آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد اشرف
آصف جاہی خاندان کی حکمرانی کا دور 1724 تا 1948ء سوا دو سو سال کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس خاندان کے بانی نظام الملک آصف جاہ اول سے لے کر آخری حکمراں میر عثمان علی خان آصف سابع تک سب ہی علم و ادب کی سرپرستی ، مذہبی رواداری اور وسیع النظری کیلئے مشہور تھے ۔ ان حکمرانوں نے مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایات کو اس طرح پروان چڑھایا کہ سارے غیر منقسم ہندوستان میں اس ریاست کی مسلم و غیر مسلم رعایا کے میل جول اور بھائی چارے کی مثال دی جاتی تھی ۔ یہاں عیدین ، تہویار اور خوشی کے مواقع سب مل کر منایا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کی عیدین کی تقاریب ہندو امرا کی کوٹھیوں پر اور ہندو تیوہاروں کی تقاریب مسلمان امرا کی دیوڑھیوں پر منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ میر عثمان علی خان آصف سابع نہ صرف اپنے پیشرو حکمرانوں کے دور کی صحت مند اور مثبت روایات کے پاسدار تھے بلکہ انہوںنے نے ان روایات کو مستحکم بھی کیا ۔ بعض مصنفین اور محققین نے کسی مستند ثبوت اور حوالہ جات کے بغیر صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر انہیں تنگ نظیر اور مذہبی طور پر غیر روادار بتاکر ان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی ۔ میں اس مضمون میں انہیں مذہبی طور پر روادار اور وسیع النظر قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں ستائشی جملے لکھنے کی بجائے تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد سے آصف سابع کی مذہبی رواداری اور وسیع النظری کی چند مثالیں پیش کروں گا ۔ اس مضمون کے ماخذ آرکائیوز کے ریکارڈ ہیں اس لئے وہ نہایت معتبر اور کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہیں ۔
میر محبوب علی خان آصف سادس کا 4 رمضان 1329ھ 29 اگست 1911 ء کو انتقال ہوا ۔ اسی تاریخ کو ریاست کے ولی عہد میر عثمان علی خان کے حکمراں ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ 6 رمضان 1329ھ کو آصف سادس کی تعزیت کا اور 7 رمضان 1329ھ یکم ستمبر 1911ء کو آصف سابع کی تخت نشینی کا دربار منعقد ہوا ۔ ان کی تخت نشینی کی مسرت کے موقع پر مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں نے حکمران ریاست سے عنایات کیلئے معروضے پیش کئے ۔ متعدد افراد کو انعام و اکرام دئے گئے ۔ آرکائیوز میں پنڈت جگت پرشاد ، ماروتی راؤ پنڈت اور رام بلاس جوشی کے معروضے موجود ہیں جن پر آصف سابع نے علی الترتیب ساٹھ روپئے اور تیس تیس روپئے ماہانہ بطور مدد معاشی تاریخ تخت نشینی سے جاری کرنے کے احکام خود اپنے قلم سے تحریر کئے تھے ۔ ان احکام کی تعمیل میں ان کے نام سندیں جاری کی گئیں ۔ اصل صندیں آرکائیوز میں محفوظ ہیں ۔
