آپ کے مسائل اور شرعی احکام

مسجد سے متصل مکان میں اقتداء
سوال : مسجد سے متصل مکان سے خطبہ کی آواز گھر میں آتی ہے، گھر میں خطبہ سن کر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
آج کل غیبت ، چغلی کا چلن عام ہوچکا ہے ، غیبت و چغلی سے متعلق تفصیل بیان کریں تو مہربانی ہوگی۔
اظہر خان، مغل پورہ

جواب : اقتداء کے صحیح ہونے کیلئے اتصالِ صفوف یعنی صفوں کا متصل ہونا ضروری ہے ۔ اگر دوصف کا فاصلہ آجائے یا صفوں کے درمیان کوئی راستہ ہو جس میں کوئی گاڑی جاسکتی ہو تو احناف کے نزدیک اقتداء درست نہیں ہے ۔ نیز امام کی آواز کا مائکروفون کے ذریعہ سنائی دینا اقتداء کیلئے کافی نہیںہے۔ اس لئے آپ کو چاہئے کہ آپ مسجد ہی میں جمعہ کی نماز ادا کیجئے ۔ سوال میں کچھ تفصیلات و تصریحات مطلوب نہیں۔ اس لئے اقتداء سے متعلق بنیادی باتیں بیان کردی گئی ہیں۔

– 2 شرعاً ’’غیبت‘‘ اور ’’نمیمہ‘’ دونوں حرام ہیں۔ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی سے متعلق ایسی چیز کو بیان کریں جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ واقعی وہ چیز اس میں موجود ہو تو غیبت ہے اور نہ ہو تو اس پر بہتان و تہمت ہے، وہ بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یغتب بعضکم بعضا أیحب أحد کم أن یاکل لحم اخیہ میتافکرھتموہ واتقواللہ ان اللہ تواب رحیم۔(الحجرات)

ترجمہ َ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ، کیا کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کا مردار گوشت کھائے ۔ تم اس کو ناپسند کرتے ہو اللہ سے ڈرو! یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ مہربان ہے۔ (سورۃ الحجرات) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الغیبۃ اشدمن الزنا ۔ غیبت زنا سے بڑھ کر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : کس طرح بڑھ کر ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی زنا کرتاہے پھر صدق دل سے نادم و پشیماں ہوکر توبہ کرتا ہے (اور آئندہ نہ کرنے کا عہد واثق کرتا ہے) تو اللہ اس کی توبہ کو قبول فرمالیتا ہے لیکن جس کی غیبت کی جائے جب تک وہ معاف نہ کرے غیبت کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔

’’نمیمہ‘‘ کہتے ہیں لوگوں کی بات کو دوسروں تک فساد کی نیت سے پہنچانا ایک سنگین و مہلک بیماری ہے اور اصلاح بین الناس لوگوں میں صلح صفائی کرانے کے حکم کے خلاف ہے ۔ غیبت اور نمیمہ دونوں سے آخرت میں ناکامی اور دنیا میں رسوائی ہوتی ہے ، آدمی کی عزت ختم ہوجاتی ہے اور وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔

تاریخ ولادت نبوی اور دوشنبہ کا دن

سوال : رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی کیا تاریخ ہے ، بعض حضرات 12 ربیع الاول کہتے ہیں، کوئی آٹھ ربیع الاول کہتے ہیں، اسی طرح انگریزی تاریخ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔ کیا ولادت با سعادت کے دن یعنی دوشنبہ کے بارے میں اختلاف رائے ہے؟ کیا کوئی کسی دوسرے دن کے قائل ہیں۔
محمد سرفراز، دبیر پورہ

جواب : رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دلادت باسعادت موسم بہار میں دوشنبہ کے دن 12 ربیع الاول سنہ عام الفیل (20 ا پریل) 570 ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ، تاریخ انسانیت میں یہ دن سب سے زیادہ بابرکت، سعید اور درخشاں و تابندہ ہے ۔

