ابو طالب اور ایک شعر کی وضاحت

ابو طالب اور ایک شعر کی وضاحت
سوال : 29 ڈسمبر 2013 ء کے سنڈے ایڈیشن میں سوال جواب کے کالم میںایک شعر کو ابو طالب کی طرح منسوب کیا گیا جبکہ مشہور ہے کہ وہ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شعر ہے۔

کیا وہ ایک شعر ابو طالب کا ہے یا پوری مشہور ، نعت انہی کی ہے۔ نیز ابو طالب کے ایمان سے متعلق کیا حکم ہے؟ جبکہ بعض علماء اہلسنت الجماعت انہیں مسلمان سمجھتے ہیں؟ کیا ان کے ایمان کی کوئی دلیل ہے ؟
پروفیسر سید سمیع اللہ ، ای میل

جواب : سوال میں جس شعر کی نسبت سے متعلق دریافت کیا گیا ، وہ حسب ذیل ہے۔
وشق لہ من امسہ لیجلہ
فذ والعرش محمود و ھذا محمد

ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعظیم و اجلال کیلئے اپنے نام سے آپ کا نام مشق کیا، پس عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں یعنی ’’محمود‘‘ اور ’’محمد‘‘ دونوں کا مصدر ایک ہی ہے اور وہ ’’حمد‘‘ ہے۔
29 ڈسمبر 2013 ء کو شائع شدہ آپ کے مسائل اور شرعی احکام میں مذکورہ شعر سے متعلق یہ لکھا گیا کہ ’’امام بخاری اپنی کتاب التاریخ الصغیر میں علی بن زید کے طریق سے روایت فرماتے ہیں کہ ابو طالب کہا کرتے تھے‘‘۔
تفصیل کیلئے دیکھئے : البخاری۔ التاریخ الصغیر ۔ الخرء : (1) صفحہ : (38) ۔

شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری شرح البخاری کتاب ا لمناقب باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و قول اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار و قولہ من بعدی اسمہ احمد) میں حدیث نمبر 3339 کے تحت مذکورہ شعر کو ابو طالب کی طرف منسوب کیا ہے ۔
وقد اخرج المصنف فی ’’التاریخ الضیر‘‘ من طریق علی بن زید قال کان ابو طالب یقول
و شق لہ من اسمہ لیجلہ
فذوا العرش محمود و ھذا محمد

ابوبکر بن الخلال نے اپنی کتاب ’’السنتہ ‘‘ فضائل نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 221 میں بھی اس شعر کو ابو طالب کی طرف منسوب کیا ہے۔ (حدیث موقوف) أخبرنی عبداللہ بن احمد قال : حدثنی أبی قال : ثنا سفیان عن علی بن زید بن جد عان ’’ تذاکروا ای بیت من الشعر فقال رجل قول أبی طالب :
و شق لہ من اسمہ لیجلہ
فذوالعرش محمود و ھذا محمد

الاستذ کار ’’کتاب اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ باب اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 1295 میں مذکورہ شعر کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت عبدالمطلب یا اپنے مشفق چچا ابو طالب کی طرف دونوں میں سے کسی ایک کی طرف شک کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالاشعر بعینہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قصیدہ میں موجود ہے ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
وضم الالہ اسم النبی ای اسمہ
اذا قال فی الخمس المؤذن أشھد

ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کو اپنے نام پاک کے ساتھ شامل فرمایا چنانچہ مؤذن پانچ مرتبہ اذان میں اللہ تعالیٰ کی الوھیت کے ساتھ آپ کی رسالت کی گواہی دیتا ہے ۔ اس کے بعد اپ نے مذکورہ شعر فرمایا :
شرح زرقانی علی المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ ص : 3309 میں نام مبارک کی معنویت و جامعیت پر بحث کرتے ہوئے مصنف علیہ الرحمۃ نے اس شعر کو ابو طالب کی طرف منسوب کیا اور کہا کہ یہ حضرت حسان بن ثابت کا بھی مشہور شعر ہے اور توجہ کی۔ یہی شعر حضرت حسان بن ثابت پر بھی توارد ہوا ہے ۔ اس طرح کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ نیز یہ بھی کہا کہ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس شعر کوبطور تضمین ذکر کیا ہے ۔

وھو مشہور لحسان بن ثابت ’’الانصاری المؤید بروح القدس فتوارد حسان مع أبی طالب أو ضمنہ شعرہ و بہ حزم بعض ۔
ابو طالب کے ایمان اور کفر سے متعلق اہلسنت والجماعت کے درمیان اختلاف رہا ہے ۔ کوئی کفر کو ثابت کیا ہے اور دوسروں نے ایمان کو بیان کیا ہے اور یہ اختلاف نصوص کے اختلاف کی بناء پر ہے۔ ہر دو فریق کے پاس دلائل ہیں۔ اس ضمن میں سکوت ہی زیادہ مناسب ہے اور اللہ تعالیٰ ہی غیب کا حال جاننے والا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو طالب کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حقیقی اولاد سے زیادہ چاہنا اور اعلان نبوت کے بعد ہر قسم کی معاونت فراہم کرنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مشفق و رحمدل و غمگسار و غمخوار چچا کا بے انتہا عزت واحترام کرنا ثابت ہے ۔ اخیر وقت تک ابو طالب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت و نصرت کی ہے۔ ان کے معاملہ کواللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا ہی زیادہ موزوں و مناسب ہے۔ واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا ابو طالب سے تعلق خاطر سیرت نبوی کا ایک خاص گوشہ ہے جو ایک خاص والہانہ محبت و تعلق کا غماز ہے ۔ مخفی مبادکہ دلائل منفی پہلو کو تقویت دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بحقیقتہ الحال ۔

