گیا۔ ایسی صورت میں مذاکرات کی راہ کس طرح ہموار ہوگی۔ مذاکرات کار کا تقرر بے فیض دکھائی دے رہا ہے اور مرکز کو زبانی انداز میں نہیں بلکہ عملی طور پر سنجیدگی کے ساتھ زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔

زخموں پر مرہم کا مطلب صرف مذاکرات کار کا تقرر نہیں ہوسکتا بلکہ کشمیری عوام کو پابندیوں سے نجات دلانا ہوگا۔ انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ دنیا بھر کی حقوق انسانی تنظیموں نے جب کشمیر کے حالات دنیا کے سامنے پیش کئے تو ملک کی امیج بچانے کیلئے ہوسکتا ہے خصوصی قاصد کا تقرر کیا گیا ہو، مذاکرات کی سیاسی بازیگری سے قبل مرکز اپنی کشمیر پالیسی کو واضح کرے۔ مذاکرات کار کے تقرر کو کیا آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی منظوری حاصل ہے؟ سنگھ کے قائدین تو کشمیر کا خصوصی موقف ختم کرنا چاہتے ہیں اور بی جے پی کے انتخابی منشور میں یہ شامل ہے۔ سنگھ پریوار کے ایک قائد نے کشمیریوں سے نفرت کی انتہا کردی۔ انہوں نے گجرات تجربہ کو کشمیر میں دہرانے کی وکالت کی۔ ایک اور قائد نے کشمیریوں کو پاکستان بھیج دینے کی صلاح دی۔ گزشتہ تین برسوں میں بی جے پی اور مرکز کا یہ اٹل موقف تھا کہ حریت قائدین سے بات چیت نہیں کی جائے گی لیکن مذاکرات کار حریت قائدین سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ قائدین کو جیلوں میں رکھ کر کس طرح مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماچل پردیش کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ نوٹ بندی کے بعد کشمیر میں دہشت گردوں کو امداد کی رسائی متاثر ہوئی ہے۔ حوالہ میں ملوث کئی اہم قائدین کو جیل بھیجنے کا تذکرہ وزیراعظم نے انتہائی خوشی کے ساتھ کیا اور کہا کہ کشمیر کے عوام حکومت کے ساتھ ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے در اندازی میں کمی کا دعویٰ کیا ۔ جب عوام حکومت کے ساتھ ہیں اور صورتحال بہتر ہوچکی ہے تو پھر مذاکرات کس سے اور کیونکر کئے جائیں گے۔ گزشتہ تین برسوں میں مذاکرات کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اپنے ملک کے باشندوں سے حکومت بات کرنے تیار نہیں لیکن وزیراعظم اچانک لاہور پہنچ گئے تاکہ نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دیں۔ عوامی جلسوں میں تو پاکستان کے خلاف سخت لہجہ کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن بیرونی دوروں پر اگر دور سے بھی نواز شریف نظر آجائے تو نریندر مودی بچھڑے دوست کی طرح لپک پڑتے ہیں۔ مذاکرات کار کو بھیجنے سے قبل مرکز کو کشمیر میں امن اور ترقی کا روڈ میاپ جاری کرنا چاہئے۔ حریت قائدین مسئلہ کشمیر میں پاکستان کو فریق مانتے ہیں لیکن حکومت کو انکار ہے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن ہندوستان کا موقف ہے کہ کشمیر اٹوٹ حصہ ہے اور یہی موقف درست ہے۔ علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ بنانے کیلئے امریکہ کی کوششیں کی جاری ہیں اور وہ لائین آف کنٹرول کو مستقل سرحد کا موقف دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلہ میں جاری درپردہ کوششوں کے تحت مودی حکومت کے کشمیر پالیسی میں قدم ڈگمگا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے چین کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے اور یہ تمام ایک گیم پلان کا حصہ دکھائی دے رہا ہے۔ یو پی اے دور حکومت میں بی جے پی نے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کو طاقت کے بل پر حاصل کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب اقتدار کے تین سال مکمل ہوگئے لیکن بی جے پی کو مقبوضہ کشمیر کی یاد نہیں آرہی ہے ۔ ملک کے 125 کروڑ عوام کا یہ موقف ہونا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر دراصل ہندوستان کا حصہ ہے جس پر 1948 ء میں جبراً ناجائز قبضہ کیا گیا تھا۔ ہندوستان کو کسی نہ کسی طرح اپنے حصہ کو واپس لینا ہوگا اور یہ بی جے پی کی حب الوطنی کا امتحان ہوگا۔

