رشیدالدین
ویدک حافظ سعید ملاقات پر راز کے پردے
غزہ میں بربریت پر مودی حکومت کی بے حسی
نریندر مودی حکومت کیلئے آخر قومی مفاد کا مطلب کیا ہے؟ ملک کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف اور ملک دشمن عناصر سے درپردہ ملاقات کیا قومی مفادات کا تحفظ ہے؟ مودی حکومت نے صرف ایک ماہ کی حکمرانی میں قومی مفادات کی اصطلاح اور معنیٰ تبدیل کردیئے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل تو دوسری طرف 26/11 ممبئی دہشت گرد حملے کے ماسٹر مائینڈ حافظ سعید کے معاملہ میں حکومت کا نرم رویہ ظاہر کرتا ہے کہ نریندر مودی حکومت کے نزدیک قومی مفاد کے معیارات تبدیل ہوچکے ہیں۔ قومی مفاد کے نام پر نہتے فلسطینیوں پر حملہ کرنے والے اسرائیل کی مذمت سے گریز کیا گیا۔
اسی طرح پاکستان میں حافظ سعید سے ملاقات کرنے والی آر ایس ایس کی نظریاتی شخصیت وید پرتاپ ویدک کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان دنیا کے ہر مظلوم کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا تھا لیکن اب اسی ملک کے حکمراں ظالموں اور ملک دشمنوں کی پشت پناہی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے پارلیمنٹ میں دو اہم مسائل پر اہم اپوزیشن جماعتیں مودی حکومت سے جواب طلب کر رہی ہیں۔ نریندر مودی کے نظریاتی گرو بابا رام دیو کے ترجمان وید پرتاپ ویدک کی حافظ سعید سے ملاقات سیاسی اور صحافتی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ وید پرتاپ ویدک سے آر ایس ایس لاکھ لاتعلقی کا اظہار کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سنگھ کے نظریات کے حامل ہیں۔ انہوں نے گزشتہ جون میں دورہ پاکستان کے موقع پر نہ صرف حافظ سعید سے خفیہ ملاقات کی بلکہ پاکستانی نیوز چیانل کو کشمیر کے مسئلہ پر متنازعہ بیان دیا جو کہ ہندوستان کے موقف کے خلاف ہے۔
سوشیل میڈیا میں اس ملاقات کی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد عوام کو ملاقات کا علم ہوا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ملک کی سلامتی سے جڑے اس سنگین مسئلہ پر حکومت کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ حکومت اس ملاقات کو ویدک کا شخصی معاملہ قرار دیکر مسئلہ کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نہ صرف لاعلمی کا اظہار کر رہی ہے بلکہ ملاقات کے پس پردہ عوامل کی جانچ کیلئے تیار نہیں۔ حکومت کا یہ رویہ از خود کئی شبہات کو جنم دیتا ہے۔ حافظ سعید کوئی معمولی فرد نہیں بلکہ ممبئی حملوں کے ماسٹر مائینڈ اور موسٹ وانٹیڈ افراد میں شامل ہیں۔ ایسے شخص سے کسی ہندوستانی کی ملاقات یقیناً ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ویدک نے ایک صحافی کی حیثیت سے یہ ملاقات کی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحافی کو ایسے شخص سے ملاقات کا اختیار ہے جس کا شمار ملک کے دشمنوں میں ہوتا ہے اور ملک پر حملے کے ایک واقعہ میں وہ مبینہ طور پر ملوث ہے۔
جون میں علاقائی امن کے موضوع پر اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں ارکان پارلیمنٹ اور صحافیوں پر مشتمل 13 رکنی وفد نے شرکت کی ۔ اس میں کانگریس کے قائدین منی شنکر ایر ، سلمان خورشید کے علاوہ وید پرتاپ ویدک شامل تھے۔ وفد کے دیگر ارکان تو وطن واپس ہوگئے لیکن ویدک نے اپنے قیام میں توسیع کی ۔ انہوں نے ایک پاکستانی چیانل کو انٹرویو دیتے ہوئے ہندوستانی اور پاکستانی کشمیر کو ملاکر ایک نئے ملک کے قیام کی وکالت کی۔ ملاقات کے افشاء کے بعد جب پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا تو حکومت نے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ۔ آر ایس ایس نے پہلے ویدک کے سویم سیوک ہونے سے انکار کیا لیکن بعد میں انہیں قوم پرست قرار دیا گیا۔ آر ایس ایس قائد اندریش کمار جو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں مشتبہ ہیں، انہوں نے یہ کہتے ہوئے ویدک کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی کیا ہوگا۔ ویدک کی بی جے پی اور سنگھ سے روابط کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوگا کہ ویویکا نند فاؤنڈیشن نامی جس ادارہ سے وہ وابستہ ہیں، اس سے تعلق رکھنے والے تین افراد نریندر مودی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔
جن میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار دوول کے علاوہ نرپیندر مشرا اور پی کے مشرا شامل ہیں۔ حکومت نے جس انداز سے اس مسئلہ ٹالنے کی کوشش کی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت کی مرضی اور ایماء پر ہی یہ ملاقات کی گئی اور سارا ایجنڈہ طئے شدہ تھا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ملاقات اور بات چیت کی تفصیلات ملک کے سامنے رکھی جائیں۔ اگر مرکز میں کانگریس حکومت ہوتی اور حکومت کا کوئی قریبی شخص حافظ سعید سے ملاقات کرتا تو کیا بی جے پی خاموش رہتی ؟ بی جے پی نے تو اجمیر شریف کی زیارت کیلئے آنے والے پاکستانی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی مہمان نوازی پر اس وقت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید کو نشانہ بنایا تھا لیکن حیرت ہے کہ مخالف ہندوستان کارروائیوں میں مطلوب شخص سے کی گئی ملاقات کے مسئلہ پر بی جے پی کی دیش بھکتی اور قوم پرستی کے جذبات میں کوئی ابال دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ ویدک پرتاپ کی جگہ اگر کوئی مسلمان حافظ سعید سے ملاقات کرتا تو ملک کا منظر ہی مختلف ہوتا۔ خود حکومت آسمان سر پر اٹھالیتی اور نیوز چیانلس اور اخبارات کو مسلمانوں کو دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے کا موقع ہاتھ لگ جاتا۔ ملک کے تمام شہروں میں مقدمات درج ہوجاتے
اور اس کے افراد خاندان اور دوست احباب کو پوچھ تاچھ کیلئے حراست میں لے لیا جاتا لیکن ویدک کی ملاقات کے مسئلہ پر آج قومی میڈیا اور ٹی وی چیانلس کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ کسی دہشت گرد سے ملاقات توکجا پاکستان کا دورہ کرنے یا پھر پاکستانی رشتہ داروں کی آمد پر انٹلیجنس ایجنسیاں مسلمانوں پر نگرانی سخت کردیتی ہیں، صرف شبہ کی بنیاد پر کئی مسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کرنے کے واقعات عوام کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں۔ پاکستان سے متعلق مشتبہ افراد کو پناہ دینے کے الزام میں بعض مذہبی شخصیتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن ویدک کے معاملہ میں خاموشی کیوں ؟ مسلمان صرف شبہ کی بنیاد پر ملک دشمن لیکن ممبئی میں بم دھماکوں کے ذمہ دار سے ملاقات کے بعد بھی وید پرتاپ ویدک ’’دیش بھگت‘‘۔ آخر یہ دوہرے معیارات کب تک ؟ بتایا جاتا ہے کہ حافظ سعید سے ملاقات پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ، پھر بھی حکومت ہند، ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں اور ہندوستانی ہائی کمیشن کی لاعلمی تجاہل عارفانہ کے سواء کچھ دکھائی نہیں دیتی۔
حافظ سعید کی تنظیم جماعت الدعوۃ نے اس ملاقات کی تصدیق کی اور کہا کہ ویدک کی خواہش پر یہ ملاقات کی گئی۔ جماعت الدعوۃ کے مطابق ممبئی حملوں اور مودی حکومت کے انداز کارکردگی پر بات چیت کی گئی ۔ سیاسی مبصرین کا سوال ہے کہ اسلام پرست اور جہادی ہونے کے دعویدار حافظ سعید نے ایسے شخص سے ملاقات کیوں کی جس کا تعلق مخالف مسلم تنظیم سے ہے۔ کیا یہ دونوں ممالک کی جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا گٹھ جوڑ ہے ؟ آخر دونوں ممالک کشمیر کے مسئلہ پر درپردہ سودے بازی تو نہیں کر رہے ہیں؟ کیا ویدک حافظ سعید ملاقات مودی نواز شریف بات چیت کا تسلسل تو نہیں ؟ کیا مسئلہ کشمیر پر کوئی بڑی طاقت دونوں ممالک کی ڈور ہلا رہی ہے ؟ ویدک نے حافظ سعید کو کیا پیام پہنچایا اور بات چیت کا ایجنڈہ کیا تھا؟ ان تمام سوالات کے جواب کا قوم کو انتظار ہے۔
مودی سرکار میں ہندوستان کے کتنے ’’اچھے دن‘‘ آگئے کہ کوئی اور نہیں بلکہ سنگھ پریوار سے وابستہ افراد ملک دشمنوں سے ان کے گھر جاکر ملاقات کر رہے ہیں۔ کیا مودی نے پاکستان سے کشیدگی میں کمی کا کوئی نیا فارمولہ تیار کیا ہے؟ مودی سرکار پارلیمنٹ میں غزہ پر اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کی حالت زار پر مباحث کیلئے تیار نہیں۔ اسے نہتے اور معصوم فلسطینیوں کے خون ناحق سے زیادہ اسرائیل سے تعلقات عزیز ہیں۔ اگر ہندوستان گاندھی اور نہرو کی پالیسی پر قائم رہتا تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کی جاتی۔ مودی سرکار اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی ادا کرنا توکجا سننے میں تیار نہیں۔ اس مسئلہ پرراجیہ سبھا کی کارروائی مسلسل تعطل کا شکار ہے۔ آخر کار صدرنشین راجیہ سبھا حامد انصاری نے حکومت کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے غزہ کی صورتحال پر مباحث سے اتفاق کیا۔ انسانیت کی بنیاد پر ہندوستان غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمہ کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ ظلم اور انصاف کے معیارات بھی مودی حکومت میں باقی نہیں رہے۔ ہندوستان روایتی طور پر فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کا حامی رہا ہے لیکن مودی سرکار نے اس پالیسی سے انحراف کرلیا۔ یہ گاندھی اور نہرو کا نہیں بلکہ مودی اور امیت شاہ کا ہندوستان ہے، جس کی پارلیمنٹ میں قرارداد تو کیا مباحث کی بھی اجازت نہیں۔ویسے بھی پاکستانی دہشت گردوں سے بی جے پی کا نرم رویہ کوئی نئی بات نہیں۔ سابق میں اٹل بہاری واجپائی دور حکومت میں مرکز نے مولانا مسعود اظہر کو قندھار میں رہا کیا تھا۔ حکومت کے دوہرے معیارات پر منظر بھوپالی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
آپ ڈرتے تھے کہ کھل جائے نہ اصلی چہرہ
اس لئے شہر کو آئینہ بنانے نہ دیا