پروفیسر احمد عبدالحکیم، شکاگو
ہیوسٹن ٹکساس (Texas) سے میرے ایک عزیز دوست جناب سید صلاح الدین سکندر نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ خواہ مخواہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے کے بعد میرے لبوں پر بے ساختہ یہ شعر موزوں ہوگیا ۔
دکنی مزاح و طنز کے وہ بادشاہ نہیں رہے
کیسی خبر ملی ہے کہ اب خواہ مخواہؔ نہیں رہے
اوروں کی طرح مجھے بھی اس افسوسناک خبر کا بہت دکھ ہوا۔ جناب غوث محی الدین خواہ مخواہ کے اس سانحہ ارتحال نے دکنی شاعری کے عالم طنز و مزاح میں ایک ایسا خلاء پیدا کردیا ہے جس کو عصر حاضر میں پر کرنا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے ۔ دکن کی مردم خیز زمین نے بے شمار مزاحیہ شاعروں کو زندہ دلان حیدرآباد کے روپ میں جنم دیا لیکن جو مقام خواہ مخواہ نے بین الاقوامی سطح پر حاصل کیا ، شاید ہی کوئی دکنی مزاح نگار اس مقام تک پہنچ سکا ۔ خواہ مخواہ کی شاعری کا یہ کمال تھا کہ وہ صرف 4 یا 6 مصرعوں کے کوزے میں طنز و مزاح کے سمندر سمودیتے اور جب یہ کوزے مشاعروں میں چھلک جاتے تو قہقہوں اور تالیوں کا سیلاب سونامی کی طرح اُمڈ آتا۔
خواہ مخواہؔ کی شاعری بے شمار دلوں کی للکار اور دکنی تہذ یب کی آئینہ دار ہے۔ روز مرہ زندگی کے واقعات ، سماجی کشمکش ، گھریلو جھگڑے کو انہوں نے دکنی پیرائے میں اس خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے کہ جس کو سنکر پژ مردہ روحوں میں تازگی اور شگفتگی اور سن رسیدہ جسموں اور ناتواں ہڈیوں میں جوابی اور جولانی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ سنجیدہ ترین لوگ بھی قہقہ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اسٹیج پر کلام سناتے تو بذات خود سنجیدہ رہتے لیکن سامعین کو قہقہوں کا جلاب دے جاتے اور بعض اوقات تو مشاعرہ ایک اسپ بے لگام کی طرح بے قابو ہوجاتا۔
شکاگو کے بے شمار مشاعروں میں اور خاص کر دی عثمانین یو ایس اے کے تقریباً سبھی شاعروں میں خواہ مخواہؔ بطور خاص شرکت فرماتے تھے اور اپنے منفرد مزاح کے جادو سے سامعین کے دل اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے ۔ اُن کی بیاض میں ہر موقع کیلئے مزاحیہ شعر ضرور ہوتے تھے ۔ وہ نہ صرف مشاعروں کی جان تھے بالکل مزاح کی پہچان بھی تھے اور مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بھی ۔ شکاگو کے کئی مشاعروں میں انہوں نے اپنی کامیابی کا جھنڈا بلند کیا اور احقر کو ان مشاعروں کی نظامت کا شرف حاصل رہا ۔ چنانچہ شکاگو کے ایک تاریخی مشاعرہ کی صدارت ، شکاگو کے شہرۂ آفاق ، عظیم شاعر اور ادیب اور تہذیب دکنی کے سفیر جناب حسن چشتی صاحب فرما رہے تھے ۔ عنان نظامت احقر کو سونپ دی گئی تھی ۔اس مشاعرہ میں جناب غوث محی الدین خواہ مخواہؔ ، جناب حمایت اللہ ، جناب عظمت بھلاواں اور جناب مصطفی علی بیگ اسٹیج پر تھے ۔ مشاعرہ کا آغاز میں نے ان اشعار سے کیا ؎
