آصف سابع…علم دوست حکمراں

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
آصف جاہی خاندان اور سابق ریاست حیدرآباد کے ساتویں اور آخری حکمراں نواب میر عثمان علی خان آصف سابع (دور حکمرانی 1948-1911 ئ) کو علم و ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ اس گہرے لگاؤ نے علمی و ادبی کتابوں کی قدردانی اور ان کی اشاعت کیلئے مالی اعانت اور سرپرستی کی شکل اختیار کرلی تھی۔ علم دوست امراء و روساء مصنفین کی تصانیف اور مرتب کردہ کتابوں کی اشاعت اور اشاعت کے بعد خریدی کتب کیلئے فیاضی کے ساتھ مالی اعانت کیا کرتے تھے اور اب بھی اس زمرہ سے تعلق رکھنے والے حضرات اس کام کیلئے پیچھے نہیں ہٹتے لیکن نواب میر عثمان علی خان نے اس سلسلہ میں اپنی اور اپنی حکومت کی ایک خاص پالیسی متعین کی تھی ۔ وہ صرف کسی ادیب یا محقق کی بطور چاریٹی Charity یا حوصلہ افزائی کیلئے مدد کر دینے سے بڑھ کر علمی تحقیقی اور ادبی تصانیف کی تیاری ، ترتیب اور طباعت کے پراجکٹوں کیلئے منصوبہ بند انداز میں بھاری رقومات ایصال کرتے تھے ۔ اس پالیسی پر عمل آوری کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ تصنیف و تالیف اور طباعت و اشاعت کے کام باقاعدگی کے ساتھ منصوبہ بند انداز میں انجام پاتے تھے ۔ اس قسم کے پراجکٹوں کیلئے نواب میر عثمان علی خان نے جو مالی مدد کی تھی اس کے بغیر علم و ادب کے ان کارناموں کی انجام دہی ممکن نہ ہوتی۔ آندھرا اسٹیٹ ارکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ ریکارڈ اور دستاویزات سے حاصل کردہ مستند مواد تحقیق و توثیق کے بعد اس مضمون میں پیش کیا جارہا ہے ۔ اس مضمون میں چند لغات کی تالیف ، کتابوں کی تصنیف اور ان کی طباعت و اشاعت کے سلسلے میں جانے والی امداد کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ ان لغات اور کتابوں کے لئے برسوں تک بڑی رقومات دی گئی تھیں اور ان کاموں کو پراجکٹ کی حیثیت حاصل تھی ۔
حیدرآباد کی مشہور درسگاہ نظام کالج کے ایرنی پروفیسر آقا محمد علی کو ایران جاکر فارسی لغت ترتیب دینے کے لئے تین سو روپئے ماہوار مکمل یافت ، دو سو روپئے پرسنل الاؤنس اور اخراجات سفر کے ساتھ دو سال کی رخصت منظور کی گئی تھی ۔ دو سال رخصت کی مدت ختم ہونے پر پروفیسر آقا محمد علی نے مزید ایک سال کیلئے رخصت منظور کرنے کیلئے درخواست بھیجی ۔ نواب میر عثمان علی خان نے اپنے فرمان مورخہ 25 جنوری 1923 ء کے ذریعہ نصف تنخواہ کے ساتھ ایک سال کی رخصت منظور کی ۔ پروفیسرآقا محمد علی رخصت ختم ہونے پر حیدرآباد کو واپس ہوئے اور نظام کالج میں ا پنی خدمت پر رجوع ہوئے ۔ ان کی درخواست پر لغت کی ترتیب کے کام میں مدد دینے کی غرض سے بذریعہ فرمان 16 اگست 1928 ء چھ سال کی مدت کیلئے دو سو پچاس روپئے ماہانہ تنخواہ پر ایک مددگار اور چالیس روپئے ماہوار پر ایک اہلکار کی منظوری دی گئی ، اس کے علاوہ انہیں ایک چپراسی بھی فراہم کیا گیا اور صادر کے لئے رقمی منظوری بھی دی گئی، جب پروفیسر آقا محمد علی مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل نہ کرسکے تو اس کام کی تکمیل کیلئے توسیع منظور کی گئی ۔ جب لغت مکمل ہوگیا تو ارباب حکومت (کابینہ) کی سفارش پر نواب میر عثمان علی خان نے اپنے فرمان مورخہ 5 اگست 1941 ء کے ذریعہ پروفیسر آقا محمد علی کیلئے ساڑھے سات ہزار روپئے بطور انعام منظور کئے ۔ یہ لغت بعد میں حکومت حیدرآباد کی جانب سے ’’فرہنگ نظام‘‘ کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا۔ (اس فرہنگ کی تیاری اور اشاعت کے بارے میں ایک علحدہ مضمون اس کتاب میں شامل ہے)

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو لغات میں پائے جانے والے نقائص سے پاک ایک معیاری اور مستند اردو لغت کی ترتیب و اشاعت کی اسکیم تیار کر کے مالی امداد کی فراہمی کیلئے درخواست کی جس میں انہوں نے استدعا کی کہ اردو کے ایک جامع لغت کی ترتیب کیلئے انہیں ایک ہزار روپئے ماہانہ دس سال کی مدت تک دیئے جائیں۔ اس درخواست پر محکمہ تعلیمات ، محکمہ فینانس ار باب حکومت نے اردو کے ایک جامع لغت کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق کو اس کام کیلئے ہر پہلو سے موزوں قرار دیا اور چند شرائط کے ساتھ مالی امداد جاری کرنے کی سفارش کی ۔ نواب میر عثمان علی خان نے فرمان مورخہ 4 اگست 1930 ء کے ذریعہ مولوی عبدالحق کو دس سال تک ا یک ہزار روپئے ماہانہ امداد دینے کے احکام صادر کئے ۔اردو لغت کی تیاری کیلئے یہ امداد دس سال تک جاری رہی ، اس کے بعد مولوی عبدالحق کی درخواست پر اس لغت کی طباعت کی غرض سے مونو ٹائپ مشین کی خریدی کے احکام دیئے گئے اور پروف ریڈنگ کیلئے مولوی احتشام الدین کا دو سو پچاس روپئے کلدار ماہوار پر ایک سال کی مدت کیلئے تقرر عمل میں آیا ۔ اتنے مصارف کے باوجود اردو لغت شائع نہ ہوسکا کیونکہ لغت کا مسودہ حکومت حیدرآباد کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔

فارسی لغت آصف اللغات کی 17 جلدیں شمس العلماء عزیز جنگ ولا کا ایک نہایت اہم تحقیقی کام ہے ۔ عزیز جنگ ولا کی درخواست پر آصف جاہی خاندان کے چھٹے حکمراں نواب میر عثمان علی خان کے والد نواب میر محبوب علی خان (دور حکمرانی 1884 ئ۔ 1911 ئ) نے آصف اللغات کی ہر جلد کے شائع ہونے پر پانچ سو روپئے بطور انعام منظور کئے تھے ۔ بعد ازاں عزیز جنگ نے نواب میر عثمان علی خان کے حکمراں بننے کے بعد ان کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی جس میں انہوں نے لکھا کہ آصف اللعات کی ہر جلد کی طباعت کے حقیقی مصارف ایک ہزار چار سو ساٹھ روپئے ہیں جو امداد انہیں حکومت ہند اور حکومت حیدرآباد سے مل رہی ہے ، اس کی مجموعی رقم ا یک ہزار ایک سو اسی روپئے ہے اور یہ رقم اصل مصارف دو سو اسی روپئے سے کم ہے ۔ یہ رقم وہ اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں ۔ لغت کی فروخت سے بھی ان کے نقصان کی پابجائی ممکن نہیں ہے کیونکہ لغت کے تمام نسخے وہ حکومت ، کتب خانوں اور علم دوست حضرات کو بطور نذرانہ پیش کردیتے ہیں ۔ اس درخواست پر نواب میر عثمان علی خان نے فرمان مورخہ 16 جنوری 1913 ء کے ذریعہ حکم دیا کہ آصف اللغات کی ہر جلد پر جو پانچ سو رپوئے انعام دیا گیا اور آئندہ دیا جائے گا ، اس میں دو سو اسی روپئی فی جلد اضافہ کیا جائے۔
فرہنگ آصفیہ نہ صرف نہایت مستند اردو لغت ہے بلکہ یہ ایک نہایت اعلیٰ علمی و تحقیقی کارنامہ بھی ہے ۔ فرہنگ آصفیہ کی اشاعت اور خریدی کے لئے آصف جاہی خاندان کے چھٹے حکمراں نواب میر محبوب علی خان کے عہد میں حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے مالی امداد جاری ہوئی تھی ، علاوہ ازیں اس کے مولف سید احمد دہلوی کے نام پچاس روپئے ماہوار وظیفہ بھی جاری ہوا تھا ۔ نواب میر عثمان علی خان کے ابتدائی عہد حکومت میں سید احمد دہلوی نے ایک معروضہ پیش کیا کہ ان کا وظیفہ ان کے بیٹے کے نام منتقل کردیا جائے ۔نواب میر عثمان علی خان نے نہ صرف استدعا قبول کرتے ہوئے سید احمد دہلوی کا وظیفہ ان کے بیٹے کے نام منتقل کیا بلکہ سید احمد دہلوی کیلئے دوبارہ بطور خاص پچاس روپئے ماہوار تاحیات منظور کئے ۔ یہ احکام فرمان مورخہ 23 فروری 1915 ء کے ذریعہ صادر ہوئے ۔ سید احمد دہلوی کو دوبارہ وظیفہ جاری ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد دہلی کی ممتاز علمی و ادبی شخصیتوں نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک محضر روانہ کیا جس میں فرہنگ آصفیہ کی اس کے مولف سید احمد صاحب سے نظر ثانی کرواکے اسے دوبارہ چھاپنے کیلئے مالی امداد دینے کی استدعا کی گئی ، اس کے علاوہ فرہنگ کا ایک خلاصہ اور لغات النساء علحدہ چھپوانے کیلئے بھی مالی اعانت کی درخواست کی گئی۔ اس درخواست پر نواب میر عثمان علی خان نے فرمان مورخہ 20 ستمبر 1916 ء کے ذریعہ فرہنگ آصفیہ کی طبع ثانی اور اس کی خریدی کیلئے دس ہزار روپئے کی منظوری اور خلاصہ فرہنگ کے پانچ سو نسخوں اور لغات النساء کے دو سو پچاس نسخوں کی خریدی کے ا حکام صادر کئے ۔
اردو کے ممتاز ناول نویس اور صاحب طرز انشاء پرواز عبدالحلیم شرر کو نواب میر عثمان علی خان نے اپنی سوانح عمر لکھوانے کیلئے منتخب کیا تھا اور اس کام کیلئے ان کا تقرر سابق میں منظور کئے گئے ، ایک سو روپئے ماہا نہ وظیفہ کے علاوہ چار سو روپئے ماہوار پر کیا گیا تھا ۔ شرر حیدرآباد آکر اس کام کا آعاز کرچکے تھے کہ نواب میر عثمان علی خان نے ارادہ تبدیل کردیا اور انہوں نے عبدالحلیم شرر سے اپنی سوانح عمری لکھوانے کی بجائے تاریخ اسلام لکھوانے کا ارادہ کیا ۔ 