آدمی کو پہچانو آدمی کے کاموں سے

رشیدالدین

مودی کے دربار میں نام نہاد مسلم نمائندے
وزیراعظم کا دورہ اسرائیل … روایات سے انحراف

’’اگر آپ آدھی رات کو بھی مدد یا خدمت کیلئے آواز دیں تو میں دستیاب رہوں گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی سچے عوامی خدمات گزار کے ہوسکتے ہیں لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ عوامی خدمت کا ڈھونگ کرنے والوں نے ہمدردی کے حصول کے لئے اس طرح کے الفاظ کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس کے سبب حقیقی اور ڈھونگی خدمت گزاروں میں تمیز کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ فرضی اور خود ساختہ خدمت گزاروں کی زبان سے اس طرح کے الفاظ کسی مذاق سے کم نہیں۔ جس کے ظاہر اور باطن میں تضاد ہو، اس کی زبان سے اس طرح کے الفاظ محض رسمی اور ڈھکوسلہ دکھائی دیتے ہیں۔ نریندر مودی جو اپنی ڈائیلاگ ڈلیوری کیلئے عالمی شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے اقلیتی نمائندوں کے وفد کے ساتھ ملاقات میں ان الفاظ کو ادا کیا۔ کاش وزیراعظم الفاظ کی ادائیگی سے قبل اس کے معنیٰ و مطلب کو سمجھ پاتے۔ ظاہر ہے انہوں نے کسی فلمی اداکار کی طرح مکالمہ نگاری کے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کو حکومت اور پارٹی سے قریب کرنے کی کوششوں میں مصروف نریندر مودی کچھ بھی کہنے کیلئے تیار ہیں لیکن مسلمان اس ڈائیلاگ ڈلیوری کی حقیقت اور اس کے پس منظر سے بخوبی واقف ہیں اور وہ الفاظ کی جادوگری کا شکار ہونے والے نہیں ہیں ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے ایک سال کی تکمیل کے دوران صرف دو اقلیتی وفود نے نریندر مودی سے ملاقات کی۔ دونوں وفود میں شامل افراد کا عوام میں کوئی مقام نہیں اور وہ بی جے پی اقلیتی قائدین کے اسپانسر کردہ تھے، گزشتہ دنوں ملاقات کرنے والے مسلم وفد کے ارکان سے نریندر مودی نے اقلیتوں کی ترقی کے بارے میں کئی وعدے کئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ آدھی رات کو بھی کسی بھی مدد کیلئے حاضر ہیں۔ وزیراعظم کی زبان سے اس طرح کے الفاظ یقیناً اچھے ہیں ، بشرطیکہ نریندر مودی کی جگہ کوئی اور ہوتا۔ جس شخص سے مسلمانوں کو تلخ تجربات ہیں، وہ لاکھ زبانی ہمدردی کرلے بے اثر ثابت ہوگی۔ نریندر مودی کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو اس میں مدد اور وہ بھی مسلمانوں کی، اس طرح کی کوئی معمولی مثال بھی نہیں ملے گی۔ گجرات کی چیف منسٹر کی کرسی سے دہلی میں اقتدار تک پہنچنے کے بعد مودی کی یادداشت کمزور ہوسکتی ہے

