پرافل بدوائی
کیا ہندوستان کے اصل دھارے کے ذرائع ابلاغ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دستور کی بنیادی اقدار سیکولرازم اور فراخدلی کو صرف وظیفہ لب بنائے رکھیں گے اور انتہا پسند تنظیم سنگھ پریوار کے ان پر روزانہ حملوں سے چشم پوشی کریں گے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مضبوطی سے اس تنظیم سے وابستہ ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی خاموشی جو کئی حالیہ تبدیلیوں پر اختیار کی گئی ہے ، نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ مثال کے طور پر کسی بھی روزنامہ نے اس بات کا نوٹ نہیں لیا کہ سنگھ پریوار کے نمائندے کو لندن میں مہاتما گاندھی کے مجسمے کی نقاب کشائی کے لئے مدعو کیا گیا تھا حالانکہ سنگھ پریوار نے ہی مہاتما گاندھی کے قتل کی تحریک دی تھی ۔ اس تقریب کا اہتمام زیادہ تر ’’ٹوریز‘‘ نے کیا تھا ، جنھیں مہاتما گاندھی سے کبھی محبت نہیں رہی ۔ ان کی نظریں آئندہ انتخابات میں گجرات کے ووٹ پر لگی ہوئی ہیں ۔
قبل ازیں اکتوبر 2012ء میں برطانیہ کے خوشحال گجراتی تاجر نے کیمرون حکومت کی تائید میں پیروی کی تھی تاکہ نریندر مودی سے اس کے خوشگوار تعلقات قائم ہوجائیں ۔ جنہیں 2002 کے مسلم کش فسادات میں ان کے کردار کی بنا پر عرصہ عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ یہ بہتر تعلقات ان کے وزارت عظمی کے امیدوار بننے سے بھی ایک سال قبل قائم ہوئے تھے ۔ اسے یہ کہتے ہوئے جواز بخشا گیا کہ گجرات کاروبار اور تعلیم میں گجرات ’’حرکیاتی اور فروغ پذیر‘‘ موقع پیش کرتا ہے ۔ سنگھ پریوار ایک عرصہ سے جنگ آزادی کے سورماؤں کو تقدیس عطا کرتا اور انھیں تسلیم کرتا رہا ہے ۔ ان میں دائیں بازو کے قدامت پرست سردار پٹیل شامل ہیں حالانکہ انھوں نے راشٹر سوئم سیوک سنگھ پر امتناع عائد کیا تھا ۔ سی راجگوپال چاری شامل ہیں حالانکہ ان کا سیکولرازم پر پختہ ایقان تھا اور وہ کشمیر کی خود اختیار کے بھی حامی تھے جس کی سنگھ پریوار سختی سے مخالفت کرتا ہے ۔ بھگت سنگھ بھی شامل ہیں جو اپنے عہد کے مطابق دہرئے تھے اور بنیاد پرست سوشلسٹ ہندوستان ریپبلکن پارٹی کے رکن تھے ۔
کئی اخبارات نے سنگھ پریوار کی زیادہ ہسٹیریائی مہم پر تنقید کی جو لو جہاد اور گھر واپسی کے بارے میں تھی ۔ گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کے مندر تعمیر کرنے کی بھی مہم چلائی گئی ۔ لیکن بہت کم لوگوں نے ان مقامات کے بارے میں کھل کر تنقید کی جہاں یہ مندر قائم کئے گئے ہیں ۔ ان لوگوں نے اسکے اثر کو بھی محسوس نہیں کیا جو پوری قوم پر مرتب ہوگا ۔ مذہبی اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھیں گی ۔ کئی تبصرہ نگارں نے پریوار کی اس دلیل کی تائید کی کہ تمام ہندوستانی مسلمان اور عیسائی ہندو دھرم سے مذہب تبدیل کرنے والے افراد ہیں (غلط بیانی ہے) چنانچہ وشوا ہندو پریشد کو حق ہے کہ ان کا مذہب دوبارہ تبدیل کروائے ۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتی اور اس کا سہرا دستوری طمانیت کے سربندھتا ہے جو ضمیر کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے ۔ گوڈسے کی مدح و ستائش صرف اخلاقی ردعمل نہیں ہے ۔ یہ پوری طرح سیاسی ماحول کو زہریلا بنانا ہے ۔
سنگھ پریوار اب عیسائی تعلیمی اداروں پر حملوں ، اکثریتی اور آر ایس ایس حامی پالیسیوں پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں زور دے کر ، ہندوستانی کونسل برائے تاریخی تحقیق میں فرقہ پرستانہ تقررات کے ذریعہ انھیں بڑھاوا دیا ہے ۔یہ سیکولر جمہوریت کے لئے گھر واپسی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا ۔ آر ایس ایس سرسنچالک موہن بھاگوت نے ایک ماہ قبل مدر ٹریسا پر الزام عائد کیا تھاکہ وہ فلاحی کام کی آڑ میں مذہب تبدیل کروارہی ہیں ۔ دہلی میں نوہفتوں میں پانچ گرجاؤں پر حملے کئے گئے ۔ دو کانونٹس میں زبردستی داخل ہوا گیا ۔ مغربی بنگال میں 71 سالہ راہبہ کی عصمت ریزی کی گئی اور حسار کے ایک گرجا میں توڑ پھوڑ مچائی گئی ۔ کیرالا ، ٹاملناڈو اور اترپردیش میں عیسائیوں کو مذہب تبدیل کروانے جارحانہ مہم چلائی گئی ۔