27 اگست 1918 ء کو نواب میر عثمان علی خان کے یہ احکام صادر ہوئے کہ چار سو روپئے ماہوار کی بجائے پانچ سو روپئے ماہوار پر تاریخ اسلام تصنیف کرنے کے لئے عبدالحلیم شرر کا تقرر عمل میں آیا ہے ، وہ اپنے وطن میں رہ کر اس کام کو انجام دیں۔ عبدالحلیم شرر نے مقررہ مدت میں اس کام کا صرف پہلا حصہ مکمل کیا ۔ مقررہ مدت میں کام مکمل نہ ہونے پر شرر کی درخواست پر اس کام کیلئے ایک سال کی توسیع دی گئی ۔ توسیع شدہ مدت کے ختم ہونے پر عبدالحلیم شرر نے مزید توسیع منظور کرنے کیلئے درخواست دی لیکن ان کی درخواست نامنظور ہوئی اور منظورہ ماہوار رقم موقوف کردی گئی ۔ شرر کو تاریخ اسلام کے دوسرے حصے کو مکمل کرنے میں مزید ایک سال دو ماہ لگے اور انہوں نے اس تکمیل شدہ کام کو ایک درخواست کے ساتھ روانہ کیا جس پر نواب میر عثمان علی خان نے 17 اکتوبر 1922 ء کو یہ احکام جاری کئے کہ عبدالحلیم شرر تین سال کے بعد بلا ماہوار کام کر رہے تھے ۔ تاریخ مسدودی ماہوار سے کام مکمل کرنے کی تار یخ تک جو مدت ہوتی ہے ، اس مدت کیلئے انہیں سابقہ شرح ماہوار کے حساب سے یکمشت رقم ادا کردی جائے ۔ اس حکم کی تعمیل میں شرر کوایک سال دو ماہ کا معاوضہ ایصال کردیا گیا ۔ اس طرح عبدالحلیم شرر نے تاریخ اسلام کی دو جلدیں چار سال دو ماہ میں تصنیف کیں جس کا معاوضہ انہیں پچیس ہزار روپئے ادا کیا گیا ۔
علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی معرکتہ الاراء تصنیف سیرۃ النبی چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ شبلی نے سیرۃ النبی کے سلسلے میں جو کام کیا تھا اسے ترتیب دے کر ان کے عزیز شاگرد مولانا سلیمان ندوی نے جلد اول اور جلد دوم کی صورت میں شائع کیا اور سیرۃ النبی کی اگلی جلدیں خود تصنیف کیں۔ نواب میر عثمان علی خان نے مولانا سلیمان ندوی کی درخواست پر سیرۃ النبی کی تکمیل کیلئے فرمان مورخہ 9 فروری 1919 ء کے ذریعہ پہلی بار دو سو روپئے کلدار ماہوار امداد منظور کی تھی جو بیس سال کے دوران میں چند درمیانی وقفوں کے ساتھ چودہ سال تک دی گئی ۔ سابق ریاست حیدرآباد کی جانب سے کسی اور تصنیف کو اتنے طویل عرصے تک مالی امداد نہیں دی گئی ۔ 1920 ء کے قریب دارالمصنفین میں انگریزوں کے خلاف سیاسی سرگرمیاں زوروں پر تھیں۔ اس لئے حکومت ہند کی خواہش پر رز یڈنٹ حیدرآباد نے سیرۃ النبیؐ کو دی جانے والی امداد کو مسدود کرنے کیلئے حکومت حیدراباد کو دو مراسلے لکھے لیکن نواب میر عثمان علی خان نے مجبوری ظاہر کی اور امداد کو مسدود کرنے سے اتفاق نہیں کیا ۔ عثمان علی خان کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مولانا سلیمان ندوی کسی محنت وقت نظر اور عالمانہ انداز میں سیرۃ النبی کی تصنیف کر رہے تھے ۔ نواب میر عثمان علی خان ، مولانا کے علمی مرتبے سے تو واقف تھے لیکن جب انہوں نے مولانا کو بازیاب ہونے کا موقع دیا تو انہیں مولانا کی ذاتی خوبیوں کا بھی اندازہ ہوا ۔ چنانچہ انہوں نے مولانا سلیمان ندوی کو معاشی آسودگی فراہم کرنے کی غرص سے 5 جولائی 1938 ء کے فرمان کے ذریعہ مولانا کی ذات کیلئے ایک سو روپئے ماہوار جاری کرنے کے احکام صادر کئے۔

حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کی دو جلدیں شائع ہونے کے بعد مالی مشکلات کے باعث تیسری جلد کی تکمیل اور اشاعت میں رکاوٹ اور تاخیر ہورہی تھی ۔ اس مرحلے پر خود حفیظ جالندھری مالی اعانت حاصل کرنے کیلئے حیدرآباد آئے تھے ۔ شاہنامہ اسلام کی تکمیل کی غرص سے مالی امداد دینے کیلئے جب عرضداشت نواب میر عثمان علی خان کے ملاحظے میں پیش ہوئی تو انہوں نے مالی امداد کی منظوری دینے کی بجائے یہ حکم دیا ’’شاہنامہ اسلام جو یہ تصنیف کر رہے ہیں ، اس کے چند اوراق میں دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہو کس قسم کا کام ہے ۔ اس کے ملاحظے کے بعد اجرائی ماہوار کے متعلق غور ہوگا ۔ اس حکم کی تعمیل میں شاہنامہ اسلام کی دو جلدیں ان کے ملاخطہ میں پیش کی گئیں جنہیں دیکھ کر انہوں نے فرمان مورخہ 15 جولائی 1937 ء کے ذریعہ حفیظ جلندھری کے نام شاہنامہ اسلام کی تصنیف کیلئے تین سو روپئے کلدار ماہانہ تین سال کیلئے جاری کرنے کے احکام صادر کئے ۔ جب امداد کی سہ سالہ مدت ختم ہوئی تو امداد کی مدت میں توسیع کیلئے حفیظ جالندھری نے درخواست پیش کی جس پر نواب میر عثمان علی خان نے بذریعہ فرمان مورخہ 15 ڈسمبر 1940 ء شاہنامہ اسلام کی تکمیل کیلئے تین سو روپئے کلدار ماہوار مزید تین سال کیلئے منظور کئے ۔اس طرح شاہنامہ اسلام کی تیسری اور چوتھی جلد کی تکمیل اور اشاعت سابق ریاست حیدرآباد کی سرپرستی ہی کا نتیجہ تھی ۔
پونا کا بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سنسکرت مبان و ادب اور ہندوستان کی قدیم ثقافت پر تحقیقی کاموں کے لئے مختص رہا ہے ۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے ایک درخواست کے ذریعہ انسٹی ٹیوٹ کے مختلف کاموں کے علاوہ مہا بھارت کی اشاعت کیلئے رقمی امداد منظور کرنے کی استدعا کی ۔ اس درخواست پر نواب میر عثمان علی خان نے فرمان 16 ستمبر 1932 ء کے ذریعہ مہا بھارت کی اشاعت کیلئے دس سال کے لئے ایک ہزار روپئے کلدار سالانہ امداد دینے کے احکام دیئے ۔ جب یہ دس سالہ مدت ختم ہونے کو تھی تو بھنڈارکر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے اس کام کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے امداد کی مدت میں توسیع کرنے کی درخواست کی ۔ اس درخواست پر مہا بھارت کی اشاعت کی غرص سے مزید ایک سال کیلئے پانچ سو روپئے کلدار سالانہ امداد منظور کی گئی ۔
اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس قسم کے مزید چند پراجکٹوں کو ریاست حیدرآباد کی حکومت اور نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی مدد ، اعانت اور سرپرستی حاصل ہوئی ہو۔ اس تعلق سے ریکارڈ دستیاب ہونے پر حاصل تحقیق کسی اور مضمون میں پیش کیا جائے گا ۔