آنسو ایک نفسیاتی جائزہ

رند سرشار
آنسو خوشی اور غم کے اظہا کا ایک خاموش ذریعہ ہیں، یہ نہ صرف تکلیف کے وقت نکل آتے ہیں بلکہ خوشی کے لمحات، پریشانیوں سے یکلخت چھٹکارا اور حسن سے متاثر ہوکر بھی بہنے لگتے ہیں ۔ بادی النظر میں یہ بات معقول معلوم نہ ہوئی لیکن انسانی نفسیات کی تازہ ترین معلومات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ بے وجہ کی اشک فشانی بھی کئی گہرے راز اظہار کا ایک ذریعہ ہوسکتی ہے ۔
امریکہ کے ایک تاجر مارٹن پلٹ ، جنہوں نے نفسیات پر بعض کتابیں لکھی ہیں، خود اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن بازو کے کمرے میں انہوں نے یکایک اپنی بیوی کے رونے اور سسکیاں بھرنے کی آواز سنی ۔ حیران و پریشان جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیوی پرانی تصویروں کی ورق گردانی کر رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ٹوٹ رہی تھی ۔ مارٹن نے لکھا ہے ، یہ تصویریں ہماری زندگی کا ریکارڈ تھیں جبکہ ہم مفلس اور غریب تھے ۔ ہمارے پاس کھانے کیلئے کچھ نہ رہتا تھا حالانکہ افلاس کے دن اب جاچکے ہیں، ہم خوش ہیں ، فارغ البال ہیں، اس کے با وجود میری بیوی ان دنوں کو یاد کر کے رونے لگی جو مصائب سے پر تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے حقائق کا صحیح اندازہ کیا ، اس کو معلوم ہوا کہ ایک خوشحال زندگی کیلئے ہمیں کتنی محنت کرنی پڑی۔
ایسے ہی واقعہ کا ذکر روسی اکیڈمیشین بورنسکی نے کیا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ فرانس جاتا ہے اور وہاں کی دیہی زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ، اس نے لکھا ہے ’’ایک دوسرے میں ایک دیہاتی خاندان کا مہمان تھا ۔ میری طرح اور بھی اجنبی وہاں آئے ہوئے تھے ، جن کی آئسکریم سے تواضع کی جارہی تھی ۔ ہمارے درمیان ایک معذور آدمی بھی ایک متحرک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ، اس کے چہرہ پر اس وقت تک جنگ کی ہولناکیاں جھانک رہی تھیں وہ اپنا ایک ہاتھ اور پیر جنگ کی نذر کرچکا تھا پھر بھی وہ مہمانوں کے درمیان ہنسنے اور قہقہے لگانے میں مصروف تھا۔ یکایک اس کے نحیف ہاتھ سے آئسکریم کی پلیٹ چھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ۔ اس کے لبوں سے یکایک مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ ایک نوجوان لڑ کی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، میں اس کی وجہ پوچھی تو اس نے صرف اتنا کہا ’’یہ شخص کتنا معذور اور لاچار ہے‘‘ لیکن میرا خیال ہے اس لڑکی نے ٹھیک طور پر جواب نہیں دیا ۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی اس کو اپنے دکھ کے ساتھ دوسروں کے غم کا بھی احساس تھا ۔ حالانکہ اس وقت جنگ ختم ہوچکی تھی ۔ فتح و نصرت کے نقارے بج رہے تھے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ماضی کی باتیں انسان کے ذہن پر جو نقوش چھوڑتی ہیں ان کے سہارے پرانے مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور ہم آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ قدیم ترین تہذیب کے نمونوں کو دیکھنے دنیا کے کونے کونے سے جو روم آتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ ایک کھنڈر سے دوسرے کھنڈر کی طرف جاتے ہیں تو اپنے رومالوں سے آنسو خشک کرتے نظر آتے ہیں ، یہی بات یوروپ کے پرانے گرجا گھروں کے دیکھنے والوں میں نظر آتی ہیں۔ جب یہ ان گرجا گھروں کے خاموش اور باوقار ماحول سے باہر نکلتے ہیں تو ان کی آواز حلق میں پھنسی ہوئی رہتی ہے۔
عرصہ ہوا ایسی حالت میں نے مدراس، مہابلیشورم کے غاروں میں دیکھی تھی ۔ ایک کانفرنس میں شرکت کرنے ہندوستان کے کونے کونے سے اخبار نویس یہاں جمع ہوئے تھے۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد چند دنوں مہا بلیشورم کے غاروںکو دیکھنے کا پروگرام بنایا ، یہ غار وشنو دیوتا کے دور کے اور ان کے کارناموں کی یادگار میں ہندو مذہب میں وشنو کا فلسفہ زندگی کی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔اسی فلسفہ کو وہاں فنکاروں نے بت تراشی کے ذریعہ ظاہر کیا ہے ۔ یہ غار ہزاروں سال پرانے ہیں۔ ہمارے ساتھ بنگالی زبان کے مشہور اخبار نویس گرو ہرن داس گپتا بھی تھے جو ان دنوں یونائٹیڈ نیوز آف انڈیا سے وابستہ تھے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب پر انہیں بلا کا عبور حاصل ہے۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ جب ہم ان غاروں کو دیکھنے لگے تو آہستہ آہستہ مسٹر گپتا کی حالت غیر ہونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور رونے لگے ۔ واپسی کے وقت راستہ میں جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس بت تراشی اور فنکاری پر حیران اور خوش ہونے کے بجائے رونا کیوں آیا تو انہوں نے جواب دیا خوشی تو ضرور ہوئی اس طرح کے آنسو نکل پڑے ۔ مجھے دراصل ان نامعلوم افراد کی محنت ایثار اور قربانی کا پورا پورا اندازہ ہونے لگا۔ اس فنکاری کو دیکھ کر خیال آیا کہ کس طرح ہزاروں معماروں کے محتاط ہاتھ اور ذہن سالہا سال ایک مقصد کیلئے کام کرتے رہے ۔ دیکھنے والا رو دیتا ہے ۔ اس لئے کہ جہاں انسان کم ظرف ہے وہیں شریف اور باظرف بھی ہے۔
ہمدردی کے جذبہ کے تحت بہنے والے آنسو بھی انسان کے دل کی بات بتاتے ہیں۔ کیا آنسو خوشی کے جذبہ کے تحت نکلتے ہیں؟ ایک ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ڈاکٹر بسڈار فیلاس نے کہا ہے کہ انسان خوشی کے عالم میں کبھی نہیں روتا، یہ آنسو یقیناً اس خوشی میں چھپے ہوئے کئی غم کے عنصر کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے صنعتی شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ آپ کو ملیں گے جو کائنات کے فطری جتن کو دیکھ کر آنسو بہا دیتے ہیں۔ مشہور ماہر تعلیم چارلس فٹن ایک دن کا رولینا یونیورسٹی میں لکچر دے کر واپس ہورہے تھے ، راستہ میں انہوں نے وسیع میدان اور (Apple) کی پہاڑیاں دیکھیں جن کے دامن میں خوبصورت اور رنگا رنگ پھول کھل رہے تھے ، یہ دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ۔
اگر آپ اشک فشانی کا نفسیاتی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ جذبات کی ابتداء یا انتہا کے وقت آنسو نہیں بہتے بلکہ یہ تحریک اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم دونوں کی درمیانی کیفیت سے لرزتے ہیں۔ خوبصورت چہروں کو دیکھ کر رونا تو کسی کے سمجھ میں نہیں آئے گا لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روز کئی حقائق کا مقابلہ کرتا ہے اور کئی ایسے واقعات اس کی مرضی کے خلاف بھی ہوتے ہیں جن میں ایک لمحہ کیلئے بھی سہی غمگین ہونا پڑتا ہے پھر ان کو بھول جاتا ہے لیکن یہ بات اس کے تحت الشعیور میں باقی رہتی ہے ۔ خوبصورت چہروں کو دیکھ کر کیا خوشی کا احساس ہوتاہے ، یہ تبدیلی خود بخود اشک فشانی کی تحریک بن جاتی ہے ۔
آنسو کو ضبط کرنے سے کئی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے جو لوگ آنسو ضبط کرتے ہیں وہ دمہ ، سر درد اور دوسری ایسی کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ انسانی غم و خوشی کے جذبات پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر رچرڈسن نے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ ایک نوجوان نرس اپنے ضعیف باپ کی خدمت میں لگی رہتی تھی اور اس کی موت کے تصور ہی سے کانپ اٹھتی تھی ، مگر ایک دن وہ مرگیا ، ظاہر ہے کہ ہم اس کے دکھ کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔ ایک ہمدرد دوست نے کسی طرح سمجھا بجھا کر اس کے باپ کی موت پر رونے سے باز رکھا ۔ کچھ ہی دیر بعد اس کو آنتوں کی شکایت ہوگئی ، پھر چند دنوں میں السر پیدا ہوگیا ، اپنے غم کو آنسوؤں سے نہ دھونے کی وجہ سے اسکے جسم میں خرابی پیدا ہوگئی اور چند ماہ بعد وہ بھی مرگئی ۔
’’خوف سے جنگ کرو‘‘ کی مصنفہ لسی فریمن نے لکھا ہے کہ کس طرح وہ کہنہ زکام کی شکار تھی اور کس طرح رونے کی عادت ڈال کر اس نے اس مرضی سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔
فلسفی پہلے خیال کرتے تھے کہ جذبات ہماری سوچ سمجھ کو زائل کردیتے ہیں لیکن طبی سائنس کی تازہ تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ جذ بات کو دبادینا ہماری سوچ سمجھ کی صلاحیت کو تباہ کردینے کے برابر ہے۔ اس لئے اشک فشانی عقلمندی ہے ، چاہے وہ آنسو ہمدردی کے لئے بہہ رہے ہوں یا خوشی کے مظہر ہوں۔