بی جے پی قائد سبرامنیم سوامی نے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ مسجدیں اور گرجا گھر ہندو مندروں کے برعکس مقدس مقامات نہیں ہیں جبکہ صرف عمارتیں ہیں جنھیں جب چاہے منہدم کیا جاسکتا ہے ۔ چیف منسٹر ہریانہ ایم ایل کھیڑ بھی ان سے کم نہیں ۔ انھوں نے ہسار کے حملہ آوروں کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ گرجا گھر کے پادری ہندو مردوں کو لالچ دے رہے ہیں اور انھیں دلہنوں کا تیقن دے رہے ہیں ۔ گویا کہ یہ ننگی جارحیت اور توڑ پھوڑ جائز تھی ۔ وی ایچ پی کے جوائنٹ جنرل سکریٹری سریندر جین بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتے ۔ انھوں نے 1857 ء کی مخالف برطانوی بغاوت کو ایک عیسائی دشمن جنگ قرار دیا اور کہا کہ اگر عیسائی تبدیلی مذہب کاسلسلہ جاری رکھیں تو ان کے خلاف ایسی ہی جنگیں لڑی جائیں گی ۔ انھوں نے ہسار میں گرجا گھر کے انہدام کو جائز قرار دیا اور سوال کیا کہ کیا ویٹیکن میں ہنومان مندر کی اجازت دی جائے گی ۔ اس سے بھی بدتر بات یہ کہ انھوں نے سوال کیا کہ راہباؤں کا جنسی استحصال عیسائی تمدن کا حصہ ہے ، ہندو تمدن کا نہیں ۔ پوپ اس بارے میں اتنے فکرمند ہیں کہ وہ ہم جنس پرستی کو فروغ دے رہے ہیں (دی ٹائمس آف انڈیا 16 مارچ)
بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں جمہوریت کا اثر کئی طریقے سے کم کررہی ہیں ۔ ملازمین کے آر ایس ایس میں شمولیت پر امتناع برخواست کردیا گیا ہے (چھتیس گڑھ) اسکولس میں بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی قرار دی گئی (ہریانہ) بڑا گوشت ، قبضہ میں رکھنے ،فروخت کرنے ، یا استعمال کرنے کی سزا پانچ سال سزائے قید (مہاراشٹرا) اور مویشیوں کو ذبح کرنے پر 10 سال سزائے قید (ہریانہ) ۔ ریاست گجرات نے 2000 ء میں اسی طرح آر ایس ایس پر سے امتناع برخواست کردیا تھا لیکن واجپائی کے احکام پر اسے واپس لے لیا ۔ لیکن سرکاری عہدیداروں اور پولیس تک پیغام پہنچ چکا تھا چنانچہ اس کے ہولناک نتائج 2002 میں سامنے آئے ۔
مودی حکومت کے آئی سی ایچ آر میں نئے تقررات کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ کونسل سے سیکولر ذہنیت کے محققین کو چن چن کر ہٹادیا گیا ہے ۔ 18 نئے تقررات میں سے ایک دو کے سوائے باقی سب افراد آر ایس ایس اور اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا سے قربت رکھنے والے افراد ہیں ۔ بعض ارکان کے خیال میں تاج محل ایک ہندو مندر ہے ۔ رامائن تاریخی حیثیت کی حامل ہے ۔ یہ مذہبی یا دیومالائی کتاب نہیں ہے ۔ آر ایس ایس اور خود بی جے پی کے دائیں بازؤ کی یہ یلغار آر ایس ایس اور بی جے پی کی وسیع تر مفاہمت کا اظہار کرتی ہے جس کا ثبوت حال ہی میں اختتام پذیر اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا سے ملتا ہے ۔ آر ایس ایس نے کم از کم فی الحال جموں و کشمیر حصول اراضی صدارتی حکمنامہ اور انشورنس وغیرہ میں بڑھتی ہوئی غیرملکی سرمایہ کاری کے سلسلہ میں بی جے پی سے اپنے اختلافات پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ معمولی اختلافات نہیں ہیں ۔ آر ایس ایس کو یقین ہے کہ اکثریت کے ساتھ بی جے پی کے برسراقتدار رہنے سے اسے ایک منفرد موقع ملا ہے کہ اصل دھارے کے سماجی اور تعلیمی اداروں پر قبضہ کرلے جزوی طور پر نہیں بلکہ جامع طور پر ۔ ایسے مسائل دوبارہ چھیڑے جنھیں طے شدہ سمجھا جاتا ہے جیسے ہندوازم کی سماجی ،تمدنی برتری ، مذہب کی تبدیلی وغیرہ ۔
اس سے ہندوستان کو ہندو معاشرہ قرار دینے میں مدد ملے گی ۔ ایسا کرنے اور فروغ پانے کے لئے آر ایس ایس کو مملکت کی طاقت کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ وہ بی جے پی کی معاشی پالیسیوں کی تائید کررہے ہے ۔ سنگھ پریوار قابل نظر انداز نہیں ہے ۔ یہ بی جے پی کا مساوی شراکت دار ہے ۔ مختصر یہ کہ بی جے پی ایک انتہا پسند پارٹی ہے ، سخت گیر توسیع پسند ہے ۔ اس کی ہندوؤں کی برتری کا نظریہ جمہوریت کے لئے ایک لعنت ہے ۔