آصف سابع کی تخت نشینی کے اندرون ڈھائی سال ایک ممتاز ہندو مذہبی رہنما گرو سوامی دانا مامل حیدرآباد آئے تھے ۔ ان کی آمد پر ان کے ہمراہ آنے والوں کے اخراجات اور سوامی جی کو اعزام پیش کرنے کیلئے آصف سابع کا فرمان مورخہ 30 محرم 1331ھ 29 ڈسمبر 1913 جاری ہوا تھا ۔ چنانچہ اس فرمان کی تعمیل میں سوامی جی کے ساتھ آنے والوں کے اخراجات کے لئے چھ سو روپئے اور خود سوامی جی کیلئے ایک دوشالہ اور پانچ مہر اشرفی کی خلعت دی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ ان کے خیرمقدم کیلئے جمعیت ، باجہ اور ہاتھی بھیجے گئے تھے ۔
گرو دانا مامل کے دورہ حیدرآباد کے تقریباً ایک سال بعد ان کے ہم مرتبت مذہبی رہنما سوامی پر تہیوانی بھانیکرمٹ کنجی کی مارچ 1915ء میں حیدرآباد آنے کی اطلاع ملی ۔ عرض داشت پیش ہونے پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 21 ربیع الثانی 1332ھ ، 8 مارچ 1915 کے ذریعہ سوامی جی کیلئے پانچ سو روپئے بطور رخصتانہ اور پچاس روپئے کا دو شالہ بطور خلعت دینے کی منظوری دی ۔
آصف جاہی دور میں مندروں کو مقررہ معاش کے علاوہ پجاریوں کو بھی گذر بسر کیلئے تا حیات ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا ۔ کسی مندر کے پجای کے فوت ہوجانے پر اس کے پسماندگان کے ناظم وظیفہ جاری کردیا جاتا تھا ۔ حسب ذیل مثال سے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے ۔ جب دیول سیتارام باغ کے پجاری پنڈت رام بلاس فور ہ وئے تو ان کے پسماندگان کی پرورش کیلئے آصف سابع نے فرمان مورخہ 15 ربیع الثانی 1358ھ 25 مئی 1939 ء کے ذریعہ پنڈت رام بلاس متوفی کے فرزند جے بھگوان داس کے نام بیس روپئے ماہوار تا حیات جاری کرنے کی منظوری دی ۔
حکومت حیدرآباد کی جانب سے مجموعی طور پر ریاست کے مندروں کے علاوہ انفرادی طور پر چند خاص مندروں کو اراضی معاش اور نقد معاش مقرر تھی ۔ ریاستی آرکائیوز میں محفوظ ایک مثل سے جو حسب ذیل اعداد و شمار دستیاب ہوئے ہیں وہ اگست 1948 ء کے ہیں یعنی میر عثمان علی خان آصف سابع کے اقتدار کے خاتمے سے صرف ایک ماہ قبل کے ۔ ریاست حیدرآباد کے مندروں کیلئے پانچ لاکھ پینتالیس ہزار تین سو چونتیس روپئے اراضی معاش کی صورت میں مقرر تھے ۔ یہ اراضی مندروں کو جاگیر یا انعام کی شکل میں دی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ مندروں کو انہتر ہزار نوسو پچپن روپئے کی رقم نقد معاش کی صورت میں دی جاتی تھی ۔ ریاست کے جن خاص مندروں کیلئے معاشیں مقرر تھیں ان میں دیول یادگار پلی تعلقہ بھونگیر ، مہٹہ بالکداس ، دیول سہکر واقع ماہوار ضلع عادل آباد ، دیول سیتارام باغ اور دیول جام سنگھ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ جنہیں علی الترتیب بیاسی ہزار آٹھ سو پچیس روپئے ، ساٹھ ہزار روپئے ، ساٹھ ہزار روپئے ، پچاس ہزار روپئے اور دس ہزار روپئے کی معاشیں جاری تھیں۔ اس کے علاوہ دیول بھدراچلم کو انیس ہزار اور بیرون ریاست کے مندر سری بالاجی تروپتی کیلئے 8 ہزار روپئے کی معاشیں بحال تھیں ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی مذہبی خدمات کی انجام دہی کیلئے ایک سو چھ معاشیں غیر مسلموں کے نام مقرر تھیں ۔ یہ مشروط الخدمت معاشیں نقدی یا اراضی کی صورت میں مقرر تھیں ۔ جنہیں مسجد و درگاہوں یا عاشورخانوں کی خدمت ، تعزیہ داری اور ایستادگی علم کے سلسلے میں جاری کی گئی تھیں ۔