آپ کی ولادت کے سلسلہ میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور وقت بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتاب، دوشنبہ (پیر) کا دن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو پیدا ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپ کو نبوت سے سرفرازا کیا گیا ۔ دوشنبہ کو مکہ سے مدینہ کو ہجرت کیلئے روانہ ہوئے اور دوشنبہ کو آپ مدینہ میں تشریف فرما ہوئے (شاید قباء مراد ہو جو مضافات مدینہ میں ہے) دوشنبہ کے دن آپ نے دارفانی کو خیر باد کہا اور دوشنبہ کے دن ہی آپ نے حجر اسود (25 برس کی عمر میں) بیت اللہ میں نصب فرمایا تھا (ابن کثیر : السیرۃ النبویہ، 198:1 ) ایک روایت میں دوشنبہ کے ساتھ 12 ربیع لاول کا بھی ذکر ہے اور ساتھ ہی معراج نبوی کا دن بھی دوشنبہ بتایا گیا ۔

جمہور کے نزدیک ولادت مبارک کی تاریخ قمری حساب سے 12 ربیع الاول ہے ۔ کتب سیرت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلہ میں اور تاریخیں بھی مذکور ہیں۔ شبلی نعمانے سیرت النبی (1 : 171 ) میں مصر کے مشہور ہیئت داں محمود پاشاہ فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔

قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب رحمۃ اللعالمین (40:1) میں آپ کی پیدائش 9 ربیع الاول : عام الفیل 22 اپریل 571 ء یکم جیٹھ 628 بکری قرار دی ہے ۔ اس وقت شاہ ایران انو شیروان کے جلوس تخت کا چالیسواں سال تھا اور اسکندر ذالقرنین کی تقویم کی رو سے سنہ 882 تھا ۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی۔ دیکھئے Mohammed Rasullah ص : 1 ، کراچی 1979 ہوئے۔

نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
سوال : حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک سے متعلق تفصیل فراہم فرمائیںتو مہربانی ہوگی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کے معنی و مفہوم کیا ہے ؟ اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی کام ’’محمد رہا یا نہیں؟ اور قرآن مجید میں کتنی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آیا ہے ؟
سید مجتبی ، فلک نما

جواب : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء گرامی ’’احمد‘‘ اور ’’محمد‘‘ ہیں۔ دونوں اسماء گرامی کا مادہ ’’حمد‘‘ ہے اور حمد کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے اخلاق حسنہ ، اوصاف حمیدہ ، کمالات جمیلہ اور فضائل کو محبت ، عقیدت اور عظمت کے ساتھ بیان کیا جائے ۔ اسم پاک محمد مصدر تحمید (باب تفعیل) سے مشتق ہے۔ لفظ ’’محمد‘‘ اسی مصدر سے اسم مفعول ہے ۔ اس سے مقصود وہ ذات بابرکت ہے جس کے حقیقی کمالات ، ذاتی صفات اور اصلی محامد کو عقیدت و محبت کے ساتھ بکثرت اور بار بار بیان کیا جائے ۔ لفظ محمد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ وہ ذات ستودہ صفات جس میں فضائل محمودہ اور اوصاف حمیدہ بدرجہ اتم و اکمل موجود ہوں۔

اسی طرح ’’احمد‘‘ اسم تفصیل کا صیغہ ہے، بعض اہل علم کے نزدیک یہ اسم فاعل کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک اسم مفعول کے معنی میں اسم فاعل کی صورت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ستائش کرنے والی ذات اور مفعول کی صورت میں سب سے ز یادہ جس کی تعریف کی گئی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ (الروض الأنف: 20 :106 )۔

آپ کا اسم مبارک ’’محمد ‘‘ باب تفعیل سے ہے جو مبالغہ کیلئے استعمال ہوا ہے۔ یہ یہاں محمود (تعریف کیا ہوا) کے مفہوم میں ہے : جس میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں… امام البخاری اپنی کتاب التاریخ الصغیر میں علی بن زید کے طریقہ سے روایت فرماتے ہیں کہ ابو طالب کہا کرتے تھے:

وشق لہ من اسمہ لیجلہ
فذوالعرش محمود و ھذا محمد

(اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے ۔ سو صاحب عرش محمود اور آپ محمد ہیں) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ محمد وہ ہے جس کیبار بار حمد (مدح) کی جائے ۔ نامور عرب شاعر الاعشی کہتا ہے :

الیک ابیت اللعین کان و جیفھا
الی الماجد القرم الجواد المحمد

’’تیری ہی طرف …تو خدا کی ناراضگی سے بچے …اس کی جائے پناہ ہے یعنی بزرگ سخی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف‘‘

لہذا لفظ محمد کا مفہوم ایسی ہستی ہے جس میں تمام اچھی اچھی عادتیں جمع ہوں ( فتح الباری 555/6 )

علاوہ ازیں لفظ حمد کا آپ کی ذات ، دین اسلام اور امت مسلمہ کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔ آپ کو سورۃ الحمد، لواء الحمد، (الحمد نامی علم مبارک) اور مقام محمود سے سرفراز کیا گیا ۔ آپ کیلئے کھانے اور پینے سے فراغت اور سفر سے آنے کے بعد کی دعاء الحمدللہ (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں) مقرر کی گئی اور آپ کی امت ’’الحمادون‘‘ ہے( حوالہ مذ کور)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زمانہ جاہلیت میں صرف چند اشخاص ایسے ملتے ہیں جن کا نام محمد تھا ۔ لسان العرب اور تاج العروس میں سات آدمیوں کے نام ضبط کئے گئے ہیں اور بعض نے زیادہ بھی نقل کئے ہیں ۔ ان لوگوں کے والدین نے اہل کتاب سے یہ سن کر کہ جزیرۃ العرب میں ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں جن کا نام محمد ہوگا ، اس شرف کو حاصل کرنے کیلئے یہ نام رکھ لیا۔ البتہ کسی نے ’’احمد‘‘ نام نہیں رکھا ۔ مشیت الہی دیکھئے کہ ’’محمد‘‘ نام کے ان لوگوں میں سے کسی نے بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔ (فتح الباری ، 405-404:7 )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ مذکور ہوا ہے اور وہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشگوئی کے طورپر ارشاد ہے : و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (61 الصف : 144 )

ترجمہ : یعنی ’’میں (عیسی علیہ السلام) اس پیغمبر کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمدہوگا، آپ کا اسم گرامی محمد چار مرتبہ قرآن مجید میں آیا ہے اور ہر مرتبہ آپ کے منصب رسالت سیاق و سباق میں ۔

– 1 وما محمد الارسول (3 ، آل عمران 144: ) ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں۔

– 2 ماکان محمد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین (33 ، الاجزاب 40 ) یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر یعنی نبوت کو ختم کردینے والے ہیں ۔

– 3 والذین آمنوا و عملوا الصلحت و آمنوا بما نزل علی محمد وھوالحق من ربھم کفرعنھم سیاتھم و أصلح بالھم (47 بحمد 2: )
یعنی اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو ( کتاب ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ ان کے رب کی طرف سے برحق ہے۔ ان سے ان کے گناہ معاف کردیئے اور ان کی حالت سنوار دی۔

– 4 محمد رسول اللہ (48 الفتح 29: ) یعنی : محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
ان چاروں آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ذکر کر کے آپ کی رسالت و نبوت کے منصب کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے تاکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔

اسی مناسبت سے آپ نے اور آپ کی امت نے دنیا کی تمام قوموں اور امتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کی اور قیامت تک کرتی رہے گی ۔ ہر کام کے آغاز و اختتام پر اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کا حکم دیا گیا ۔ اور امت کا ہر فرد یہ فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد و محاسن اور خصال محمودہ اور فضائل و کمالات کا بیان اور ذکر جس کثرت سے کیا گیا ہے اور ابد تک کیا جاتا رہے گا اس کی مثال بھی دنیا میں نہیں مل سکتی۔