میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہمارا شمار ان معدودے چند مہذب اور شائستہ انسانوں میں ہوتا ہے جو علالت کو بھی اس وقت تک قبول نہیں کرتے یا اسے مستحسن نہیں سمجھتے جب تک کہ انہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ وہ آداب علالت کی اقل ترین شرائط کی پاسداری کرنے کے اہل ہوگئے ہیں ۔ بخدا ہم علالت سے اتنا پریشان نہیں ہوتے جتنا کہ آداب علالت کے رموز و نکات سے عدم واقفیت کی بنا پر ہراساں ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہم پینسٹھ برس کے نہیں ہوگئے تب تک ہم نے کسی بھی قسم کی علالت کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا ۔ لہذا آداب علالت کے معاملہ میں ہم آج بھی خاصے اناڑی اور ناتجربہ کار واقع ہوئے ہیں ۔ پھر ہر علیل ہونے والے کے آداب علالت کا معیار اور انداز مختلف ہوتا ہے جس سے اس میدان میں اس کے دیرینہ تجربہ یا سراسر ناتجربہ کاری دونوں ہی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔ ہمارے ایک دوست علالت کا نہایت طویل تجربہ رکھتے ہیں اور جب بھی کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اس اہتمام سے مبتلا ہوتے ہیں کہ پہلے تو اپنا بستر علالت خود اپنے ہاتھوں سے بچھاتے ہیں اور پھر بعد میں خود اس پر بچھ جاتے ہیں ۔ یہی نہیں بیماری کی کیفیات اور خصوصیات کے مطابق اپنے کمرۂ علالت کی تزئین و زیبائش کی گنجائش بھی پیدا کرلیتے ہیں مثلاً یرقان کے مرض میں مبتلا ہوں تو اپنے بستر علالت پر پیلے رنگ کی چادر بچھاتے ہیں ، کمرۂ علالت کے دروازوں اور کھڑکیوں پر یرقانی رنگ کے پردے لٹکاتے ہیں ۔
میز علالت کی وضع کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اس پر سارے پرہیزی کھانوں کے رکھنے کی گنجائش کے علاوہ غیر ضروری دواؤں ، ضروری پھلوں اور ازکار رفتہ آلات طب کو رکھا جاسکے ۔ مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کو ان کے سماجی رتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے بٹھانے کے لئے عام کرسیوں کے علاوہ خود مریض کی کرسی علالت کی جگہ بھی مختص کردی جاتی ہے ۔ ایک ایسی الماریٔ علالت بھی کمرے میں رکھی ہوتی ہے جس میں انواع و اقسام کے ایسے میوے ، مٹھائیاں ، گلدستے ، یونانی خمیرے اور مقوی ادویات رکھی جاتی ہیں جنہیں مزاج پرسی کے لئے آنے والے حضرات اپنے ساتھ ’’ہدیۂ علالت‘‘ کے طور پر مریض کے لئے لے آتے ہیں ۔ ایسے مریض اپنی علالت کو ایک سانحہ ہی نہیں ، اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ بلکہ آخری واقعہ تک سمجھ لیتے ہیں ۔ مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کا ایک رجسٹر بھی مرتب کیا جاتا ہے جس میں عیادت کنندگان کے نام پتے اور ٹیلیفون نمبر بڑی دوراندیشی کے ساتھ اس آس میں لکھوالئے جاتے ہیں کہ کسی ناگہانی صورت کے پیش آنے پر انہیں بروقت اطلاع دی جاسکے ۔ بعض نامی گرامی مریض ان کی عیادت کے لئے آنے والوں کے نام بڑے اہتمام اور التزام کے ساتھ اخباروں میں بھی شائع کرواتے ہیں تاکہ سندرہے اور وقت ضرورت کام نہ آوے ۔ ہمارے ایک وی آئی پی دوست نزلہ زکام میں مبتلا ہو کر بستر علالت پر دراز ہوگئے تو عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا اور ان کے اسمائے گرامی اخباروں میں پابندی سے شائع ہونے لگے ۔ جب ان کی علالت نے ’’شعلے‘‘ فلم کی سی مقبولیت حاصل کرلی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک ان کی ریاست کے چیف منسٹر ان کی مزاج پرسی نہیں کریں گے تب تک وہ صحت یاب نہیں ہوں گے ۔ مرکزی قیادت سے چیف منسٹر پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ موصوف کی مزاج پرسی ضرور کریں تاکہ خود چیف منسٹر کی کرسی محفوظ رہ سکے ۔ چیف منسٹر تیار بھی ہوگئے لیکن خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ خود چیف منسٹر بیمار ہوکر بستر علالت پر لیٹ گئے ۔ نتیجہ میں ہمارے وی آئی پی دوست کو مجبوراً صحت یاب ہونا پڑا ۔ یہاں تک کہ اخباروں میں خود ان کا نام بھی چیف منسٹر کی عیادت کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ۔
مزاج پرسی کرنا اور پرسہ دینا دونوں ہی فن کا درجہ رکھتے ہیں جس میں پہلے تو مریض کے ناز اٹھائے جاتے ہیں اور بالآخر بہت بعد میں اس کا جنازہ اٹھانے کی نوبت آجاتی ہے ۔آج ہم اپنے کالم میں مزاج پرسی کے بارے میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس معاملہ میں مزاح نگار کے موقف اور رویے کو واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ بحیثیت مزاح نگار ہمارا ذاتی خیال ہے کہ مزاح نگار دوسروں کی مزاج پرسی کرنے کا گُر بہت اچھی طرح جانتے ہیں (غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج اور مزاح میں ایک نقطہ کا ہی فرق ہوتا ہے) ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے معروضی نقطہ نظر اور گہری سنجیدگی کے باعث مزاح نگار خود اپنی مزاج پرسی کروانے کے معاملہ میں اناڑی پن کی حد تک حقیقت شناس ہوتے ہیں ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ بلی خالہ نے شیر کو پیڑ پر چڑھنے کا گر تو سکھادیا تھا لیکن جب پیڑ سے اترنے کا گر سکھانے کی نوبت آئی تو بلی کو اچانک ایک چوہا نظر آگیا اور وہ شیر کو اترنے کا گر سکھانا بھول گئی ۔ چنانچہ شیر آج تک پیڑ سے اتر نہیں سکتا اور مزاح نگار اپنی مزاج پرسی نہیں کرواسکتا ۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ رہے ہیں ۔
اول تو مزاح نگاروں کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے ۔ ابھی سات برس پہلے تک ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ علالت کس کو کہتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ٹانگیں تڑوائیں ۔ تب بھی کسی کو اپنی مزاج پرسی کرنے کا موقع عطا نہیں کیا ۔ دوسری طرف ہم نے دکنی زبان کے مستند شاعر اور منفرد مزاح نگار حمایت اللہ کو (جواب ماشاء اللہ پچھتر برس کے ہوگئے ہیں اور ہمارے بزرگ کہلائے جانے کے مستحق ہیں) ۔ جب بھی دیکھا چاق و چوبند ہی دیکھا ۔ مخفی مباد کہ ان سے ہماری دوستی نصف صدی پرانی ہے ۔ بخدا ہم نے انہیں کبھی چھینکتے ہوئے تک نہیں دیکھا مگر پچھلے دو مہینوں سے انہیں اچانک چلنے پھرنے میں تکلیف رہنے لگی تو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ مینڈکی کو بھی زکام ہوسکتا ہے ۔ اب حمایت بھائی بھی ہماری ہی طرح ہوگئے ہیں ، یعنی ان کی نقل و حرکت اب محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ پہلے منزل کے لئے وہ دوگام بھی چلتے تھے تو منزل بالکل سامنے آجاتی تھی اب منزل دکھائی تو دیتی ہے لیکن وہاں تک جانے کی ہمت نہیں پڑتی ۔ نتیجہ میں حمایت بھائی اب گھر سے باہر کم ہی نکلتے ہیں ۔ نتیجہ میں ہم بھی اب کہیں نہیں نکلتے کیونکہ تین سال پہلے جب دہلی میں ہماری ٹانگوں کی تکلیف میں اضافہ ہونے لگا تو ہم نے محض یہ سوچ کر حیدرآباد منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا کہ حیدرآباد میں حمایت بھائی کی ٹانگیں جو موجود ہیں ۔ یوں بھی ہم نے ساری زندگی دوستوں کے سہارے ہی گزاری ہے ۔ کسی دوست کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں ، کسی اور دوست کے کان سے اپنی بات سنتے ہیں ۔ دوستوں کے دل ہمارے سینہ میں دھڑک رہے ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہم بسا اوقات ان کے ذہنوں سے سوچتے بھی ہیں ۔ حمایت بھائی کی ٹانگوں کی صورت میں جب ہماری ٹانگیں بالکل ہی بے روزگار ہوگئیں تو ایک دن دیکھا کہ حمایت بھائی اپنے ڈرائیور کی مدد سے چل کر ہمارے پاس آرہے ہیں ۔ ہم نے پوچھا ’’جناب! ادھر کیسے آنا ہوا؟‘‘ بولے ’’اپنی مزاج پرسی کروانے آیا ہوں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’اتفاق دیکھئے کہ آج میں خود آپ کی طرف اپنی مزاج پرسی کروانے کی خاطر آنے والا تھا ۔ آپ نے پہل کیسے کردی؟‘‘ ۔ کہنے لگے ’’یہ سب وقت وقت کی بات ہے ۔ آج تم کل ہماری باری ہے‘‘ ۔ ان کے اس جواب نے ہمیں قائل کرادیا کہ سچا مزاح نگار وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے دکھ میں تو ضرور شامل ہوجاتا ہے لیکن کسی دوسرے کو اپنے دکھ میں شامل ہونے کا موقع عطا نہیں کرنا چاہتا ۔
ہمیں اندازہ ہے کہ ایک مزاح نگار کی مزاج پرسی کرتے وقت اپنے چہرے پر وہ مصنوعی تشویش ، رقت اور ترحم کے آثار پیدا ہی نہیں کرسکتا جو عموماً پیشہ ور عیادت کنندگان کسی مریض کے بستر علالت کے قریب پہنچ کر اچانک اپنے چہرے پر طاری کرلیتے ہیں ۔ بعض کا انداز مزاج پرسی تو کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے مریض کی آخری مرتبہ مزاج پرسی کررہے ہوں ۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اکثر مریض ڈاکٹروں کے غلط علاج یا اپنی صحیح بیماری کی وجہ سے نہیں مرتے بلکہ مزاج پرسی کرنے والوں کی مہلک مزاج پرسی کی وجہ سے گزر جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں مزاح نگار حضرات اگر اپنے پاس مزاج پرسی کرنے والوں کو پھٹکنے نہیں دینا چاہتے بلکہ بہ نفس نفیس خود جا کر اپنی مزاج پرسی کروالیتے ہیں تو نہایت نیک کام کرتے ہیں ۔ بہرحال ادھر خود ہماری مصروفیت کا زیادہ عرصہ احباب کے پاس جا کر خود اپنی مزاج پرسی کروانے اور ان کی مزاج پرسی کرنے اور کبھی کبھار پرسہ دینے میں صرف ہونے لگا ہے ۔ پچھلے دنوں ہم دلی گئے تو وہاں ایک عدد پُرسے کے علاوہ تین مزاج پرسیاں ہماری منتظر تھیں ۔ وہاں سے حیدرآباد واپس آئے تو یہاں بھی کم وبیش اتنی ہی مزاج پرسیاں ہمارا انتظار کررہی تھیں ۔ غرض پرسیوں اور پُرسوں کے بیچ ہماری حالت قابل رحم ہوتی جارہی ہے ۔ ہمیں اس وقت ایک مشہور رہنما کی یاد آگئی جو بے حد خوش اخلاق ، بامروت اور فرض شناس تھے ۔ شادیوں اور جنازوں میں شرکت کو ایک اہم اخلاقی فریضہ تصور کرتے تھے ۔ ایک دن انہیں دس بارہ جنازوں اور آٹھ دس شادیوں میں شرکت کرنے کا مرحلہ درپیش آگیا ۔ بیچارے ہڑبڑاگئے اور بے خیالی میں دولہا کو شادی کی مبارکباد دینے کی بجائے کہہ دیا ’’میاں جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔ اب صبر کرو ۔ مشیت ایزدی کے آگے کس کی چلی ہے ۔ خدا تمہیں صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین ثم آمین‘‘ ۔ (ایک پرانی تحریر)