اعلانات خوش کن، عمل ناانصافی پر مبنی
اقلیتی بجٹ ’’نام بڑے درشن چھوٹے‘‘ کے مترادف
محمد نعیم وجاہت
علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد یقینا اقلیتی بہبود کے بجٹ میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ جس کے لئے چیف منسٹرکے سی آر یقینا قابل مبارکباد ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 3 سال میں منظورہ اقلیتی بجٹ کا 50 فیصد حصہ بھی کبھی خرچ نہیں ہوا۔ بجٹ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اقلیتی بجٹ ہر سال اقلیتوں کے لئے ’’نام بڑے درشن چھوٹے‘‘ ثابت ہوا ہے۔ 2014-15 ء کے لئے 1000 کروڑ ، 2015-16 ء کے لئے 1100 کروڑ اور 2016-17 ء کے لئے اقلیتوں کا 1205 کروڑ روپئے کا بجٹ منظور ہوا ہے جو قابل ستائش اقدام ہے لیکن ہر سال کے اختتام پر اقلیتوںکو مایوسی ہوئی، جاریہ مالیاتی سال کے اختتام کیلئے صرف ایک ماہ باقی رہ گیا ہے لیکن ابھی تک صرف 400 کروڑ روپئے جاری ہوئے ہیں جن میں 270 کروڑ روپئے صرف فیس ری ایمبرسمنٹ اور اسکالرشپس اسکیم کے لئے خرچ کئے گئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کتنی سنجیدہ ہے۔ ماباقی 805 کروڑ میں ہوسکتا ہے مزید 100 تا 200 کروڑ روپئے جاری ہوسکتے ہیں۔ تب بھی منظورہ بجٹ میں صرف 50 فیصد اقلیتی بجٹ کی اجرائی ممکن ہوپائے گی۔ اقلیتوں کی ترقی اور بہبود کے معاملے میں اعلانات اور عمل میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے اقلیتوں سے جو وعدے کئے ہیں، اگر ان پر عمل کیا جاتا تو کے سی آر کا نام ہندوستان کی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کے سی آر حکومت اپنے بلند بانگ دعوؤں کو سچ کر دکھانے اور وعدوں کو وفا کرنے میں ناکام ہے۔ ہر سال کی طرح مسلسل تیسرے سال بھی حکومت نے وعدوں کے مطابق اقلیتوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ایک ہفتہ قبل اختتام کو پہونچے اسمبلی کے سرمائی سیشن میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود پر منعقدہ مختصر مباحث میں چیف منسٹر نے منی کنڈہ جاگیر کی 6 ایکر اراضی پر اسلامک کلچرل سنٹر کے لئے 40 کروڑ روپئے انیس الغرباء یتیم خانہ کی ہمہ منزلہ عمارت کے لئے 20 کروڑ، فلک نما کالج کے لئے 10 کروڑ اور تاریخی مکہ مسجد کی تزئین نو کے لئے 8 کروڑ روپئے جملہ 80 کروڑ روپئے یا اس سے کسی قدر زیادہ رقمی منظوری دیتے ہوئے اپنے آپ کو اقلیتوں کے چمپئن قرار دینے کی کوشش کی اور قیادت کا دعویٰ کرنے والی جماعت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی آہ کو فراموش کرتے ہوئے چیف منسٹر کی واہ واہ کرتے رہے۔ مگر جاریہ سال منظورہ اقلیتی بجٹ میں 800 کروڑ روپئے کی عدم اجرائی پر کوئی سوال نہیں کیا۔ کیوں نہیں کیا؟ حکومت اور قیادت میں کوئی میچ فیکسنگ ہوگئی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو مسلمانوں کے ذہن میں اُبھر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والی جماعت متحدہ آندھراپردیش میں تلگودیشم اور کانگریس کی بھی حلیف رہی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کی بھی تکمیل کی ہے۔ لیکن اسمبلی میں متحدہ آندھراپردیش میں اقلیتوں سے حکومتوں سے ناانصافی کرنے اور اوقافی اراضیات فروخت کرنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن ٹی آر ایس حکومت کی ناکامی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بلکہ ناکامیوں کی ساری ذمہ داری محکمہ اقلیتی بہبود عہدیداروں پر ڈالتے ہوئے چیف منسٹر اور حکومت کو پوری طرح کلین چٹ دے دیا گیا ہے۔ متحدہ آندھراپردیش میں حکومتیں اور علیحدہ تلنگانہ میں محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار کیسے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔ یہ کونسا پیمانہ ہے جس سے حکومتوں اور عہدیداروں کا توازن کیا جارہا ہے۔ حکمراں تبدیل ہوسکتے ہیں عہدیدار وہی رہیں گے پھر ایسی کیا مجبوری ہے۔ جو حکومت کا تحفظ کرنے اور عہدیداروں کو بدنام کرنے کے لئے مجبور کررہی ہے۔
