آسام کے پناہ گزین کیا ہندوستان کیلئے خطرہ ہیں ؟

رام پونیانی
بی جے پی نے 2014 کے انتخابات میں ’’ سب کا وکاس‘‘ کے نعرہ کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی لیکن گزشتہ 4 برسوں میں کسی کا کچھ وکاس نہیں ہوا تو اس نے اب ایک نیا ’’پنڈورا ڈبہ ‘‘ کھولدیا ہے جو کہ این آر سی میں شہریوں کے اندراج میں آسام کے لاکھوں افراد کو شامل نہ کرتے ہوئے انہیں بنگلہ دیش کے مسلمان ظاہر کرتے ہوئے ان پناہ گزینوں کو ہندوستان کی سیکورٹی کیلئے خطرہ ثابت کرنا شروع کردیا ہے۔ این ڈی اے کی زیر سرپرستی بی جے پی حکومت کو اندازہ ہوچکا ہے کہ جن نعروں اور سبز باغ دکھاکر 2014 کے انتخابات پر ہاتھ مارا گیا تھا وہ دھوکے بازیاں اب کام آنے والی نہیں ہیں تو پھر اس نے مذہب کے نام پر اپنی گندی سیاست کی گاڑی کو پھر سے دھکا دینا شروع کردیا ہے جس کے لئے اس نے آسام میں این آر سی کے مسودہ کو اپنا انتخابی ہتھیار بنالیا ہے۔ آسام میں این آر سی کے مسودہ میں جن افراد کے نام شامل نہیں کئے گئے ہیں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے اور گمان کیا جارہا ہے کہ یہ بنگلہ دیشی مسلمان ہیں جوکہ ریاست آسام میں پناہ گز,ینوں کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے ان پناہ گزینوں کو ہندوستان کی سیکورٹی کیلئے خطرہ ثابت کرنے کیلئے نہ صرف بی جے پی بھکتوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنے انتخابی ہتھیاروں کو تیز کرنا شروع کردیا ہے۔ حالانکہ جن لاکھوں افراد کو این آر سی کے مسودہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ان میں صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ نیپال اور مغربی بنگال کی ہندو آبادی بھی شامل ہے جو این آر سی میں اپنا نام شامل نہیں کرپائی ہے۔ این آر سی کی فہرست میں جن افراد کے نام شامل نہیں ہیں ان کے ذہنوں میں کئی سوال ہیں اور وہ تذبذب کا شکار بھی ہیں حالانکہ سپریم کورٹ انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ دوسری جانب آسام کی پڑوسی ریاست مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی نے این آر سی کے مسودہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
آسام میں این آر سی کے ان نتائج کے بعد مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی مردم شماری کیلئے این آر سی کا شمار کیا جانا چاہیئے اور فرقہ پرست طاقتیں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر اپنے مفادات کی روٹیاں سینکنا چاہتی ہیں۔ این آر سی کے آسام میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کی موجودگی کا یہ مسئلہ نیا نہیں ہے بلکہ 1992-93 میں بم دھماکوں کے بعد بھی یہ مسئلہ عروج پر تھا جبکہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں تو آئے دن اس مسئلہ کو گرمایا جاتا ہے اور اس کی تازہ کڑی روہنگیا مسلم آبادی کا مسئلہ بھی ہے جسے دہلی میں کافی گرمایا گیا ہے۔ آسام میں اس طرح کا مسئلہ اٹھانا پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ آسام کے سیاسی تاریخی واقعات ایسی کئی مثالیں پیش کرتے ہیں جیسا کہ سب سے پہلے انگریزوں کے دور حکومت میں بھی ایسا ہی مسئلہ اُٹھا تھا جسے ’’ ہیومن پلانٹیشن پروگرام ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت بنگال کے کثیرآلابادی والے علاقوں سے عوام کو آسام کی طرف نقلِ مکانی کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ بنگال سے آسام کی طرف نقل مکان کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی کی وجہ یہ تھی کہ بنگال میں آبادی کے زیادہ بڑھ جانے سے کئی مسائل پیدا ہورہے تھے تو دوسری جانب آسام میں زندگی بسر کرنے کیلئے بنیادی وسائل موجود تھے اور اس وقت جو عوام بنگال سے آسام کی طرف نقل مکانی کررہے تھے ان میں ہندو اور مسلم دونوں طبقات شامل تھے اور تقسیم ہند کے وقت آسام میں مسلم آبادی بہت زیادہ تھی جس کے پیش نظر محمد علی جناح نے مطالبہ کیا تھا کہ آسام کو پاکستان میں شامل کیا جائے۔
بعد ازاں پاکستانی فوج کی کارروائی کے بعد خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے کئی افراد مشرقی بنگال سے آسام کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے جبکہ بنگلہ دیش بھی معاشی اعتبار سے پسماندہ علاقہ تھا۔ یعنی جس وقت پاکستانی فوج کی کارروائیاں بنگال کے علاقوں میں جاری تھیں اس وقت مشرقی بنگال کی آبادی نے آسام کی طرف نقل مکانی میں عافیت تلاش کی اور اس طرح ایک بڑی آبادی آسام کی طرف چل پڑی۔
جہاں تک این آر سی کا موقف ہے کہ جن افراد کو اس کی شہریت کی فہرست میں جگہ نہیں دی گئی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ان افراد کے پاس مستند دستاویزات نہیں ہیں اور کچھ دستاویزات جعلی ہیں حالانکہ ایک بڑی آبادی کی ایک سے زیادہ نسلیں یہیں پلی اور بڑی ہوئی ہیں اور ان کے بچوں کے ساتھ یہ اب روز کا معمول بن چکا ہے کیونکہ آبادی کی اکثریت غریبوں پر مشتمل ہے اور انہیں دو وقت کی روٹی کیلئے ہی دن بھر سخت محنت کرنی پڑتی ہے تو بھلا وہ کیسے قیمتی دستاویزات کے حصول میں سرگرداں ہوجاتے ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کے مالدار افراد بینکوں کو کروڑہا روپئے کا چونا لگاکر بیرون ممالک عیش کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
آسام کو ایک بڑے مسئلہ کے طور پر پیش اس لئے کیا جارہا ہے کہ کیونکہ یہاں کے پناہ گزین مسلمان ہیں اور ان کا تعلق بنگلہ دیش سے بتایا جارہا ہے اور انہیں ہندوستانی سیکورٹی کے لئے خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے کی حکومتوں نے بھی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو ہندوستان سے بیدخل کیا تھا لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو پناہ گزین سطح غربت سے بھی نچلی زندگی بسر کررہے ہیں ان کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیئے۔ ہندوستان حالانکہ ایک بہت بڑے دل کا میزبان ملک ثابت ہوا ہے،ہم نے ٹامل بولنے والے سری لنکائی افراد کو قبول کیا ہیے اور تبت کے بدھسٹوں کو پناہ دی ہے اور تو اور افغانستان سے آنے والے ہندوؤں کے لئے بھی میزبانی کی تجویز ہے۔ اگر این آر سی کے قطعی مسودے پر کارروائی کرتے ہوئے ہم ان آسامی افراد کو بنگلہ دیش بھیجتے ہیںتو کیا بنگلہ دیش انہیں قبول کرے گا؟ جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں انہیں کیمپوں میں رکھا جائے گا؟ اس طرح کی کارروائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جس طرح ہم نے سری لنکائی ٹامیلین اور تبت کے بدھسٹوں کو قبول کیا ہے اسی طرح ایک جامع منصوبہ تیار کیا جانا چاہیئے جس سے ان غریب عوام کو ہندوستان کی ترقی میں اپنا رول ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیئے۔