کشمیر میں ایک طرف مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا تو دوسری طرف خصوصی موقف کے خاتمہ کی سازش کی جارہی ہے ۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق آرٹیکل 370 کی برخواستگی کا وعدہ گزشتہ کئی انتخابات سے کیا جارہا ہے ۔ اب نئے تنازعہ میں آرٹیکل 35(A) کو ختم کرنے کی سازش ہے جس کے تحت کشمیر میں کسی بیرونی شخص کو جائیداد کی خریدی کا حق حاصل نہیں۔ اس موقف کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ مذاکرات کار کے تقرر کے بعد مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے خواہش کی کہ اس حساس مسئلہ کی سماعت کو موخر کرے۔ آرٹیکل 370 ہو یا 35(A) ان سے کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کے باوجود مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا اور شریفانہ معاہدہ کے تحت کشمیریوں کو خصوصی مراعات دی گئیں۔ ایسے وقت جبکہ کشمیر میں حالات ٹھیک نہیں۔ خصوصی موقف سے چھیڑ چھاڑ صورتحال کو مزید بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ مذاکرات کار کو چاہئے کہ عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے خصوصی موقف کی برقراری کا اعلان کرے۔ دوسری طرف ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات کی رائے دہی مکمل ہوگئی اور ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 75 فیصد ریکارڈ رائے دہی دیکھی گئی۔ لوک سبھا انتخابات میں 64 فیصد رائے دہی ہوئی تھی ۔ عوام نے جس جوش و خروش کے ساتھ رائے دہی میں حصہ لیا اس سے سیاسی مبصرین مختلف اندازے قائم کر رہے ہیں۔ ہماچل میں مودی اور راہول گاندھی کے درمیان راست مقابلہ دیکھا گیا۔ انتخابی مہم میں دونوں نے ایک دوسرے پر الفاظ کے تیکھے وار کئے ۔ یہی وجہ ہے کہ رائے دہی کا فیصد بھی تاریخی ریکارڈ ہوا ہے۔ کانگریس کو اقتدار بچانا ہے تو بی جے پی اقتدار پر قبضے کی فراق میں ہے۔ عوام نے بھاری رائے دہی کے ذریعہ فیصلہ کس کے حق میں دیا ، اس کا اندازہ مشکل گجرات میں انتخابی مہم عروج پر ہے اور وہاں بھی مودی بمقابلہ راہول گااندھی کا منظر دکھای دے رہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں راہول گاندھی انتخابی مہم میں ایک منجھے ہوئے سیاست داں کی طرح مخالف پر تبصرے کر رہے ہیں۔ وہ دن نہیں رہے جب راہول گاندھی اپنے مشیروں کی تحریر کردہ تقریر پر اکتفا کرتے تھے۔ گجرات چونکہ مودی اور امیت شاہ کی آبائی ریاست ہے لہذا دونوں کا وقار داؤ پر لگا ہے ۔ گجرات اور ہماچل پردیش کے نتائج کا کا قومی سیاست پر اثر انداز ہونا یقینی ہے۔ گجرات کے بارے میں مودی شائد مطمئن ہیں اسی لئے انہوں نے فلپائن کے اپنے بیرونی دورہ کو برقرار رکھا ہے۔ اوپنین پول میں بھی بی جے پی کو برتری دکھائی جارہی ہے۔ ہماچل و گجرات میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا اثر نتائج پر ضرور دکھائی دے گا۔ نوٹ بندی کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے لیکن آج تک بھی عوام اس فیصلہ کے منفی اثرات سے ابھر نہیں پائے ہیں۔ 150 افراد کی موت کے باوجود مرکزی حکومت کو اس فیصلہ سے بلیک منی حاصل نہیں ہوئی ۔ کشمیر کیلئے مذاکرات کار کے تقرر پر منورؔ رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اب اس پر ہوگی کچھ مرہم نوازی
ہمارا زخم دھویا جارہا ہے