سیتارام یچوری
مجموعی طورپر آر ایس ایس کی نئی صورت گری ایک کاوش ہے تاکہ اس کے بارے میں سوچ تبدیل ہوجائے ۔ ایک مشہور پُرانی کہاوت ہے کہ : ’’تیندوا اپنے جسم پر موجود نشانات کو تبدیل نہیں کرسکتا ‘‘ ۔
موہن بھاگوت کے تین روزہ لکچر میں آر ایس ایس کو ایک جدید ، بشمول آزاد تصویر میں پیش کرنے کی کاوش کی گئی جو اپنے کردار میں دو رُخا پن یعنی منافقت رکھتا ہے ۔ یہ اس لئے ضروری تھا کہ تاکہ نوجوانوں کو اپنی شاکھاؤں میں شامل کرنے کے لئے ’’ویایم شالاس‘’ یعنی باڈی بلڈنگ کلبس کے ذریعہ انھیں اپنی جانب راغب کیا جائے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات پر دی گئی کہ بھولی بھالی عوام کے ذہنوں سے اس بات کو کھرچ دیا جائے کہ آر ایس ایس ایک سخت گیر ہندو تنظیم ہے جس کیلئے یہ بیان دیا گیاکہ ’’ہندو راشٹرا ‘‘ کا مطلب صرف ہندوؤں کے لئے نہیں ، اور نہ مسلمانوں کیلئے اس ملک میں نفی کی جائے گی۔
’’سنگھ‘‘ عالمی بھائی چارہ اور ’’کثرت میں وحدت‘‘ کے دونوں اصولوں پر کام کرتی ہے ۔ ہماری یہ سوچ ہمارے اپنے کلچر سے آئی ہے جس کو عالم میں ’’ہندوتوا‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اس ( ہندوستان) کو ’’ہندوراشٹرا‘‘ کہتے ہیں۔
اب آئیے دو الفاظ ’’ہندوتوا‘ اور ’’ہندوراشٹرا‘‘ کی طرف لفظ ہندوتوا کو 1923 ء میں وی ڈی ساورکر نے ملقب کیا تھا اور کہا تھا کہ مذکورہ لفظ کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ ایک سیاسی پراجکٹ تھا جو ہندوقوم بنانے کیلئے ایجاد کیا گیا تھا ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ساورکر نے ایک نعرہ دیا تھا : ’’ہندووائز دی ملٹری، ملٹرائز دی ہندوڈوم‘‘ اس نعرہ میں بنیادی دباؤ اس بات پر تھا کہ کس طرح تمام مذاہب ، عقائد اور فرقوں کو یکجا کیا جائے جو ہندوستان کو بیک وقت مادرِ وطن اور مقدس سرزمین سمجھتے ہوں جس میں سے مسلمان اور کرسچین علحدہ ہیں۔سابق آر ایس ایس چیف ایم ایس گولوالکر نے اپنی تھیسس میں لکھا کہ ’’ہم یا ہماری قومی پن ‘‘ کی وضاحت 1939 ء میں اس طرح کی کہ آر ایس ایس کاہندو راشٹرا کا ویژن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے لئے گولوالکر نے نظریاتی نیٹ ورک اور آئیڈیالوجی کے حامل بنیادوں پر اُسے منظم کیا تاکہ آر ایس ایس کا ’’فاشسٹ ہندو راشٹرا‘‘ کے پراجکٹ کو مکمل کیا جائے۔
یہاں انھوں نے غیرہندوؤں کے کردار کو تحریر کرتے ہوئے کہا کہ : (اس ملک میں رہنے والوں کو) صرف دو طریقوں سے اجنبیوں (یعنی غیر ہندوؤں) کو رہنے کی اجازت ہوگی ، پہلی یہ کہ وہ اس ملک میں رچ بس جائیں ، اس کے کلچر کو اپنالیں یا پھر اس ملک میں پہلے سے موجود قوم کے رحم و کرم پر زندہ رہیں… کہ وہ ہندو مذہب کااحترام کریں اور جو کچھ بھی ہندو مذہب اور کلچر کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں یعنی بالفاظ دیگر وہ اپنی منفرد (مذہبی) شناخت سے پہلوتہی کرلیں۔ ( پی پی 47 تا 48)
بعد ازاں ، 1966 ء میں ایک کتاب بنام ’’بُک آف تھاٹس‘‘ کے ایک باب میں بعنوان اندرونی خوف ( برائے ہندو راشٹرا) میں فہرست سے مسلمانوں ، عیسائیوں اور دہریوں کو نکال دیا گیا۔ بھاگوت نے کہاکہ کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ’لافانی‘ نہیں ہے وہ صرف ایک تسلسل میں ذیلی طورپر آگیا ہے جس کو ہم نے باقی نہیں رکھا ہے ( بلکہ اس سے ہم پہلوتہی کرتے ہیں) لیکن بھاگوت نے واضح طورپر گولوالکر کے مذکورہ خیال کی کھلی نفی نہیں کی ۔ یہی ہے وہ نکتہ کہ آج ہندوستان میں تقریباً 200 ملین مسلمانوں کو جو یہاں رہتے ہیں یقینا اُنھیں برطرف نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ’’ہندوراشٹرا‘‘ میں ان کی کیا حیثیت ہوگی؟ جبکہ ہندوستان کاقومی دستور تمام شہریوں کو ، بلالحاظ مذہب ، ذات پات ، جنس وغیرہ ’مساوی شہری حقوق ‘ دیتا ہے تاکہ وہ سب کے برابر باعزت ، باوقار انداز میں ’’آزادی عمل و مذہب‘‘ زندگی گزارسکیں۔ کیا ان کے ہندوراشٹرا میں تمام شہریوں کو آزادی اور وقار کے ساتھ جینے کے لائق رہنے دیں گے؟