لیکن ہندوستان کی تاریخ مودی سے مسلمانوں کو ہوئے تلخ تجربات کو کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔ جب کبھی ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے گی ، مودی کو گجرات فسادات کے حوالے سے ضرور یاد رکھا جائے گا ۔ گوگل سرچ انجن میں 10 مجرمین میں نریندر مودی کی تصویر شامل کرنے پر ان کے حامیوں نے اعتراض جتایا اور کمپنی نے بھلے ہی معذرت خواہی کرلی لیکن انسانی تاریخ نریندر مودی کو ہمیشہ گجرات فسادات کے ملزم کی حیثیت سے دیکھے گی۔ امریکہ نے نریندر مودی کو گجرات فسادات کا ملزم قرار دیتے ہوئے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا، ویزا پر پابندی مودی کے وزیراعظم بننے تک برقرار رہی۔ کیا نریندر مودی اب امریکہ کی نظر میں ملزم نہیں ہیں؟ باہمی مفادات کی تکمیل کیلئے امریکہ نے آج اپنا موقف تبدیل کرلیا اور وہ نریندر مودی کے گاڈ فادر بن چکے ہیں ۔ نریندر مودی کے مسلم وفد کے روبرو ادا کئے گئے الفاظ پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ آدھی رات تو دور کی بات ہے، گجرات میں دن دھاڑے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی نریندر مودی نے کس طرح مدد کی اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ فسادیوں نے جب احسان جعفری کے گھر کو گھیرلیا تو مدد کیلئے انہوں نے نریندر مودی کو کئی فون کال کئے۔ ایک کال جب مودی کو کنکٹ کیا گیا تو احسان جعفری نے مدد کی درخواست کی جس کے جواب میں انہیں گالیاں ملی تھیں۔ آج وہی نریندر مودی مسلمانوں کو آدھی رات میں مدد دینے کا دلاسہ دے رہے ہیں۔ اس طرح کی مکالمے بازی دلیپ کمار اور راج کمار جیسے اداکاروں کو زیب دیتی ہے، وزیراعظم کو نہیں۔ دن کے اجالے میں گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور مودی نے آنکھیں بند کرلیں اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ دینے کی پولیس کو ہدایت دی گئی تھی۔ اس شخصیت سے آدھی رات کو مدد کی توقع کون کرسکتا ہے ؟

دن کے اجالے میں مدد کے سلسلہ میں اس طرح کا ریکارڈ ہو تو پھر رات کو مدد کا کیا مطلب ہوگا؟ 2002 ء میں نریندر مودی کی ناک کے نیچے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی جو تاریخ کا بدترین فساد تھا۔ اس سرکاری اسپانسرڈ قتل عام میں مودی نے کتنے مسلمانوں کی مدد کی تھی؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مسلمانوں کے نام نہاد نمائندوں کے روبرو مودی نے ازراہ مذاق یہ بات کہی ہوگی۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مسلمانوں کو آدھی رات کو مدد کا بھروسہ دلانے والے نریندر مودی پہلے گجرات کے ہزاروں مظلوم خاندانوں کی مدد کریں جو آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ نریندر مودی کی ریاست گجرات میں مسلمانوں کیلئے انصاف کا کوئی تصور نہیں کیونکہ تین میعاد تک چیف منسٹر کی حیثیت سے فائز مودی نے سارے نظم و نسق میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ آدھی رات کو مدد کی بات کرنے والے مودی شاید گجرات فسادات کے ملزمین کی برات ، فرضی انکاؤنٹرس کے ملزمین کو کلین چٹ کو شاید بھول گئے۔ نریندر مودی مسلمانوں سے لاکھ زبانی ہمدردی کرلیں لیکن ان کے دامن پر لگے بے گناہوں کے خون کے دھبے کبھی مٹ نہیں پائیں گے۔

