سفر سے واپسی اور اسی دن سفر کے ارادہ پر نماز کا حکم
سوال : میں پارٹنرشپ میں کاروبار کرتاہوں، چار قسم کے میرے کاروبار ہیں، ہر کاروبار میرا ایک بھائی سنبھالتا ہے اور سب کی خریدی میں تنہا کرتا ہوں۔ آئندہ مہینے مجھے رمضان کی خریدی کیلئے بارہ دن کے سفر پر جاناہے ۔ بارہ دن کے سفر کے دوران ایک دن میں صبح گیارہ بجے اپنے وطن حیدرآباد پہونچوں گا اور اسی دن چار بجے کی فلائٹ سے دہلی چلے جاؤں گا۔پورے سفر میں میں صرف ظہر کی نماز اپنے شہر میں ادا کروں گا ۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ مجھے یہ ظہر کی نماز اپنے شہر میں چار رکعت اداکرناہوگا یا پھر سفر ہی کا اعتبار کرتے ہوئے دو رکعت اداکرناہے ؟
محمد عبدالجبار، عنبر پیٹ
جواب : مسافر اپنے شہر میں داخل ہوتے ہی وہ ’’مقیم‘‘ بن جاتا ہے، مسافر باقی نہیں رہتا اگرچہ وہ قضاء حاجت یا مختصر مدت کیلئے ہی داخل ہوا ہو۔ شہر اس کی اقامت اور سکونت کیلئے متعین ہے اسکو اقامت (شہر میں قیام) کی نیت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوات سے سفر کے بعد مدینہ کو لوٹتے تو مدینہ میں قیام کی نیت از سر نو نہیں فرماتے کیونکہ شہر قیام کیلیء متعین ہوتا ہے ۔ بدائع صنائع جلد اول ص :103 میں ہے : فالمسافر اذا دخل مصرہ صار مقیما سواء دخلھا للاقامۃ أوللاجتیاز أو لقضاء حاجۃ والخروج بعد ذلک لماروی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یخرج مسافرا الی الغزوات ثم یعود الی المدینۃ ولا یجدد نیۃ الاقامۃ ولأن مصرہ متعین للاقامۃ فلا حاجۃ الی التعین بالنیۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں آپ بارہ دن کے سفر کے دوران کچھ وقفہ اپنے شہر میں قیام کریں اور کسی چار رکعت والی نماز کا وقت آجائے تو آپ چار رکعت ہی ادا کریں گے، قصر یعنی دو رکعت ادا کرنے سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ۔ لہذا جس دن آپ سفر سے واپس ہوکر بعد نماز ظہر دوبارہ سفر پر روانہ ہوں گے اس دن کی ظہر چار رکعت ہی ادا کریں گے۔
جنازہ کے پیچھے چلنا یا سامنے
سوال : حال ہی میں میں ایک جنازہ میں شریک ہوا، نماز جنازہ کے بعد میت کو قبرستان لے جایا جارہا تھا ، چونکہ قبرستان مسجد سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا اس لئے کندھوں پر ہی لیجایا جارہاتھا، اس دوران میں جنازہ کے آگے جارہا تھا تو ایک صاحب نے مجھے جنازہ کے پیچھے چلنے کیلئے کہا اور آگے چلنے سے سختی سے منع کیا۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ شرعی لحاظ سے میت کے آگے چلنا چاہئے یا پیچھے ؟ اگر جنازہ کے آگے چلیں تو گنہگار ہوں گے ۔
شیخ عباس ، پرانی حویلی
جواب : جنازہ کے آگے چلنے میںشرعاً کوئی حرج نہیں ہے تاہم پیچھے چلنا افضل ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن معاذ کے جنازہ کے پیچھے چل رہے تھے۔ مبسوط سرخسی جلد دوم ص : 56 میں ہے : ولا باس بالمشی قدامھا والمشی خلفھا افصل عقدنا … (ولنا) حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یمشی خلف جنازۃ سعد بن معاذ۔ نیز جنازہ کے پیچھے چلنے میں وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے اور جنازہ کو دیکھ کر اپنی حالت پر غور و فکر کرنے کا زیادہ موقع رہتا ہے ۔ بسا اوقات کاندھا دینے کی ضرورت ہوتی ہے اگر وہ پیچھے ہو تو وہ بوقت ضرورت تعاون کرسکتاہے ۔ چنانچہ اس کتاب میں صفحہ 57 میں ہے۔
ولان المشی خلفھا اوعظ فانہ ینظر الیھا و یتفکر فی حال نفسہ فیتعظ بہ و ربما یحتاج الی التعاون فی حملھا فاذ کانوا خلفھا تمکنوا من التعاون عندالحاجۃ فذلک افضل۔
پس جنازہ کے پیچھے چلنا افضل ہے۔ اجر و ثواب میں اضافہ کا باعث ہے ۔ تاہم سامنے چلنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔اگر کوئی جنازہ کے آگے چل رہا ہو تو وہ گنہگار نہیں۔
