آخری وقت کلمہ کی چاہت ایک مسلمان کی علامت

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

حج، صاحب حیثیت شخص پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ حج بارہویں قمری مہینہ ذی الحجہ کے دوسرے ہفتہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر سے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور شہر کے مضافات میں عرفات، مزدلفہ اور منٰی میں ایک ہفتہ گزارتے ہیں۔ خدام الحجاج ہر حاجی کی رہنمائی کے لئے جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ان مخصوص ایام کے سوا جب کعبہ کا قصد کیا جائے تو یہ عمرہ کہلاتا ہے۔ حج اور عمرہ کی تفصیل اس طرح ہے:
حج کے لئے معمول کا لباس اتارکر ایک مخصوص پہناوا زیب تن کیا جاتا ہے، جسے احرام کہتے ہیں۔ اس میں ایک سفید چادر ہوتی ہے، جسے بطور تہبند باندھتے ہیں، جب کہ اس سفید کپڑے کا دوسرا ٹکڑا کندھے کے اوپر چادر کی طرح اوڑھ لیا جاتا ہے اور سر ننگا رکھا جاتا ہے۔ خواتین اپنے معمول کے لباس میں ملبوس رہتی ہیں، جو باپردہ اور شائستہ ہو، بازو اور ٹانگیں ٹخنوں تک ڈھکی ہوئی ہوں۔ بیرون عرب یا مکہ کے باہر سے آنے والے لوگوں کے لئے لازم ہے کہ وہ احرام حدود حرم یعنی میقات سے باہر ہی پہن کر آئیں۔ اہل مکہ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ

اپنے گھروں میں ہی احرام پہن سکتے ہیں۔ حج کا پہلا مرحلہ عرفات سے شروع ہوتا ہے، جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان ایک ہی لباس میں ملبوس میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں، جہاں وقوف عرفات ہوتا ہے۔ خطبہ حج کے بعد ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کرکے شب بسری کے لئے یہاں سے کوچ کرکے مزدلفہ پہنچنا ضروری ہے، جہاں رات کھلے آسمان تلے گزاری جاتی ہے۔ اس دوران بندے اپنے رب کے حضور عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے، اپنے گناہوں کا اقرار کرتے اور بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے بعد ۱۰،۱۱ اور ۱۲؍ ذی الحجہ کے ایام منٰی میں گزارے جاتے ہیں، جہاں تینوں دن شیطان کو علامتی طورپر کنکر مارکر دھتکارا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ کعبہ میں حاضری دے کر طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی جاتی ہے۔ احرام میں ملبوس ہونے کے بعد اسے اتارنے تک حاجی ہر نماز کے بعد تلبیہ کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

عمرہ اور حج میں یہ فرق ہے کہ عمرہ میں عرفات، مزدلفہ اور منٰی کے مناسک ادا نہیں کرنے پڑتے، بلکہ اس میں صرف طواف کعبہ اور سعی کے فرائض ہیں۔ اس میں مکہ کے مکینوں کو بھی احرام باندھنے کے لئے میقات سے باہر جانا پڑتا ہے۔ طواف اور سعی کے بعد ’’حق‘‘ یعنی سر منڈاکر احرام اتارکر معمول کا لباس پہن لیا جاتا ہے اور عمرہ مکمل ہو جاتا ہے۔

اسی طرح زکوۃ سرمایہ کی بچتوں، اناج کے ذخیروں اور ایسی املاک پر واجب الادا ہوتی ہے، جو بڑھ رہی ہوں۔ مثلاً زرعی پیداوار، تجارت، کانکنی، بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ، گائیوں اور اونٹوں کے گلے جو سرکاری (قدرتی) چراگاہوں میں چرتے ہیں، آج کل تو یہ ٹیکس نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلم ممالک میں بھی انفرادی ذمہ داری بنادی گئی ہے، جو مسلمان ایک خیرات کے طورپر ادا کرتے ہیں۔ اس کا نصاب یہ ہے کہ ایک مخصوص رقم کی بچت پر ڈھائی فیصد شرح سے زکوۃ کی ادائیگی لازمی ہے۔ اگر وہ شخص مقروض ہے تو پہلے قرض کی رقم قابل زکوۃ رقم سے منہا کی جاتی ہے۔ زکوۃ کی رقم براہ راست ضرورت مندوں کو ادا کی جاتی ہے اور جہاں اسے باضابطہ ادارہ کی شکل میں دی گئی ہو، وہاں ادارے کے سپرد کی جانی چاہئے۔ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق زکوۃ کا مصرف یہ ہے: ’’… یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان لوگوں کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرضہ داروں کی مدد کرنے میں راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں‘‘۔ (۹؍۶۰)

