آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ کی تعمیر

محمد عبدالقیوم
جامعہ عثمانیہ کسی مخصوص عمارت کا نام نہیں ہے بلکہ یونیورسٹی کیمپس میں مختلف کالجوں کی علحدہ علحدہ عمارتیں ہیں۔ ان سب میں بلحاظ وسعت و فنی خصوصیات آرٹس کالج کی عمارت کو اولین فوقیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں وائس چانسلر اور رجسٹرار کے اجلاس و غیرہ یہیں پر ہیں، اسی لئے عام طور پر لوگ آرٹس کالج ہی کو جامعہ عثمانیہ خیال کرتے ہیں اور اس کی عمارت کو جامعہ عثمانیہ کی عمارت۔
عہد عثمانی میں جن انجنیئروں نے جامعہ کیلئے یہ جگہ تجویز کی تھی ان کی داد دینی چاہئے ۔ جامعہ کے لئے اس سے بہتر جگہ نہیں ہوسکتی تھی ، اپنے طو ل و عرض کی دلکشیوں کے سایھ یہ دوسری دنیا معلوم ہوتی۔ اس کے نشیب و فراز اور ٹھنڈی ہواؤں میں جو کیف ہے وہ دوسری جگہ نہیں ہے ۔ رنگ و روپ کے علاوہ اڈکمیٹ میں پچھلی صدیوں کی کچھ تاریخ بھی ہے ۔ آخری قطب شاہی حکمراں ابوالحسن تانا شاہ کے ابتدائی دور میں سلطنت کے میر جملہ سید مظفر باز رندانی کی جاگیر تھی اور اسی نے 1672 ء تانا شاہ کو تخت نشین کیا تھا لیکن بعد میں بادشاہ سے اس کی ان بن ہوگئی تو اڈکمیٹ کی یہ جا گیر اس سے چھین لی گئی اور اس کے بعد جب نواب میر نظام علی خاں بہادر آصفجاہ ثانی کا دور آیا اور مہ لقابائی چندا کے حسن و جمال کا شہرہ ہوا تو شاہی فرمان سے اڈکمیٹ مہ لقابائی کی جاگیر بنادیا گیا ۔ آصفجاہ ثانی کی اس پر خاص عنایت تھی ۔ 1782 ء میں معرکہ نرمل اور پانگل میں نواب میر نظام علی خاں بہادر نے چندا کو اپنے ہمراہ رکھا تھا ۔ آخر الذکر مہم سے فتح یاب ہوکر واپس آنے کے بعد نواب صاحب نے جشن آراستہ کر کے چندا بائی کو ماہ لقا کے خطاب اور نوبت وغیرہ سے سرفراز فرمایا اور اس کے ہر مجرے کا انعام ایک ہزار روپیہ مقرر کیا گیا ۔ 1824 ء میں مہ لقا کے انتقال کے وقت اس کی جائیداد میں باغات ، عمارتیں اور ایک کروڑ کی مالیت کا نقد و جنس تھی چندا کی جاگیریں سید پلی ، چندا پیٹ ، علی باغ ، حیدر گوڑ ہ اور اڈکمیٹ تھے ۔ مہ لقا شاعرہ تھی اور چندا تخلص کرتی تھی اپنا مقبرہ ایک لاکھ روپئے کے صرفہ سے کوہ مولا علی کے دامن میں تعمیر کرایا تھا ۔
نواب میر عثمان علی خاں بہادر آصف جاہ سابع کے دور حکومت کی کئی خصوصیات ہیں ، ان میں سب سے پہلا کام اس منبع علوم و فنون کا آتا ہے جو عثمانیہ یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے اور جس نے نظام حیدرآباد کی شہرت کو تاریخ ہند میں نمایاں ترین جگہ دے دی ہے ۔ ہندوستان کے قومی لیڈر عرصہ دراز سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ہندوستانی بچوں کو علوم و فنون کی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے تاہم برطانوی ہند میں اس شدید اور متواتر مطالبہ کے باوجود یہ تغیر عمل میں نہیں آیا لیکن آصف سابع نے اس مطالبے کو اپنے دور حکومت میں پورا کردیا اور عثمانیہ یونیورسٹی کا افتتاح کیا جس میں اعلیٰ ترین مدارج تک ذریعہ تعلیم دیسی زبان اردو میں رکھی گئی اور ایک مخصوص شعبہ دارالترجمہ کے نام سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کا دیگر زبانوں سے اردو زبان میں کتابوں کا ترجمہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا جس سے ہر سال بکثرت کتابیں شائع ہوکر اردو زبان کے لٹریچر کو سیراب کیں۔ اس یونیورسٹی کا معیار اتنا بلند رہا کہ بیرون ہند بھی یوروپ و انگلستان میں اس کی ڈگریاں تسلیم کی جاتیں۔ یہ یونیورسٹی 1916 ء میں قائم ہوئی اور قلیل مدت میں اس نے اپنی شہرت اکناف عالم میں پہنچادی ۔ حضور نظام کا فرمان 1917 ء میں جامعہ کی تشکیل کی بابت نافذ ہوا ۔ ’’میری تخت نشینی کی یادگار میں ایک جامعہ قائم کی جائے جس کا نام جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ہوگا اور اس کی تعلیم مغربی اور مشرقی علوم کے امتزاج کے ساتھ اردو میں ہوگی ‘‘۔
آغا منزل جہاں اب اسٹیٹ بنک آف حیدراباد گن فاونڈری قائم ہے ۔ نواب صدر یار جنگ ، حبیب الرحمن خاں شروانی کی صدارت میں افتتاحی جلسہ منعقد ہوا ۔ اس میں شہر کے تمام عمائدین شریک تھے ۔ حیدر نواز جنگ نے فرمان سنایا ۔ سبھوں نے کھڑے ہوکر فرمان سنا اور اس کے بعد صدر جلسہ صدر یار جنگ نے تقریر کی اور این جی و لنکر صاحب نے جو انگریزی کے لئے استاد تھے ، انگریزی میں جلسہ کو مخاطب کیا اور اگلے دن سے انٹرمیڈیٹ سال اول کے درس شروع ہوگئے ۔ اس مبارک دن کو آصف جاہ سادس ، نواب رفعت یار جنگ اول ، نواب سالار جنگ ، علامہ شبلی ، عماد الملک ، ملا عبدالقیوم ، مولوی محمد مرتضیٰ اور آرتھر ہیو کے خواب کی تعبیر کہنا چاہئے ۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام سے ملک میں مسرت کی ایسی لہر دوڑ گئی کہ مثال نہیں ملتی۔ اہل ملک نے دل کھول کر اس کا ساتھ دیا ۔ جامعہ کیا تھی حیدرآباد کے دیرینہ تمناؤں کا آئینہ اور اہل حیدرآباد کی ذہنی اخلاقی اور سماجی تربیت کا سامان تھا ۔
منشور خسروی میں تفصیل کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کے اختیارات بیان کئے گئے ہیں پھرا سکی ہیئت ترکیبی کا ذکر ہے اور اس میں اعلیٰ حضرت نے اپنی خاص دلچسپی کا ثبوت دیا ہے کہ ’’مابدولت و اقبال جامعہ عثمانیہ کے سرپرست اعلیٰ رہیں گے اور جامعہ عثمانیہ اپنے کاروبار میں ایسی مہر کا استعمال کرے جس کا نمونہ مابدولت و اقبال منظور فرمائیں گے‘‘۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ کا قیام 18 ذی قعدہ 1335 ء م 1916 ء کو عمل میں آیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ عثمانیہ کی عمارات کے لئے جگہ کا انتخاب کا کام بھی شروع ہوگیا ۔ اس سلسلہ میں پروفیسر گڈس جو فلسطین میں جامعہ کے آرکیٹکٹ تھے ۔ انہوں نے یونیورسٹی کے موجودہ موقع کے قریب کی جگہ پسند کی ۔ بعد میں بنظر خوشنودی اعلیٰ حضرت صرف خاص کے متعدد اراضیات کا معائنہ کیا گیا جن میں سے قابل ذکر قلعہ گولکنڈہ اور اس کی شاہی عمارات ، ملک پیٹھ معہ عثمان گڑھ پیلس اور آخر میں کنگ کوٹھی نظام کالج اور ان سے ملحقہ اراضیات چونکہ یہ تمام محل وقوع پسند نہیں کئے گئے اس لئے یہ معاملہ کچھ عرصہ تک معرض التواء میں پڑا رہا ۔ جنوری 1930 ء میں اسپیشل بلڈنگ کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق عالمی دورہ کر کے تمام عصری جامعات کے نقشے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس فیصلہ کے محترکات یہ تھے کہ جامعہ عثمانیہ پلان اور عمارت کے لحاظ سے دنیا کی ایک بہترین جامعہ ہو اور اس مواد کے ساتھ ایک ایسا خاکہ پیش کیا جائے جو عصری ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی فن تعمیر کا بھی اس میں امتزاج ہو۔ اس عالمی سفر پر سید علی رضا نگران کار چیف انجنیئر اور نواب زین یار جنگ 24 ستمبر 1930 ء کو روانہ ہوئے اور مدراس کولمبو کا مشرقی راستہ اختیار کیا۔ دو مہینہ جاپان میں قیام کے بعد ممالک متحدہ امریکہ کی بندرگاہ سان فرانسسکو میں اترے ۔ جاپان میں گوکن ، اساکا وغیرہ کی جامعات کا معائنہ کیا گیا ۔ امریکہ میں تین ماہ قیام رہا اور اس عرصہ میں ہارورڈ اور پرنسٹن کی جامعات کے علاوہ امریکہ کی دوسری عصری جامعات کیلی فورنیا ، اسٹانفورڈ ، وسکنن، شکاگو ، نیویارک اور کولمبو کی جامعات کا بھی مطالعہ کیا گیا ۔ امریکہ سے واپسی پر انگلستان کے قدیم جامعات آکسفورڈ ، کیمبرج ، مانچسٹر کے علاوہ کنگسٹن میں ایڈنبرا ، برمنگھم اور لیڈز کی زیر تعمیر جامعات کا بھی بغور معائنہ کیا اور بعد میں پیرس کی سارابون ، بلجیم کی لیڈن اور جرمنی کے ہائیڈلبرگ ، میونخ اور برلن ، آسٹریا کی ویانا ہنگری کی ذائگاڈ جامعات کا خاص مطالعہ کیا گیا ۔ یوروپ کا دورہ ختم کرنے کے بعد وفد نے مشرقی وسطی میں مصر ، ترکی کا سفر اختیا کیا ۔ مصر کے دوران قیام میں جامعہ مصر میں بلجیم کے آرکیٹکٹ مسٹر ای جاسپر سے ملاقات ہوئی جو اس یونیورسٹی کے معمار تھے ۔ یونیورسٹی کی بلڈنگس کے علاوہ وہاں کے ہوٹل، کاسینو ، ریس کورس اور رہائشی مکانات کی تعمیر میں ان کے مشورے شریک تھے۔ ان کی عمارت میں مشرقی فن تعمیر کا زیادہ سے زیادہ لحاظ رکھا گیا ۔
واپسی پر ماہرین نے مسٹر جاسپر کی بحیثیت آرکیٹکٹ سفارش کی کہ مشرقی فن تعمیر میں مشورہ دینے کے لئے موزوں ثابت ہوں گے اور ان کی فیس روزانہ دس پونڈ ہوگی ۔ جب تک وہ حیدرآباد میں رہیں ، آنے جانے کے اخراجات دینے ہوں گے اور حیدرآباد کے قیام کے زمانے میں جس کی مدت ہر سال کم از کم تین ماہ ہوگی کھانے اور رہنے کا انتظام حکومت کی جانب سے ہوگا ۔ حکومت نے ان تمام شرائط پر غور کیا ۔ 24 ستمبر 1931 ء کو ماہرین کی واپسی ہوئی ۔ سب سے پہلا کام جگہ کا انتخاب تھا ۔ چار سال قبل پروفیسر گڈسن نے جس مقام کی نشاندہی کی تھی اسی مقام کے انتخاب کیلئے ماہرین نے بھی زور دیا اور سرکار سے اس کی منظوری حاصل کرلی۔
