آرزوؤں کا کھیل بھی عجیب ہوتا ہے

اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس ہے ۔ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے نام ان کی زندگی ہی میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ ہوتے ہیں جو اپنے قدموں کے نشان تاریخ کے صفحات پر چھوڑ جاتے ہیں ۔ کانگریس کے ماضی کے کرداروں کے نقوش پر چلنے والوں نے جب سے مطلب کے قدم اٹھانے شروع کئے ہیں ۔ پارٹی کی تاریخی اہمیت پر آنچ آنے لگی ہے ۔ کانگریس میں موجودہ قائدین کو اپنی پارٹی کی تاریخ بھی معلوم نہیں ہوگی ۔ یہ لوگ خاص کر ریاست آندھرا پردیش کے کانگریس قائدین 60 سال قدیم مسئلہ کا حل نکالنے کی بات کرتے ہوتے گذر گئے مگر یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار رہا ۔ کانگریس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اکثر اس کو اس کے کارکنوں نے دھوکہ دیا ۔ اس مرتبہ بھی یہی منظر دہرایا جارہاہے ۔ دہلی میں جمع ہونے والے کانگریس قائدین خاص کر چیف منسٹر کا عہدہ رکھنے والے کرن کمار ریڈی کو ہائی کمان کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ یہ تو تلنگانہ عوام کی قسمت کے ان کی پسماندگی دور کرنے کی کسی نے بھی دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ تلنگانہ کو روکنے اور علحدہ ریاست کو یقینی بنانے کے لئے سرگرم دو گروپس میں سے کس کو کامیابی ملے گی یہ صرف امیدوں کی نازک ڈور پر ٹکا ہوا ہے ۔ آندھرا کے قائدین یہ علاقہ ہرگز چھوڑنا نہیں چاہتے کیوں کہ انھیں اپنی بالادستی کی عادت پڑگئی ہے ۔ اس کی وجہ ہماری تلنگانہ برادری کی خاموشی یا ضرورت سے زیادہ بھروسہ مندی بھی ہے ۔ تلنگانہ کے عوام نے شروع سے آندھرائی غلبہ کو چھوٹ دیدی جس کے نتیجہ میں گروپ کے گروپ ان پر مسلط ہوگئے ۔ آج عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ تعلیم ، روزگار اور کاروبار میں تلنگانہ کے لوگ پیچھے ہیں اور بڑی بڑی کمپنیوںمیں ملازمت کرنے کے لئے تلنگانہ کے امیدواروں کو آندھرا سے تعلق رکھنے والے منیجروں ، ایچ آر اور دیگر عہدیداروں کی تعصب نگاہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے ۔ حیدرآباد میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی کئی کمپنیوں کے ایچ آر آندھرائی ہیں تو ان کمپنیوں میں آندھرائی انجینئرس کو ہی ترجیح دی جائے گی ۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والا قابل انجینئر بھی ملازمت سے محروم رہے گا یا پھر اسے ڈی گریڈکردیا جائے گا ۔ بعض معاملوں میں تلنگانہ کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی آگے ہے لیکن صفر کے برابر ہے ۔ اگر آندھرائی غلبہ ختم ہوجائے تو تلنگانہ کے اندر پیدا ہونے والے روزگار پر یہاں کے نوجوانوں کا حق ہوگا مگر یہ ممکن ہوسکے گا یہ کہنا مشکل ہے ۔ آندھرائی ذہن کی تعریف کی جاتی ہے ان کی قابلیت کو قومی و بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ علاقائی محاذ پر آندھرا اور تلنگانہ کے جھگڑے نے ذہین اور کریمی لیبر طبقہ کو ان علاقوں سے دور کردیا ہے ۔ تلنگانہ کا نوجوان بھی ان دنوں انتہائی قابل اور ذہین بن رہا ہے جتنا ان کے آندھرائی ساتھی ہوتے ہیں بلکہ اب تو کوئی معاملوں میں تلنگانہ کے نوجوانوں کو پذیرائی حاصل ہورہی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود علاقائی تعصب پسندی کے حامل چند گوشے اس بات کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ترجیحی طور پر اپنے علاقہ کے لوگوں کو آگے بڑھایا جائے ۔ یہ منفی احساس صرف سیاسی صفت رکھنے والے نوجوانوں میں پائی جاتی ہے ۔ عام نوجوانوں میں آندھرائی یا تلنگانہ کا امتیاز دکھائی نہیں دیتا ۔ حیدرآباد کے آئی ٹی کوریڈور کا جائزہ لیجئے یا بیرون ریاست اور بیرون ہند خاص کر لندن ، امریکہ ، آسٹریلیا دیگر ممالک میں برسرروزگار ہندوستانیوں کے رول پر توجہ دیں تو انھیں علاقائی تعصب کا عارضہ نہیں ہوتا ۔ ذہین نوجوانوں کو اپنے ملک میں بعض کوتاہ ذہن سیاستدانوں کی وجہ سے وہ مقام حاصل نہیں ہوتا جس کے وہ مستحق ہیں ۔ تلنگانہ کی مخالفت کرنے والے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کے حالیہ برسوں میں آئی ٹی شعبہ کی ابتری کیلئے جو رول ادا کیا ہے اس کا راز کسی سے پوشیدہ تو نہیں ہونا چاہئے ۔ حیدرآباد کے نوجوانوں نے انفارمیشن ٹکنالوجی اور دیگر سائنسی شعبوں میں بڑے کارنامے انجام دئے ہیں اس کی تازہ مثال حیدرآباد کے سپوت ستیہ نڈیلا سے دی جاسکتی ہے ۔ جب ساری ریاست کی سیاست مخالف تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی تقسیم کے مسئلہ پر اپنی توجہ مرکوز کرکے دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھی ان خبروں کے درمیان حیدرآباد کے سپوت ستیہ نڈیلا کے مائیکرو سافٹ میں اعلی عہدہ پر تقرر کی خبر منظر پر آئی ۔ سافٹ ویر دنیا میں مائیکرو سافٹ کا نام بلند ہے ۔ شہر حیدرآباد کے اس ہونہار نوجوان کو مائیکرو سافٹ کا سربراہ بنایا گیا تو کئی امیدیں پیدا ہوگئیں اور ترقی کی کئی کھڑکیاں کھل جانے کی خوشخبری ملنے لگی ہے ۔ حیدرآباد پبلک اسکول کے طالب علم کو ایک دن بل گیٹس کی کمپنی کا سربراہ بنایا جائے گا یہ اس نوجوان کی صلاحیت کا مظہر ہے ۔ ہندوستان کے کونے کونے میں ہوں یا بیرون ہند ملکوں خاص کر امریکہ میں آندھرا پردیش کے خاص کر حیدرآباد کے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے ۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں یہ لوگ بڑی کمپنیوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں البتہ یہاں پر بھی سیاستدانوں نے حیدرآباد کی طرح بعض لوگوں میں علاقائی احساس کی چنگاری بھڑکانے کی کوشش کی ہے تاہم میرے دورہ امریکہ کے دوران جو باتیں مشاہدہ میں آئیں ان میں تعصب یا علاقائی دشمنی کا کوئی خاص عنصر نظر نہیں آیا ۔ حیدرآباد کی طرح امریکہ میں بھی کئی کمپنیوں میں یہاں کے طلباء کے تقررات ہوتے ہیں اور یہ تقررات خاص صلاحیتوں اور قابلیت کی اساس پر ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ ہوں گے جو علاقائی تعصب پسندی کا رول ادا کرتے ہیں ۔ سرزمین حیدرآباد پر قائم بڑی بڑی کمپنیوں میں روزگار کی طرح امریکہ میں بھی روزگار کے حصول کے لئے وہاں تعلیم حاصل کرنے والے آندھرا پردیش کے نوجوانوں کو جد و جہد کرنی پڑتی ہے ۔ امریکہ میں ہر شعبہ کے اندر ہندوستانیوں کو دیکھا جاتا ہے ۔ تجارت میں تو ہندوستانیوں کی اپنی الگ پہچان رہی ۔ بڑے بڑے شاپنگ مالس ، گروسری اسٹورس ، حلال مارکٹ سے لے کر انفارمیشن ٹکنالوجی والی کمپنیوں میں بھی ہندوستانی چھائے ہوئے ہیں ۔ وہاں پر ہوٹل کو موٹل کہا جاتا ہے تو لاجنگ کے کاروبار میں زیادہ تر گجراتی سکھ برادری کے لوگ چھائے ہوئے ہیں ۔ ’’پاکستانی‘‘ ریسٹورنٹس ہیں ۔ افغان ، عراق ، ترکی اور دیگر ملکوں کے افراد کے بھی کاروبار ہیں ۔ تعلیمی اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں آندھرا پردیش کے نوجوانوں کی اکثریت دیکھی گئی ۔ آندھرا پردیش کے کئی نوجوانوں نے وہاں پر کنسلٹنسیاں بھی کھول رکھی ہیں جو نئے گریجویٹس کو ٹریننگ دے کر اپنے کمیشن کے لئے دیگر کمپنیوں میں ملازمت فراہم کرتی ہیں ۔ ان کنسلٹنسیوں میں اچھی بھی ہیں اور دھوکہ باز بھی ہیں۔ دھوکہ بازی بہت کم ہوتی ہے کیونکہ امریکی پالیسی اور رول کے تحت کوئی بھی دھوکہ بازی نہیں کرسکتااور اگر کوئی کرتا ہے تو ایک دن اس کو سزا ضرور ملے گی ۔ پاکستانیوں کو کافی پذیرائی حاصل ہے ۔ ہر شعبہ حیات میں پاکستانی سرگرم ہیں ۔ اوباما نظم و نسق نے ایمیگریشن قانون میں نرمی کرنے کی تجویز رکھی ہے اگر اس پر عمل آوری ہوئی ہے تو کئی پاکستانی ہندوستانی اور دیگر اقوام کے نوجوانوں کو روزگار کے وسیع موقع حاصل ہوں گے ۔ اوباما کی پالیسی کے حصہ کے طور پر بیرون امریکہ کے ذہین نوجوانوں کو امریکہ میں زیادہ سے زیادہ مواقع دینے کے لئے کچھ راہیں ہموار کی گئی ہیں ۔ اس سے استفادہ کرنے والے آندھرا پردیش کے ذہین لوگ سرگرم ہیں ۔ کل تک امریکہ میں 3 کروڑ شہری بے روزگار اور 4 کروڑ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے ۔ سینکڑوں بینک دیوالیہ ہو کر بند ہوچکے تھے لیکن اب کچھ شعبوں میں بہتری آرہی ہے ۔ اپنے علاقوں میں خاص کر حیدرآباد میں آندھرائی سیاست کی تعصب پسندی نے تلنگانہ کے ذہین بچوں کو پذیرائی کا موقع نہیں دیا ہے وہ امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا، سنگاپور ، جرمنی وغیرہ میں اپنی آرزوؤں کی پذیرائی کررہے ہیں ۔ زندگی میں ترقی حاصل کرنے کی آرزو رکھنا بھی کامیابی کی منزل تک لے جانے والی کڑی ہوتی ہے ۔ یہ آرزو بھی ایک ایسی چیز ہے جو کبھی پوری نہ ہوتو دل تڑپ جاتا ہے ۔ ان آرزوؤں کا کھیل بھی عجیب ہے ۔ ہر آرزو زندگی کو سولی پر لٹکائے رکھتی ہے لیکن زندگی کی ساری رعنائیاں اپنی آرزوؤں سے عبارت ہیں ۔ کوئی آرزو باقی نہ رہے تو زندگی کتنی بوجھل سی ہوجاتی ہے ۔ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبدالکلام اپنے ہر خطاب اور بیان میں نوجوانوں کو یہی صلاح دیتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے دلوں میں خواب اور آرزوؤں کو جگہ دو چونکہ یہ آرزو انہیں ان کی منزل تک پہونچانے میں مدد کرتی ہے ۔ اس آرزو کے حصہ کو طور پر میں نے امریکہ کی چند ریاستوں کی سیر کی ۔ ٹکساس کے شہر کرپس چرشٹی میں سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر اس پانی کا نظارہ کررہا تھا جہاں سے حد نگاہ کوئی زمین نظر نہیں آتی ۔ یہ شہر اس سمندر کے کنارے واقع ہے جہاں سے پانی ہی پانی ملتا ہے زمین نہیں ۔ اس سوپر پاور کی سرزمین پر جتنے دن بھی میں رہا ہر روز سورج طلوع تو ہوتا مگر اس کی کامل کرن سے میری ملاقات نہیں ہوتی ۔ کیونکہ امریکہ کا آدھا حصہ 40 سال بعد شدید برفباری میں سکڑ گیا تھا ۔ سمندر کے کنارے پانی کی تھکی تھکی سی لہریں ساحل سے بلکہ میری پیروں سے ٹکراتی کف اڑارہی تھیں تو مجھے آگے کی منزل کے لئے کوچ کرنے کا پیام بھی دے رہی تھیں مگر آندھرا پردیش کے ساحل سے ٹکرانے والی لہریں ان کے سیاستدانوں کو تلنگانہ سے چلے جانے کا پیام کب دیں گی ؟
kbaig92@gmail.com