مدت کے بعد آئی ہے پھر قہقہوں کی شام
بے چین جس کے واسطے ہم بھی بہت رہے
دشمن سے مصطفی و بھلاواں بھی آگئے
سنیے حمایت اللہ کو جب تک سکت رہے
پروردگار آج کی شب ہے یہی دعا
دیوار و در نہ ٹوٹیں سلامت یہ چھت رہے
مشاعرہ شروع ہوگیا ۔ سامعین خواہ مخواہؔ کو سننے بے تاب تھے۔
میں نے سامعین کے مسلسل اصرار پر خواہ مخواہؔ کا اس شعر سے پوڈیم پر استقبال کیا۔
ایک شاعر اب ہمارے خواہ مخواہ مابین ہیں
اُن کو سننے آپ کیا ، ہم بھی بہت بے چین ہیں
چنانچہ خواہ مخواہؔ اسٹیج پر آتے ہی تالیوں اور قہقہوں کی گونج شروع ہوگئی ۔ انہوں نے یہ قطعہ پیش کیا ؎
ملوں گا خواب میں اس سے یہی طئے کر کے سوتا ہوں
ملن کا وقت جو ملتا ہے وہ اس طرح کھوتا ہوں
مری معشوق امریکن ہے اردو سے ہے ناواقف
وہ جب انگلش میں ہنستی ہے تو میں اردو میں روتا ہوں
اس قطعہ نے مشاعرہ کو چار چاند لگادیئے ۔
ایک اور مشاعرہ میں انہوں نے امریکہ کے Highways اور شاہراہوں کے بارے میں کسی نظم میں کہا تھا کہ یہاں چپ چاپ بھکاری ہاتھوں میں کشکول لئے ہائی وے کے داخلے پر کھڑے رہتے ہیں جب تک انہیں خیرات نہیں مل جاتی کسی کار اور ٹرک کو ہائے وے پر جانے نہیں دیتے۔
خواہ مخواہؔ کی شاعری جتنی دلآویز ہے ، ان کی گفتگو بھی اسی قدر دلنشین ، تقریباً 10 سال قبل امریکہ کے ایک دورے میں مجھے ا پنے رفقاء ڈاکٹر توفیق انصاری احمد جناب خلیل الزماں خان (پریسیڈنٹ، دی عثمانین یو ایس اے) کے ہمراہ جناب خواہ مخواہؔ کے ساتھ ہمطعامی کا شرف حاصل رہا ۔گفتگو نہایت دلچسپ رہی ۔ کاش ہم اس نشست کو Tape کرلیتے۔میں نے اُن سے انہیں کی ایک مقبول نظم کا ذکر کیا ’’نئی بولے تو سنتے نئیں‘‘ اور پھر میںنے اُن کی ہی زمین میں اپنے چند شعر ان کی اجازت سے پیش کئے۔ شعر سن کر موصوف کافی لطف اندوز ہوئے اور انہوں نے مجھ پر ایک نظم تحریر کی جو ان کی دستخط کے ساتھ اب بھی میرے پاس موجود ہے اور میرے لئے ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میں نے جو شعر پیش کئے تھے وہ یہ ہیں ؎
گورے لوگاں پھنس گئے جیسا امریکہ کے دلدل میں
ہلو ہلو پھنستے جارئیں ، نئی بولے تو سنتے نئیں
اردو ، وردو چھوڑ چھڑاکو ، اپنے سارے سگوں سے
انگریزی میں بکوا کر رئیں ، نئی بولے تو سنتے نئیں
جن سے گوشہ ہوتا تھا ، ان سے تو ہنس ہنس کو مل رئیں
مَولی صاب سے یچ گوشہ کرئیں ، نئی بولے تو سنتے نئیں
گھر میں دیسی مرغی رکھ کو پردیسی مرغی کو تک رئیں
انگلش میں ککڑ کوں کر رئیں ، نئی بولے تو سنتے نئیں
جناب غوث محی الدین خواہ مخواہ اس دنیا سے چل بسے لیکن ماڈرن ٹکنالوجی نے ان کے بے شمار مشاعروں کو Youtube کی شکل میں اپنے آغوش میں محفوظ کرلیا ہے۔ لہذا خواہ مخواہؔ اور ان کی شاعری ہمارے لئے آج بھی زندہ جاوید ہے۔ حیدرآباد دکن کے اس عظیم مزاح نگار کی خدمت میں بطور خراج میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں ؎
قمریاں اُن کی لحد پر ذکر سبحانی کریں
طائرانِ خوشنوا سب فاتحہ خوانی کریں