اس کے بعد یونیورسٹی کی مختلف عمارتوں کے نقشے تیار کئے گئے اور مسٹر جاسپر کے پاس روانہ کئے گئے ۔ 1932 ء میں مسٹر جاسپر خود حیدرآباد تشریف لائے ۔ صاحب موصوف کو حیدرآباد میں واقع قطب شاہی دور کے تمام عمارات بتلائے جس میں سلاطین قطب شاہیہ کے مقابر گولکنڈہ بھی شامل تھے ۔ اس کے علاوہ بیدر میں واقع برید شاہی عمارات ، قدیم منادر ، غار ہائے اجنتہ و ایلورہ اورنگ آباد بھی دکھلائے ۔ شمالی ہندوستان کے اہم شہروں آگرہ ، دہلی اور فتح پور سیکری کی عمارات کا بھی معائنہ کرایا گیا تاکہ حیدراباد میں تعمیر ہونے والی جامعہ عثمانیہ کے نقشہ جات کی تیاری میں آپ کو مدد مل سکے جس میں ہندو اور مغل آرٹ کے ملاپ کا ایک نادر نمونہ پیش کیا جاسکے اور مجوزہ عمارات صرف عرب فن تعمیر کا نمونہ بن کر نہ رہ جائے ۔ جیسا کہ ترکی ، یروشلم اور شام میں ہے۔
اسی بنیاد پر انہوں نے آرٹس کالج ، لا کالج ، سنیٹ ہال اور لائبریری کے خاکے تیار کرنے شروع کردیئے ۔ جو تقریباً ایک سال میں تیار ہوئے ۔ 1932 ء میں ان کا پورا حساب بے باق کردیا گیا اور یہیں کے ماہرین تعمیرات نے ہوسٹل ، ڈائیٹنگ ہال ، سائنس کالج وغیرہ کے نقشے تیار کر کے بالکلیہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔
اس محل وقوع پر جہاں کی زمین ناہموار ہو ، عمارتیں بنانے میں بڑی دشواری محسوس ہوتی ہے ۔ یہ دشواری اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ ایک مقام سے دوسرے مقام میں سو یا سو فیٹ سے زیادہ نشیب و فراز ہو ۔ اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ ایک خاص پلان کو روبہ عمل نہیں لایا جاسکتا۔ میدانی علاقوں میں یہ کام خوش اسلوبی سے انجام پاسکتا ہے جیسا کہ بنارس اور علیگڑھ کی جامعات ہیں۔ ان عمارات کی تعمیر میں مختلف ادوار کی تعمیری کارناموں کا ا یک لطیف امتزاج ہے ۔ آرٹس کالج کے ستون ، ایلورہ اور اجنتہ اورنگ آباد سے ماخذ ہیں ۔ دہلی آگرہ کے مغل تعمیرات حیدرآباد میں قطب شاہی طرز تعمیر میں بنے چارمینار و مکہ مسجد کے کمانوں کی نقل کی گئی ہے اور بعض جگہ عرب فن تعمیر کے کمانوں اور پتلے پتلے ستونوں سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ نئی دہلی کی عصری تعمیر کو عمداً نظر انداز کردیا گیا کیونکہ ماہرین تعمیرات کی نظر میں نہ تو مشرقی نقطہ نظر سے جاذب نظر ہیں اور نہ مغربی خیال کے مطابق قابل تعریف۔ تمام عمارتوں کی تیاری کا تخمینہ ایک کروڑ روپیہ تھا ۔ سڑک ، لائیٹ ، ڈرینج اور آبرسانی کے اخراجات اس کے علاوہ تھے مزید برآں 23 فیصد اخراجات اسٹاف کے قرار پائے۔
یہ کون کہہ سکتا تھا کہ بیسویں صدی میں آکر ماہ لقا بائی چندا کی جاگیر اڈیکمٹ میں جامعہ عثمانیہ کا بڑا شہر بس جائے گا ۔ جس طرح محل وقوع کی تعریف ہوئی ہے اسی طرح عمارتوں کی بھی تعریف ہونے لگی ۔ جامعہ کی بلند و بالا عمارتیں جو قدیم اور وسطی تہذیبوں کا آمیزہ ہیں ، فن تعمیر کے بہترین نمونے ہیں۔ آرٹس کالج پر کوئی چالیس لاکھ روپئے خرچ ہوئے ، اس عمارت میں اجنتہ کی فنکاریاں اور مسلم طرز تعمیر کی گل کاریاں دونوں موجود ہیں اور یہ حیدرآباد کی لطیف تہذیب کی زندہ یادگار ہیں۔
جس روز نواب میر عثمان علی خاں بہادر آصف جاہ سابع نے آرٹس کالج کا افتتاح کیا ، ہزارہا زائرین اس کو دیکھنے کیلئے آئے تھے اور اب بھی باہر کے سیاح جوق درجوق چلے آتے ہیں اور شہر حیدرآباد میں قطب شاہی دور کی عمارتوں کا دیدار کرنے کے بعد ان عمارتوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