دوران نماز ادھر ادھر دیکھنا
سوال : نماز کے دوران اگر کوئی اپنی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھے تو کیا حکم ہے ؟ ایک صاحب کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ امام کی اقتداء کرتے ہوئے سامنے سے آنے جانے والوں پر نظر رکھتے ہیں بلا ضرورت دیکھنے سے نماز باقی رہتی ہے یا ٹوٹ جاتی ہے ؟
محمد مدثر ، جہاں نما
جواب : نماز میں خشوع و خضوع مطلوب و مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلاتھم خشعون۔ (سورۃ المومنون) یعنی تحقیق کہ مومنین کامیاب ہیں، وہ لوگ ہیں جو نماز میں خشوع و خصوع برقرار رکھتے ہیں۔
دوران نماز بحالت قیام مصلی کی نظر سجدہ کے مقام پر ہونا چاہئے اور رکوع میں قدم کے ظاہری حصہ پر اور سجدہ میں اپنی ناک کے کناروںپر اور تشھد میں اپنی گود پر سلام کے وقت اپنے کندھوں پر ہونی چاہئے ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نورالایضاح صفحہ 276 تا صفحہ 277 میں فضل من آدابھا کے تحت ہے۔ (و) منھا (نظرالمصلی) سواء کان رجلا او امرأۃ (الی موضع مسجودہ قائما) حفظا لہ عن النظر الی ما یشغلہ عن الخشوع (و) نظرہ (الی ظاہراالقدم راکعا والی ارتبۃ انفہ ساجدا والی حجرہ جالسا) ملا حضا قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : اعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک فلا یشتغل بسواہ (و) منھا نظرہ (الی المنکبین مسلما)
پس صورت مسئول عنہا میں نمازی کو چاہئے کہ وہ نماز کے دوران قیام رکوع ، سجدہ اور تشھد وعیرہ میں مندرجہ بالا صراحت کے مطابق اپنی نگاہ کو جمائے رکھے۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا خلاف ادب اور خشوع و خصوغ کے خلاف ہے ۔ اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
میت کو بوقت غسل وضو کرانا
سوال : غسال حضرات میت کو غسل دینے سے پہلے وضو کراتے ہیں اور بلند آواز سے کچھ پڑھتے رہتے ہیں۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت وضو کرانے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ نیز جب وضو کرایا جائے تو ان کو ناک اور منہ میں کیسے پانی ڈالا جائے ۔ امید کہ بہت جلد اس کا جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں گے۔
محمد منیر ، محبوب نگر
جواب : میت کو وضو کرایا جائے گا کیونکہ وضو غسل کیلئے مسنون ہے۔ البتہ ناک اور منہ میں پانی ڈالے بغیر وضو کروایا جائے گا کیونکہ منہ اور ناک میں پانی نکالنا دشوار ہوتاہے اس لئے میت کو غسل سے قبل وضوء کراتے وقت مضمصہ اور استنشاق یعنی کلی اور ناک میں پانی نہیں چڑھایا جائے گا ۔ بنایۃ شرح ہدایہ جلد 3 ص : 214 میں ہے : و وضوء ہ من غیر مضمضۃ واستنشاق، لان الوضوء سنۃ الاغتسال غیر ان اخراج الماء منہ متعذر فیترکان ، ثم یفیضون الماء علیہ اعتبار ابحال الحیاۃ۔
خطبہ جمعہ کے وقت تحیۃ المسجد پڑھنا
سوال : میں حنفی ہوں ، سعودی عرب میں بارہ سال رہا ہوں، میں نے مساجد میں دیکھا کہ بعض لوگ خطبہ جمعہ شروع ہونے کے بعد آتے اور فوراً تحیۃ المسجد شروع کردیتے۔ اس کے بعد جمعہ کا خطبہ سنتے۔
آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ خطبہ جمعہ کے وقت تحیۃ المسجد پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟ کیا صرف خطبہ کے وقت جمعہ کی سنتیں نہیں پڑھنا چاہئے ۔
محمد اشفاق ، کالی کمان
جواب : حدیث شریف میں وارد ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اذا خرج الامام فلا صلاۃ ولا کلام
ترجمہ : جب امام (خطبہ کیلئے ) نکلے تو اب نہ کوئی نماز ہے اور نہ کوئی کلام ۔ (ہدایہ میں یہ حدیث مذکور ہے)۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے منقول ہے کہ وہ امام کے نکلنے کے بعد نماز اور گفتگو کو ناپسند کرتے تھے ۔ واخرج ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ عن علی و ابن عباس و ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم ، کانوا یکرھون الصلاۃ والکلام بعد خروج الامام۔