ایک اور ٹیکس دو سالانہ تہواروں کے موقع پر واجب الادا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے فوری بعد اتنی رقم جو ایک بالغ شخص کے پورے دن کے کھانے کے لئے کافی ہو، غریب کو دینا لازمی ہے (یعنی صدقہ فطر) اور دوسرا تہوار جو حج کے موقع پر آتا ہے عید الاضحی ہے۔ نماز عید کے بعد صاحب حیثیت لوگ قربانی پیش کرتے ہیں اور گوشت کا ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جب کہ ایک حصہ اپنے گھر میں استعمال کی اجازت ہے۔
مالی معاملات میں یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ سودی لین دین، سٹہ بازی، لاٹری یا اس سے ملتے جلتے کسی کاروبار میں حصہ لے۔ کوئی بھی شخص خوشی سے سود ادا نہیں کرتا، اس لئے کسی شخص کو دیئے گئے قرض پر سود کی ادائیگی کے مطالبہ سے احتراز کرنا چاہئے۔
مسلمان پر جب موت کا لمحہ طاری ہوتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی زبان پر کلمہ جاری ہو اور اس دوران وہ اپنے رب کے حضور جانے کے لئے یہ دنیا چھوڑدے۔ اس کے بستر کے ارد گرد موجود لوگ کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھ کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس لمحہ اس کی زبان پر کلمۂ طیبہ جاری ہو جائے۔ اسے تلقین کہتے ہیں۔ روح کے نکلنے کے بعد جسم کے سخت ہونے سے قبل مرنے والے کے ہاتھ سینہ پر اس طرح رکھ دیئے جاتے ہیں، جیسے وہ نماز میں قیام کی حالت میں کھڑا ہو، یا پھر پہلوؤں کے ساتھ لگا دیئے جاتے ہیں، جیسے رکوع سے اٹھنے کے بعد ہوتے ہیں۔

جسد مردہ کی تدفین سے قبل اسے غسل دیا جاتا ہے اور اسے سفید سوتی کپڑے کی تین چادروں میں لپیٹ کر کفن پہنایا جاتا ہے۔ غسل دیتے وقت پہلے مرحلہ پر اس کا وضوء کرایا جائے، پھر صابن یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ملاکر پانی جسم کے اوپر بہایا جاتا ہے اور پھر (کپڑے کی تھیلیاں ہاتھوں پر چڑھاکر) پورے جسم کو نرمی سے مل کر صاف کیا جاتا ہے، جس کے بعد صاف پانی بہاکر صابن وغیرہ کا اثر زائل کردیا جاتا ہے۔ آخری مرحلہ پر کافور ملا ہوا پانی جسم پر بہایا جاتا ہے۔ اگر غسل کے لئے پانی میسر نہ ہو تو تیمم بھی کافی ہے۔ جسد کی تکفین کے بعد اس کی مغفرت کے لئے نماز جنازہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

قبر کھودتے وقت کوشش ہوتی ہے کہ کعبہ رخ کے متوازی ہو اور دفن کرتے وقت سر کو ہلکا سا اس طرح رخ دے دیا جاتا ہے، تاکہ منہ کعبہ کی طرف ہو جائے۔ میت کو لحد میں اتارتے وقت یہ دعاء پڑھی جاتی ہے: بسم اللّٰہ علی ملت رسول اللّٰہ۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تدفین کے بعد دو فرشتے مردہ کے پاس آتے ہیں اور اس سے اس کے دین کے بارے میں کچھ سوال کرتے ہیں۔ اسی بنا پر تدفین کے بعد جب تمام لوگ رخصت ہو جاتے ہیں تو ایک شخص قبر پر رک جاتا ہے اور کچھ مخصوص کلمات دہراتا ہے۔ یہ گویا مردہ کو لقمہ دیا جاتا ہے کہ وہ سن کر فرشتوں کے سوالوں کے جواب دے سکے۔ (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)