آصف سابع نے ہندو رعایا کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا بھی پورا خیال رکھا ۔ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں میں عیسائیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شہر حیدرآباد اور سکندرآباد کے علاوہ اضلاع میں گرجا گھر تھے ۔ریاست میں مشن اسکولں ، مشن دواخانوں اور اقامت خانوں کی تعداد بھی کافی تھی ۔ آصف سابع نے گرجا گھروں ، مشن اسکولوں ، مشن دواخانوں اور اقامت خانوں کو جی کھول کر امداد دی تھی ۔ آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 17 شوال 1330ھ 29 ستمبر 1912 برقی روشنی کیلئے میتھوڈسٹ چرچ کیلئے پانچ سوا اور رومن کیتھولک چرچ کو تین ہزار روپئے منظور کئے ۔ دہلی میں ایک بڑے چرچ کی تعمیر کی اطلاع ملنے پر آصف سابع نے کسی عرض داشت یا نمائندگی کے بغیر فرمان مورخہ 9 رجب 1352ھ م 29 اکٹوبر 1933ء کے ذریعہ اس چرچ کیلئے پندرہ ہزار کلدار کا عطیہ روانہ کرنے کے احکام دئے ۔ ڈورنگل میں نئے گرجا گھر کی تعمیر کے موقع پر اس چرچ کے بشپ نے آصف سابع سے رقمی امداد منظور کرنے اور افتتاحی تقریب کیلئے پیام روانہ کرنے کی درخواست کی ۔ اس سلسلے میں آصف سابع کی خدمت میں جو عرض داشت پیش کی گئی تھی اس میں پانچ سو روپئے کا عطیہ منظور کرنے کی سفارش کی گئی تھی ۔ لیکن انہوں نے بذریعہ فرمان مورخہ 13 ذی قعہدہ 1357ھ م 5 جنوری 1939ء تین ہزار روپئے بطور عطیہ اور پیام روانہ کرنے کے احکام دئے ۔ آصف سابع نے سلور جوبلی فنڈ سے جن اداروں کو امداد دینے کی منظوری دی تھی ان میں متعدد مشن اسکول ، اقامت خانے اور مشن دواخانے شامل تھے ۔ پارسیوں کو بھی ایران میں واقع مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے بذریعہ فرمان مورخہ 17 جمادی الاول 1355ھ م 6 اگست 1936 ء چھ ماہ کی رخصت خاص پیشگی تنخواہ کے ساتھ منظور کی گئی ۔ ریاست حیدرآباد میں درج فہرست ذاتوں ( ایس سیز ) کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ حیدرآباد میں ان ذاتوں کیلئے اقدام درج فہرست کی اصطلاح مروج تھی ۔ ان درج فہرست ذاتوں کا قومی سطح پر ایک بڑا جلسہ ان کے انسانی و سیاسی حقوق پر غور و خوض کیلئے منعقد ہوا تھا ۔ جس میں ان کے دس ہزار نمائندوں نے شرکت کی تھی ۔ اس نمائندہ جلسہ میں درج فہرست ذاتوں نے اپنے حقوق کی تائید و حمایت میں جو قراردادیں منظور کی تھیں ان میں سے ایک قرارداد حکومت ریاست حیدرآباد کے نام شکریہ کے طور پر روانہ کی گئی تھی جس کی نقل ذیل میں درج کی جارہی ہے ۔
’’ یہ جلسہ حضور نظام کی حکومت کا شکرگذار ہے کہ وہ اچھوتوں ( درج فہرست ذاتوں ) کی تعلیمی پستی کو دور کرنے کیلئے پوری دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے ۔ حکومت نظام نے اچھوتوں کی تعلیم کیلئے خاص طور پر ایسی درسگاہیں قائم کی ہیں جن کی مثال ہندوستان میں موجود نہیں ۔ یہ جلسہ دیگر والیان ریاست سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اعلی حضرت کے ان شریفانہ جذبات کی تقلید کریں ‘‘۔