دنیا کی کسی فیکٹری نے ایسا صابن تیار نہیں کیا جو ان دھبوں کو دھو سکے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے ایک سال کے عرصہ میں مسلمانوں کی بھلائی کا کونسا کارنامہ انجام دیا۔ ایک سال میں ملک کے مختلف علاقوں میں فسادات اور مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔ لو جہاد ، گھر واپسی اور ذبیحہ گاؤ جیسے تنازعات کھڑے کرتے ہوئے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازشیں جاری ہیں، نفرت کا پرچار اور اشتعال انگیزی کے خلاف کارروائی سے متعلق مودی کے اعلانات محض دکھاوا ثابت ہوئے۔ کارروائی توکجا ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مظفر نگر فسادات کے ملزمین جنہیں جیل میں ہونا چاہئے تھا، انہیں مرکزی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ ہریانہ جہاں بی جے پی حکومت ہے، بلبھ گڑھ علاقہ میں گزشتہ دنوں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور آج تک متاثرہ خاندان بے گھر ہیں۔ مرکز و ریاست دونوں میں بی جے پی سرکار ہے اور مسلمانوں کے تحفظ و سلامتی کا یہ حال ہے۔ فساد سے متاثرہ علاقہ دارالحکومت دہلی سے صرف 20 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے لیکن نریندر مودی کو متاثرہ مسلم خاندانوں کی مدد کا خیال نہیں آیا۔ نریندر مودی کے نزدیک مسلمانوں کی مدد کا مطلب شاید کچھ اور ہے۔ امریکی کانگریس کے پیانل نے مودی حکومت میں ہندوتوا طاقتوں کے بے لگام ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ اس کا تازہ ثبوت رام مندر کی تعمیر کیلئے حکومت کو ونئے کٹیار اور سادھوؤں کی دھمکی ہے۔
ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے خود ساختہ نمائندوں کو شرم آنی چاہئے جو اپنے حقیر مفادات کیلئے مودی کی ستائش کرنے ان کے دربار میںپہنچ گئے ۔ آئمہ مساجد کی جس تنظیم کے بیانر تلے یہ ملاقات کی گئی ، اس کی موقع پرستی اور اقتدار سے قربت کے لئے مسلمانوں کے نام پر سودے بازی ایک تاریخ ہے۔ تنظیم کے سابق صدر بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار پی وی نرسمہا راؤ سے قریب تھے، اور بابری مسجد کی شہادت میں ان کی مجرمانہ خاموشی رہی۔ اب ان کے جانشین نریندر مودی کے دربار میں حاضر ہیں۔ شاید وہ رام مندر کی تعمیر میں مودی کی تائید کرنا چاہتے ہیں۔

نرسمہا راؤ دور میں آئمہ مساجد کو حکومت کے تنخواہ یاب ملازمین بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ مساجد اور دینی اداروں میں حکومت کی مداخلت کی راہ ہموار کی جاسکے۔ نریندر مودی سے قربت حاصل کرنے کا خواہاں یہ ٹولہ دراصل دسترخوان اقتدار کی پھینکی ہوئی ہڈیاں اور گنبد اقتدار کے کبوتر ہیں، ہر دور میں ایسے افراد کی کمی نہیں رہی۔ مسلمانوں کی ہمدردی کے معاملہ میں نریندر مودی کے قول و فعل میں تضاد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے عالم اسلام کے دشمن ملک اسرائیل کے دورہ کا فیصلہ کیا ہے۔ نریندر مودی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ اس سے قبل نئے وزیراعظم کی حیثیت سے ایل کے اڈوانی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ دراصل ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور روایات سے انحراف ہے۔ جواہر لال نہرو سے لیکر منموہن سنگھ حتیٰ کہ اٹل بہاری واجپائی نے بھی ان روایات کی پاسداری کی تھی۔ ہندوستان بنیادی طور پر فلسطین کا حامی ہے اور ایسے وقت جبکہ دنیا بھر میں علحدہ مملکت فلسطین کو تسلیم کیا جارہا ہے ، نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ دورہ کھلے طور پر ہندوستان کی موافق فلسطین پالیسی کے مغائر ہے۔ پی وی نرسمہا راؤ دور حکومت میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے گئے اور ملک میں اسرائیلی سفارتخانہ قائم کیا گیا اور بی جے پی کے وزیراعظم اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے تعلقات کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی تائید میں ہندوستان ہمیشہ ہی پیش پیش رہا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات ہمیشہ ہندوستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اب جبکہ اہم ممالک علحدہ مملکت فلسطین کے قیام کے حق میں ہیں ، اسرائیل اس منصوبہ کو ناکام بنانے کے لئے مختلف رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے ۔ کل تک اسرائیل کی کھل کر تائید کرنے والے امریکہ کو آخر کار یہ کہنا پڑا کہ اسرائیل تنازعہ کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے۔ امریکہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ انسان زبان سے بھلے ہی کچھ کہہ لیں لیکن اس کا عمل اس کی صداقت اور سچائی کا مظہر ہوتا ہے۔ منظر بھوپالی نے کہا ہے ؎
آدمی کو پہچانو آدمی کے کاموں سے
شہر بھر لرزتا ہے جس کے کارناموں سے
rasheeduddin@hotmail.com