نماز جنازہ
سوال : عام طور پر ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں نماز جنازہ کسی ایک نماز کے ساتھ کی جاتی ہے اور موقع کی نزاکت کے حساب سے کبھی کبھار دن اور رات سے کسی حصہ میں ادا کردی جاتی ہے اور سپرد لحد کردیا جاتا ہے ۔ عصر کی نماز کے بعد سجدہ حرام ہے مگر نماز جنازہ میں سجدہ نہیں اس لئے اس کی اجازت ہوگی۔ مشہور و معروف شخصیات کیلئے غائبانہ نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ رمضان میں ایک جنازہ میں شرکت کا اتفاق ہوا ، تراویح کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی ، پھر قبرستان میں دوبارہ نماز ادا کی گئی اور تدفین ہوئی اور وہاں ایک تازہ قبر تھی اور سعودی حکومت کی جانب سے جو لوگ آئے تھے ان لوگوں نے کہا اکہ تدفین عصر کے بعد ہوئی جس کی وجہ سے نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی اس لئے اب نماز ادا کریں گے اور قبر کے پاس نماز ادا کی گئی ۔
براہ کرم جواب مرحمت فرمائیں تو مہربانی۔
سید اسحاق ، سعودی عرب

جواب : احناف اور دیگر ائمہ کے نزدیک نماز جنازہ کے بعض احکام میں اختلاف ہے ۔ ازروئے فقہ حنفی غائب میت پر نماز جنازہ نہیں ہے ، مغفرت اور رحمت کی دعاء کی جانی چاہئے ۔ نیز ایک مرتبہ نماز جنازہ ادا کردی جاتی ہے تو فرض کفایہ ادا ہوگیا ، اس لئے اس کا اعادہ نہیں کیا جائے گا ۔ البتہ میت کا ولی مثلاً بیٹا یا والد نماز جنازہ نہ پڑھا ہو تو وہ پڑھ سکتا ہے ۔ دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا نفل ہے اور نماز جنازہ صرف فرض کفایہ ہے اس میں کوئی نفل نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ نماز جنازہ بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل اور بعد نماز عصر سورج میں پلساہٹ انے سے قبل ادا کی جاسکتی ہے اور اگر نماز جنازہ کے بغیر تدفین کی گئی ہو تو میت کے پھول کرپھٹنے سے قبل اس کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔

بدائع الصنائع جلد اول ص : 311 میں ہے : ولا یصلی علی میت الا مرۃ واحدۃ لا جماعۃ ولا و حدانا عندنا الا ان یکون الذین صلوا علیھا اجانب بغیر امرالاولیاء ثم حضر الولی فحینذلہ ان یعید ھا … ولا تکرۃ الصلاۃ علی الجنازۃ بعد صلاۃ الفجر و بعد صلاۃ العصر قبل تغیر الشمس… و علی ھذا قال اصحابنا لا یصلی علی میت ،غائب ۔ اور در محتار برحاشیہ ردالمحتار باب صلاۃ الجنازہ میں ہے ۔ (وان دفن) وأھیل علیہ التراب) بغیر صلاۃ) أویھابلا غسل او ممن لہ ولایۃ لہ (صلی علی فبرہ) اشتحسانا (مالم یغلب علی الظن تفسخہ)

حضرت فاطمہؓ کی نماز جنازہ
سوال : حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی ہے ، مصدقہ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد عثمان ، عابڈس

جواب : حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ علیہ نے پڑھائی ہے ۔ کتب تاریخ اور کتب فقہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ بدائع الصنائع جلد اول ص : 313 میں ہے : فانہ روی عنہ انہ کبر علی فاطمۃ اربعا وروی انہ صلی علی فاطمۃ ابوبکر و کبر اربعا۔

ایک حدیث کا مفہوم
سوال : شریعت مطھرہ میں طلاق کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کیلئے علماء حضرات ایک حدیث شریف کوٹ کرتے ہیں۔
’’الطلاق لمن اخذ با لساق‘‘
براہ کرم اس حدیث کی مختصر تصریح فرمائیں اور اس سے کیا مراد ہے۔ واضح کریں تو مہربانی۔
انجم افریں، ٹولی چوکی

جواب : حدیث شریف میں اس طرح الفاظ منقول ہوئے ہیں۔ ’’انما الطلاق لمن اخذ بالساق‘’ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بلا شبہ طلاق کا اختیار اس شخص کو حاصل ہے جو عورت کی پنڈلی کا حقدار ہو۔ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب ایک صحابی رسول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ ان کے آقا نے ان کا نکاح اپنی باندی سے کروایا اور اب وہ (شوہر کی مرضی کے بغیر) دونوں میں تفریق کردینا چاہتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اے لوگو ! کیا ہوگیا ہے کہ تم میں سے کوئی ا پنے غلام کی اپنی باندی سے شادی کرواتا ہے پھر ان کے درمیان تفریق و علحدگی کردیتا ہے ۔ سنو ! طلاق کا حق اس کو ہے جو عورت کی پنڈلی کا حقدار ہو، یعنی شوہر ہی طلاق دے سکتا ہے ۔
یہ روایت ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ نہ سے اس طرح منقول ہے ۔
انی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجل فقال : یا رسول اللہ ! ان سیدی زوجنی امتہ وھو یرید ان یفرق بینی و بینھا قال فصعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المنبر فقال : یا ایھا الناس مابال احدکم زوج عبدہ امتہ ثم یرید ان یفرق بینھما انما الطلاق لمن اخذ بالساق۔