ابن صفی کی ناول نگاری

سید نصیر الدین احمد
ابن صفی کی ناول نگاری اٹھائیس برس 1902تا1980کے عرصہ پر محیط ہے ۔ یہ زمانہ بر صغیر کی تاریخ کا انتہائی نازک دور ہے۔ ملک کی تقسیم کے ساتھ دل بھی ٹوٹ گئے ۔ فرار کے نام پر اختیار کردہ ہجرت ‘فسادات چوجسم جال اور تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ چلنے کا دباواس دباو میں منتہا‘ بگڑتا سماج‘ روز بروز بڑھتی الجھنیں اور بدعنوانیاں ‘دن بہ دن بڑھتا کرپشن ‘جرم اور اقتدار کے لئے چالیں اور سازشیں جاری تھیں ۔ عالمی سطح پر بھی بڑی اتھل پتھل تھی۔ سپر پاور ثابت کرنے کی دوڑ میں بڑی طاقتیں کچھ بھی کر گذرنے کو بے قرار تھیں ۔ ان حالات میں ابن صفی نے وقت کی ہر چال اور آہٹ کو پکڑنے کی کوشش کی اور جہاں بھی جتنا بھی موقع ملا خلاقانہ مہارت کے ساتھ اپنے ناول کا حصہ بنالیا۔

ابن صفی سے قبل اردو میں جاسوسی ناول کے نام پر جو اور جتنا بھی لکھا گیا ‘اس کا اصل اور کل مقصد کہیں نہ کہیں تفریح ہی تھا لیکن سبق کے پہلو ابھار کر انہوں نے جاسوسی ناول کو ایک نیا چہرہ دیا۔ ابن صفی 264 جاسوسی ناول یادگار چھوڑے ہیں۔ ہر مہینے سوا مہینے میں ایک نیا ناول لکھنا مذاق نہیں۔ ان کے بیشتر ناول فن اور فکر دونوں سطحوں پر کامیاب نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے فرد اور سماج کو ایک خاص صورت حال میں دیکھنے اور سمجھنے کی جستجو کی ہے ۔ ان میں زندگی کی مکمل تصویر نہ بھی سہی لیکن ان میں زندگی کے بہت سے رنگ بخوبی نظر آتے ہیں ۔ ایسے سچے اور زندہ رنگ جو شعور کو متحرک کردیں ۔ جاسوسی ادب کی اپنی حدیں ہیں اور مطالبات بھی، لیکن ابن صفی کا کمال یہ ہے کہ جرم اور مجرموں کے چہرے بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ تفتیش کے بہانے ہاتھ آئے ۔ زندگی اور سماج کے دیگر سیاہ سفید پہلووں کو بھی وہ آئینہ دکھاتے چلتے ہیں ۔

جاسوسی ناول نگاری بڑا نازک کام ہے ۔ اسے دو دھاری تلوار پر چلنے کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ قلم کی ذراسی لغزش جرم اور مجرم کو بے قصور قرار دے سکتی ہے لیکن ابن صفی نے اس کٹھن ڈگرپر بھی قدم قدم پر اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ خیالی کہانیوں اور کرداروں کو انہوں نے اس فن کاری سے وضع کیا ہے کہ ان میں حقیقت کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ ابن صفی اپنی کہانی کو پرسرار راہوں اور بعض اندھے موڑوں سے گذارتے ہوئے یوں نقطہ عروج تک لاتے ہیں کہ قاری قدم قدم پر ٹھٹک کر سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہے ۔ ان کے ناول جرم سے نفرت سکھاتے ہیں‘ مجرم کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں اور یہ بھروسہ بھی دلاتے ہیں کہ جرم اور مجرم کا انجام بہرحال شکست ہی ہے ۔ جیت آخر کار امن اور قانون کی ہی ہوتی ہے ۔ دیر ہوسکتی ہے مگر اندھیر نہیں۔
’’دنیا کاکوئی مجرم بھی سزا سے بچ نہیںسکتا ۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف ڈھکیلتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سوسکو ۔ زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اُگے‘‘۔ (ہیروں کا فریب )

عام خیال ہے کہ جرم کے راستے پر بڑھ جانے والے قدم چاہ کر بھی لوٹ نہیں سکتے لیکن ابن صفی نے اپنی تحریروں سے اس خیال کو بار بار توڑنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا ناول ’’دشمنوں کا شہر‘‘اس کی بہترین مثال ہے جہاں ایک عادی مجرم نادر نہ صرف جرائم سے توبہ کرلیتا ہے بلکہ اس راہ میں حائل ہونے والے بد معاشوں کو قانون کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے ۔ اسی طرح ’’طوفان کی اغواء‘‘ کی نیلم جو ایک اسمگلر کی بیٹی ہے اپنے باپ کا بدلہ لینے کیلئے قانون کے محافظوں کا ساتھ دیتی ہے اور ایک شاطر گینگ ٹوٹتا ہے ۔
ابن صفی کے نالوں میں عالمی محبت اور امن کا پیغام بھی چھپا ہوا ہے ۔ انہوں نے ان بڑی طاقتوں کی بد نیتی اور سازشوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جو اپنے فائدے کیلئے دنیا کے ساتھ کچھ بھی دغا کرسکتے ہیں جو اپنا مال بیچنے کے لئے مجرمانہ طور پر بازار تیار کراتے ہیں ۔ لکھتے ہیں۔جواپنا مال بیچنے کیلئے مجرمانہ طور پر بازار تیار کراتے ہیں ۔ لکھتے ہیں۔
’’آدمی کتنا گر سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے ۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جو اپنے اقتدار کیلئے رسہ کشی کررہی ہیں اس سے بھی زیادہ گر سکتی ہیں ۔ ان کے بلند بانگ نعرے جو انسانیت کا بول بالا کرنے والے کہلاتے ہیں؟زہر آلود ہیں۔ (وبائی ہیجان)
ابن صفی انسان کی حرمت اور آزادی کے وکیل ہیں ۔ وہ قانون کی بالادستی کے قائل ہیں مگر ناقص قانون اور خراب سسٹم کے خلاف جمہوری احتجاج کی قدر بھی کرتے ہیں ۔ وقت ضرورت وہ لوگوں کو اس کیلئے للکارتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔

اگر تم قانون کو ناقص سمجھتے ہو تو اجتماعی کوشش سے اسے بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اگر اس کی ہمت نہیں ہے تو تمہیں اس قانون کا پابند رہنا پڑے گا ۔ اگر تم اجتماعی حیثیت سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس سے متعلق ہو۔ (لاش کا بلاوا)
ابن صفی ایماند اور ادیب تھے ۔ زندگی کی حقیقتیں ان پر کھلی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے سماجی بیماریوں کی طرف انگلی ہی نہیں اٹھائی بلکہ اپنے طور پر ان کے علاج کی جستجو بھی کی ہے ۔ یہ جستجو ابن صفی کے ناولوں کی جان ہے اور پہچان بھی ۔ ابن صفی کا پہلا ناول (دلیر مجرم) 1902 ء میں منظر عام پر آیاتھا ۔ وہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے ناولوں کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔ ابن صفی زندہ ہیں اپنی تحریروں میں ‘ ہمارے ذہنوں میں ۔ جب بھی جاسوسی ناولوں کا ذکر آئے گا ابن صفی بھی ضرور یاد آئیں گے ۔