کیا وہ مساوی حقوق تمام شہریوں کو عزت و وقار اور آزادی عمل دیں گے ؟
اس کا عملی تجربہ مودی حکومت کے گزشتہ چار برسوں میں پہلے ہی ہوچکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بی جے پی ، آر ایس ایس کے ’’سیاسی بازو‘‘ کی حیثیت سے کام کرنے کی توثیق کرچکی ہے۔ مسلمانوں اور دلتوں پر بہیمانہ اور وحشیانہ قاتلانہ حملے بنام ’’گئو رکھشا‘‘ اور ان کی خانگی فوج جو ہمارے بچوں کو یہ ڈکٹیٹ کرتی ہے کہ ’’کیا پہننا چاہئے ، کیا کھانا چاہئے اور انھیں دوست کسے بنانا چاہئے ‘‘ اور جو اُن کے متذکرہ بالا ’’ناجائز احکامات‘‘ کی نفی کرتے نظر آئیں اُن پر ہجومی حملے کئے جاتے ہیں ، یا پھر ’’لوجہاد‘‘ کا نام دیکر بھی اُن پر حملہ کیا جاتا ہے ۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والے چھوٹے چھوٹے معصوم بچیوں کی عزت تار تار کی جاتی ہے ، جس سے عام ہندوؤں کے اذہان میں مسلمان اور دلتوں کے خلاف نفرت کا بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں ان کے خلاف دہشت گردی والے واقعات پیش آتے ہیں بطور خاص جہاں بی جے پی حکومتیں ہیں۔
یہ تجربہ گولوالکر کے ’’ہندوراشٹرا‘‘ کا ’’خطرناک تجربہ‘‘ ہے جس سے لفظ ’’ہندوراشٹرا‘‘ واضح ہوجاتا ہے۔
بھاگوت نے کئی دیگر مسائل پر بھی بات چیت کی ۔ گئورکھشا پر کئے گئے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل پر اور اس پر پھیلائی گئی دہشت پر بھاگوت نے کہا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ ہونی چاہئے ۔ تاہم اس معاملہ میں آر ایس ایس میں منافقانہ انداز اپنایا گیا ۔
جیسے ہی ہجومی تشدد پر آواز بلند کی گئی فوراً ہی ’’گئو اسمگلنگ‘‘ کا ہوّا کھڑا کیا گیا ۔ اسی کا نام کلاسیکی زبان میں ’’دو زبان والا سانپ‘‘ دیا گیاہے ۔ جبکہ ’’گئو اسمگلنگ‘‘ پر آج تک کوئی احتجاج نہیں کیا گیا ، اس لئے ’’ہجومی تشدد ‘ ‘ کو جائز ٹھہرایا گیا۔ تمام بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں جہاں یہ تشدد روا رکھا جاتا ہے وہاں ’’گئو تحفظ‘‘ کے قانون کو کیوں نافذ نہیں کیاجاتا ؟
بھاگوت نے ’’نئی تعلیمی پالیسی‘‘ کے بارے میں کہتے ہوئے انھوں نے ( جسے ہندو توا پڑھا جائے ) شامل کرنے کاعندیہ دیا جو ’’ویلیوبیس سسٹم‘‘میں ہو ۔
لسانی پالیسی کے بارے میں بھاگوت نے کہا کہ تمام زبانوں کی حفاظت کی جانی چاہئے تاہم ہمیں اپنی مادری زبان جیسے ’’سنسکرت‘‘ کا زیادہ احترام ہونا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ لٹریچر(ادب) کے ذریعہ اسے پروان چڑھانا چاہئے ۔
تبدیلی مذہب کے بارے میں بھاگوت نے کہا کہ یہ فلموں کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے انھوں نے بطور مثال ’’چرچ حاضری کیلئے رقم ادا کرنا بند کیا جانا چاہئے ‘‘ ۔ فلموں سے متاثر ہونے کی سوچ خود ’’آر ایس ایس ‘‘ ہی کی پیداکردہ ہے اورمذہبی اقلیتوں کے اداروں پر حملوں کو بھی مبنی بر انصاف مانتے ہیں۔ مجموعی طورپر یہ تمام معاملات آر ایس ایس کی نئی صورت گری ہے تاکہ اس کی شبیہ عوام کی نظروں میں بدل جائے ۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ : ’’تیندوا اپنے جسم پر موجود دھبوں کو کبھی بھی تبدیل نہیں کرسکتا ‘‘۔