آن لائن خریداری کا بڑھتا رجحان تجارتی برادری کیلئے تشویشناک ، احتجاجی مظاہرے

صارفین کو رقمی بچت لیکن بسااوقات خسارہ ، رہنمایانہ خطوط نہ ہونے سے غیرواضح صورتحال

حیدرآباد۔ 30 نومبر (سیاست نیوز) شہر میں آن لائن خریداری کے بڑھتے رجحان سے نہ صرف تجارتی برادری نقصان برداشت کررہی ہے بلکہ چلر فروش کاروباریوں اور بسا اوقات صارفین کو بھی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ آن لائن خریداری کے منفی اثرات سرکاری خزانہ پر بھی مرتب ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن آن لائن خریداری کے متعلق کوئی رہنمایانہ خطوط نہ ہونے کے باعث اس پر فوری روک لگایا جانا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ چلر فروش الیکٹرانکس کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے تاجرین کا کہنا ہے کہ جو اشیاء آن لائن فروخت کی جارہی ہے ان میں بعض کمپنیوں کی جانب سے بھی راست صارفین کو فروخت کی جارہی ہیں، لیکن اس کے منفی اثرات کا جائزہ لئے بغیر خریدار راست خریدی پر توجہ مرکوز کررہے ہیں اور جب گیارنٹی یا وارنٹی کے تحت خریدی گئی اشیاء کی مرمت وغیرہ کی نوبت آتی ہے، اس وقت کمپنیوں کی جانب سے اسے قبول نہیں کیا جارہا ہے، جس سے چلر فروش دکاندار بالخصوص سرویس سنٹر پر موجود عملہ کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیل فونس ، کمپیوٹرس، لیاپ ٹاپس کے علاوہ دیگر اشیاء جو متاثرکن قیمتوں میں آن لائن نظر آرہی ہیں، انہیں خریدتے ہوئے صارفین خود نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ڈیلرس کا دعویٰ ہے کہ آن لائن خریداری صارفین کے لئے نقصان کا باعث ہے جبکہ صارفین کا یہ احساس ہے کہ کئی ہزار روپئے کی بچت آن لائن خریداری کے ذریعہ ممکن ہورہی ہے۔ گزشتہ دنوں شہرکے موبائل فون کے تجارتی مرکز جگدیش مارکٹ میں آن لائن خریداری کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے جس کے تحت ریٹیلرس نے مطالبہ کیا تھا کہ مخصوص کمپنیوں کے فون جو آن لائن فروخت کئے جارہے ہیں، ان کی فروخت کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ اسی طرح گزشتہ چند ہفتوں سے کمپیوٹر اور الیکٹرانک اشیاء کے معروف بازار شنائے ٹریڈ سنٹر (سی ٹی سی) سکندرآباد میں بھی بند مناتے ہوئے آن لائن تجارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے تھے۔ ڈیلرس اور ریٹیلرس کا کہنا ہے کہ آن لائن خرید و فروخت کے باعث ریاست کو حاصل ہونے والے محصولات میں کمی واقع ہورہی ہے جبکہ ریٹیلرس اگر کوئی بل چاک کرتا ہے تو اسے بطور سیلس ٹیکس تقریباً 5 فیصد رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح دوسری ریاستوں کے علاوہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر انٹری ٹیکس کے نام پر 5 فیصد رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ آن لائن تجارت سے راست طور پر حکومت کو 10 فیصد کے محصولات سے محروم ہونا پڑ رہا ہے جبکہ صارفین کو اس صورتحال سے فوری طور پر فائدہ حاصل ہورہا ہے لیکن ریٹیلرس کا استدلال ہے کہ صارفین کے لئے طویل مدتی یہ تجارت نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ ایم آر اے کیلاش کے بموجب آن لائن تجارت کی وجہ سے ریاست کے ریٹیلرس کو کافی نقصان ہورہا ہے۔ جناب محمد عبدالجنید نے بتایا کہ آن لائن خریدی جانے والی اشیاء کی قیمت کم نظر آتی ہے لیکن اکثر اوقات آن لائن خریداری کرنے والے صارفین کو دھوکہ دہی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جناب ماجد بن عابد نے بھی اس صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں حکومت کو سرگرم ہوتے ہوئے آن لائن خریداری کے لئے اصول و ضوابط طئے کرنا چاہئے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ریٹیلرس یا ڈیلرس کے بجائے راست خریدی کی صورت کے طور پر انہیں نیا طریقہ آن لائن دستیاب ہوا ہے جو صارفین کے لئے فائدہ بخش ہے لیکن بیشتر کمپنیوں کی جانب سے آن لائن خریدے گئے اشیاء پر وارنٹی یا گیارنٹی نہ دیئے جانے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اسی لئے آن لائن تجارت پر روک لگانے کے بجائے رہنمایانہ خطوط کی تیاری کے ذریعہ صارفین، تیار کنندگان کے علاوہ ڈیلرس و ریٹیلرس کے مفادات کے ساتھ ساتھ ریاست کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