حدیث شریف میں خطبہ کیلئے امام کے نکلنے کے بعد ’’صلاۃ‘‘ یعنی نماز پڑھنے میں ممانعت ہے اور لفظ صلاۃ عام و مطلق ہے ۔ ہر قسم کی نماز یعنی نفل ، سنت اور تحیۃ المسجد پر شامل ہے۔ اس لئے جب امام خطبہ کیلئے نکل جائے تو پھر نہ جمعہ کی سنت ادا کرے اور نہ تحتیہ المسجد ۔ اسی میں ہے : قولہ (فلا صلاۃ) شمل للسنۃ و تحیۃ المسجد ۔ بحر قال محشیہ الرملی : فلا صلاۃ جائزۃ و تقدم فی شرح قولہ : و منع عن الصلاۃ و سجدۃ التلاوۃ الخ
عہد نبوی ؐکے دلچسپ واقعہ کی تصدیق
سوال : میں نے بہت پہلے کسی جلسہ میں سنا تھا کہ ایک شخص کسی دوسرے سے معاہدہ کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ شہید کرنے کا ارادہ کیا اور دوسرا شخص اس کو اس کام کے بدل اس کے قرض کی ادائیگی اور بال بچوں کی پرورش کا ذمہ لے لیا ، پھر وہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حملے کے ارادہ سے آیا ۔ آپ نے اس کو اسلام لانے کی تر غیب دی اور اس کو اس معاہدہ کے بارے میں بیان کردیا جو اس کے اور اس کے دوست کے درمیان ہوا تھا تو وہ مسلمان ہوگیا۔
کیا اس قسم کا کوئی واقعہ ہے ، اگر ہے تو اس کی تفصیل سے مطلع فرمائیں ۔
محمد اعجاز ، عادل آباد
جواب : غز وۂ بدر میں شکست کے بعد عمر بن وھب اور صفوان بن عیینہ دونوں ایک غار میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ صفوان نے کہا : اللہ تعالیٰ نے بدر کے مقتولوں کے بعد ہماری زندگیوں کو مبرا بنادیا ہے ۔ عمر نے کہا : درست ہے۔ بخدا ان کے بعد جینے میں کوئی مزہ نہیں رہا ، اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے اور میرے بال بچے نہ ہوتے جن کیلئے میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے تو میں ضرور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور نعوذ باللہ ان کو قتل کردیتا ۔ یہ سن کر صفوان خوش ہوا اور کہا کہ تیرے قرض اور تیرے بال بچوں کی ذمہ داری مجھ پر ہے ۔ انہیں میرے گھر والوں کے برابر خرچ ملے گا۔ صفوان نے عمر کو اس ناپاک ارادہ پر بہت ابھارا اس کی تلوار کو صیقل کرایا اور زہر میں بھجوایا۔ دونوں نے اس معاہدہ کو راز رکھنے کا عہد کیا اور عمر مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ مسجد نبوی کو پہنچ کر اپنی سواری کو باندھا اور تلوار لیکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اس وقت اس کو حضرت عمر نے دیکھ لیا اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہ کریں۔ آپ نے فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ۔ حضرت عمر باہر آئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بٹھاؤ اور اچھی طرح نگرانی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے مدینہ آنے کا مقصد پوچھا ۔ اس نے کہا میں اپنے عزیز قیدی کی رہائی کیلئے ایا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو نے پھر صفوان کے ساتھ غار میں کیا معاہدہ طئے کیا تھا ۔عمر گھبرا گیا پھر جان بوجھ کر پوچھنے لگا کیا شرط رکھی تھی ؟ آپ نے فرمایا تو نے اس شرط پر حامی بھری تھی اور تو میرا قتل کرے گا اور وہ تیری اولاد کی ذمہ داری اٹھائے گا اور تیرا قرض ادا کرلے گا۔ اس پر عمر نے کہا : ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ بات میرے اور صفوان کے درمیان ایک غار میں ہوئی تھی جسے آپ نے بتادیا ۔ اس بات کی اطلاع اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو دی۔ سو اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس بات کو میرے یہاں پہنچنے کا ذریعہ بنادیا۔ اس پر تمام صحابہ بیحد خوش ہوئے۔ (الاصابۃ جلد 3 ص : 36 )