2014 ء کے عام انتخابات میں کامیابی پر پہلے 4 ماہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے سی آر نے وعدہ کیا تھا۔ 32 ماہ گزرنے کے باوجود مسلم تحفظات فراہمی کے معاملے میں ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جارہی ہے اور اس وزیراعظم سے امید کی جارہی ہے جو وہ اور ان کی پارٹی مسلم تحفظات کی ابتداء سے مخالف رہی ہے۔ بی سی کمیشن کا تلنگانہ کے تمام اضلاع میں سماعت کرانے کے بجائے حیدرآباد میں 6 روزہ سماعت کراتے ہوئے اس کی رپورٹ پر اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ روزنامہ سیاست اور مسلمانوں کے اعتراضات کے بعد جلد بازی سے گریز کیا گیا۔ 11 اکٹوبر 2016 ء کو دسہرہ کے موقع پر چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے ایک نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنے فارم ہاؤز پر تلنگانہ کے مسلم قائدین کا اجلاس طلب کرتے ہوئے مسلم مسائل کا جائزہ لیا تھا۔ اس وقت چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی آر بھی موجود تھے۔ چیف منسٹر نے اپنے فرزند کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے فرزند امریکہ کے دورے پر جارہے ہیں ان کی واپسی کے بعد اندرون 20 یوم تمام اقلیتی کارپوریشن اور بورڈ کے نامزد عہدوں پر تقررات کے عمل کا آ غاز کیا جائے گا۔ وعدے کے 100 دن مکمل ہونے کے باوجود چیف منسٹر نے اقلیتی اداروں، اردو اکیڈیمی، حج کمیٹی، اقلیتی کمیشن، اقلیتی مالیاتی کارپوریشن پر کوئی تقررات نہیں کیا۔ ہائیکورٹ کی ہدایت پر وقف بورڈ کی تشکیل کے عمل کا آغاز ہوا ہے وہ بھی فی الحال تعطل کا شکار ہے۔ ان 100 دن کے دوران چیف منسٹر تلنگانہ کے فرزند کے ٹی آر نے 6 تا 7 بیرونی ممالک کا دورہ کیا۔ ان ممالک کے صنعتکاروں، تاجروں، ماہرین آئی ٹی اور دوسروں سے ملاقات کرتے ہوئے تلنگانہ میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کی ہے۔ تاہم تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو اقتدار دلانے میں اہم رول ادا کرنے والے ٹی آر ایس کے مسلم قائدین سے ملاقات کرنے اور انھیں بورڈ و کارپوریشن پر نامزد کرنے کا کوئی جائزہ نہیں لیا اور نہ ہی چیف منسٹر نے اقلیتی قائدین کی فہرست تیار نہ ہونے پر اپنے فرزند سے وضاحت طلب کی۔ اس اجلاس میں چیف منسٹر کے سی آر نے سابق آئی اے ایس آفیسر شفیق الزماں کو بھی مدعو کیا تھا اور سارے مسلم قائدین کو بتایا تھا کہ وہ بہت جلد شفیق الزماں کو حکومت کا مشیر بنائیں گے اور وہ اقلیتی بہبود کے معاملے میں حکومت کو مفید مشورے پیش کریں گے۔ لیکن وعدے کی خلاف ورزی کی گئی اور اے کے خان کو ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہی حکومت کا مشیر نامزد کیا گیا۔ ہمیں اے کے خان کو حکومت کا مشیر بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شفیق الزماں کو نظرانداز کرتے ہوئے انھیں کیوں رسوا کیا گیا ہے۔ وہ کونسی طاقت ہے جس نے چیف منسٹر پر دباؤ ڈالتے ہوئے شفیق الزماں کو مشیر بنانے سے روکا ہے۔ ریاست میں تمام کارپوریشن اور بورڈ کے صدورنشین کا انتخاب کردیا گیا ہے اور وہ اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ ان کارپوریشن میں ایک مسلم قائد کے نام پر غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی اقلیتی کارپوریشن و بورڈ کے عہدوں پر تقررات کئے گئے ہیں، نے کیا وجہ ہے کہ چیف منسٹر اقلیتی اداروں پر تقررات کو نظرانداز کررہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین بھی خاموش ہیں۔ وہ صرف چیف منسٹر اور ٹی آر ایس قائدین کی دلجوئی میں مصروف ہیں اپنے حقوق اور مسلمانوں سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف کوئی آواز اٹھانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ جب چیف منسٹر کو اپوزیشن کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ اس کا جواب دینے کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں یا چیف منسٹر کی جانب سے کوئی اعلان کیا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کرنے کے لئے بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ بجٹ کے عدم استعمال پر کوئی سوال نہیں کرتے۔ آلیر انکاؤنٹر پر خاموش رہے۔ 12 فیصد مسلم تحفظات پر کوئی احتجاجی عمل اختیار نہیں کیا۔ اقلیتی اداروں پر عدم ادائیگی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکومت یا چیف منسٹر کو کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا افسوس کی بات ہے کہ جب بھی وزراء یا چیف منسٹر کی جانب سے اقلیتی بہبود پر کوئی جائزہ اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ اس میں ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کو بھی مدعو نہیں کیا جاتا۔ اجمیر میں تلنگانہ کے زائرین کو رباط فراہم کرنے کے لئے 5 کروڑ روپئے 2 سال قبل منطور کئے گئے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے راجستھان پہونچ کر چیف منسٹر سے ملاقات کی۔ اراضی مختص کرنے کی اپیل کی لیکن آج تک اراضی کی نشاندہی کی گئی۔ حکومت کی جانب سے اراضی فراہم نہیں کی جاتی تو کوئی بات نہیں تلنگانہ حکومت دوسری اراضی خریدیں۔ اقلیتی بجٹ حکومت کے خزانے میں جانے سے بہتر ہے۔ 10 کروڑ روپئے سے اراضی خریدی جائے اور وہ 10 کروڑ روپئے سے عالیشان عمارت تمام سہولتوں کے ساتھ تعمیر کی جاسکتی ہے۔ وقف بورڈ کو گرانٹ ایڈ کے لئے 58 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر ابھی تک صرف ایک ہی قسط جاری کی گئی ہے۔ مالیاتی سال ختم ہونے کے لئے صرف 30 دن باقی ہیں۔ چیف منسٹر نے 2014 ء کے عام انتخابات میں ناجائز قبضہ کردہ تمام وقف اراضیات دوبارہ وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ابھی تک ایک انچ قبضہ شدہ وقف اراضی وقف بورڈ کے حوالے نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی کو نوٹس دینے کی بھی جرأت کی گئی ہے۔ وقف جائیدادوں کا تحفظ کرنے کے لئے وقف کمشنریٹ بنانے کا اعلان کیا گیا جس پر بھی کوئی کارروائی نہیں 71 اقلیتی اقامتی اسکولس کی تعداد کو آئندہ تعلیمی سال سے بڑھاکر 200 کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو قابل ستائش ہے۔ 129 اقلیتی اقامتی اسکولس کا اضافہ ہورہا ہے مگر یہاں پر بھی اقلیتی اسکولس کے ساتھ حکومت سوتیلا سلوک کررہی ہے۔ آئندہ تعلیمی سال سے 119 بی سی ریزیڈنشیل اسکولس قائم کئے جارہے ہیں ان اسکولس میں 4000 سرکاری تدریسی و غیر تدریسی عملے کا تقرر کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ اس طرح ایس سی ایس اور بی طبقات کے ریزیڈنشیل اسکولس کے لئے 11,666 جائیدادوں پر تقررات کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے جو اسکولس وجود میں نہیں آئے انھیں عملے کے تقرر کی اجازت دی گئی ہے جبکہ 71 اقلیتی اقامتی اسکولس میں مستقل تقررات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ کیا یہ اقلیتوں کے ساتھ کیا جانے والا انصاف ہے۔ تقریباً دیڑھ دو سال قبل اقلیتی بے روزگار نوجوانوں کو 80 فیصد سبسیڈی پر ایک تا 10 لاکھ روپئے قرض دینے کا وعدہ کرتے ہوئے درخواستیں طلب کی گئیں۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 1.67 لاکھ نوجوانوں نے قرض کے لئے درخواستیں پیش کیں جس کی آج تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ سینکڑوں درخواست گذار اقلیتی مالیاتی کارپوریشن دفتر کے چکر کاٹتے ہوئے مایوس لوٹ رہے ہیں۔ اقلیتی بجٹ موجود ہے تو اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر استعمال نہ کرنے کی وجوہات سمجھ سے باہر ہیں۔ کانگریس کے دور حکومت سال 2012 ء میں نئے حج ہاؤز کے لئے 10 کروڑ روپئے مختص کئے گئے جس کا آج تک استعمال نہیں ہوا۔ حج ہاؤز کے بازو والی اراضی پر کانگریس کے دور حکومت میں ہمہ منزلہ عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوا جو آج تک مکمل نہیں ہوئی بلکہ تعمیری کام رکا ہوا ہے۔ اس کا بھی کوئی جائزہ نہیں لیا گیا سڑک توسیع کے دوران وقف کی کئی قیمتی اراضیات ضائع ہوئی ہیں۔ بلدیہ کی جانب سے کروڑہا روپئے وقف بورڈ کو باقی ہے لیکن چیف منسٹر نے بقایا جات کی ادائیگی کے لئے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جبکہ آر ٹی سی کو خسارے سے بچانے کے لئے چیف منسٹر نے مداخلت کرتے ہوئے بلدیہ حیدرآباد سے آر ٹی سی کو 500 کروڑ روپئے جاری کرنے کو یقینی بنایا۔ ٹی آر ایس حکومت اقلیتوں کے لئے صرف دلخوش اعلانات کرتے ہوئے کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش کررہی ہے۔