آج دو چاند نمودار ہوئے ہیں ایک ساتھ۔شکیل شمسی

آج سے 1447برس قبل 870ء میںیعنی ابرہہ کے لشکر فیل کی تباہی وبربادی کے ایک سال بعد جہل کے اندھیروں کو چیر کر ایک مقدس ماں کی آغوش میں ایک ایسا متبرک چاند نمودار ہوا جس پر اللہ نے سلسلہ نبوت کا اختتام کرنے کا فیصلہ کیا۔ مکہ کی وادیوں میں اترنے والے اس چاند کو دنیا نے بظاہر تو یتیم سمجھا لیکن اصلیت یہ تھی کہ بنی ہاشم کا یہ یتیم قیامت تک آنے والے ہر یتیم کی آنکھ سے آنسو خشک کرکے اس میں محبتوں کے چاندستارے بھرنے کو آیاتھا۔ فلک پر چمکنے والا چاند جھک جھک کر سلام کررہا تھااور اس چاند کو جو صدیوں سے کچلی جارہی قوم نسواں کو ایک نئی روشنی سے ہمکنار کرنے کے لئے زمین پر اتارا گیاہے۔ زندہ دفن کی جانے والی لڑکیوں کے ڈھانچے یقیناًآمد رسوولؐ کے موقع پر چیخ چیخ کرکہہ رہے ہوں گے کہ کاش ہمارے قتل سے پہلے زمین پر رحمتہ العالمینؐ کا ظہور ہوتااور ہم مٹی کے بوجھ تلے اپنی زندگی کی آخری سانس لینے پر مجبور نہ ہوتے۔

ہمیں تو یقین ہے کہ آج بھی رحم مادر میں جو لڑکیاں قتل کی جاتی ہیں وہ بھی یا محمدؐ یا محمدؐصدائیں بلند کرتی ہوں گی اور فریاد کرتی ہوں گی کہ اے اللہ کے رسول ؐ ہم کو بھی حیات نوعطاکیجئے۔اسی چاند کی روشنی کا نور حبشی غلاموں پر پڑا تو وہ آن واحد میں غلامی کے دائرے سے نکل کر صحافیؓ رسولؐ کہلائے جانے کے حقدار ہوئے۔ اس چاند کا نام محمدؐ قرار پایا ایک ایسا نام جو اس دنیا نے کبھی سنا نہیں تھا‘ ایک ایسا نام جو قدرت کی لغت میںآخری نبی کیلئے محفوظ رکھاگیاتھا۔حضرت امینہؓ کی آغوش کے اس چاند کے نور کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زندگی میں بھی روشن تھا اور دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی دنیا کے اندھیروں کو مٹارہا ہے ۔

دنیا کے ہر گوشے گوشے میں پھیلنے والی اذان کی آواز کے ساتھ ساتھ اسم محمد بھی ہوا کے دوش پر سوار ہوکر ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک اور اس فرش سے لے کر عرش تک ہر گھڑی اور ہر وقت پہنچ رہا ہے۔یقیناًدنیا کی سب سے خوش نصیب قوم ہے وہ جس کو ختم المرسلین کی پیروی کرنے کاشرف ملا: بلاشبہ قابل افتخار ہے یہ شرف ہم اذان‘ اقامت تشہد او رسلام میں دن میں پانچ بار گواہی دیتے ہیں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘ لیکن افسوس کے سب سے بڑ رسول کی امت ہونے کے باوجود ہم کو دنیا میں ذلیل وخوار کئے جانے کی ہرممکن کوشش ہورہی ہے۔

جو ساری دنیا کے لئے رحمت بناکر اتارے گئے تھے اسی رسول کے نام پر لوگوں کی گردنیں کامی جارہی ہیں‘مسلمانوں کی جیسی شکل بناکر اسلام کے اصولوں پر چھریاں چلانے والے سینکڑوں شقی القلب گروہ دنیا کے کونے کونے میں گھوم کر ہمارے نرم دل آقا کے پیغام کو مجروح کررہے ہیں۔اتنا ہی نہیںیہی بدبخت عناصر مسلمانوں ک مسلک‘ ذات اور قبیلہ کے نام پر منشتر کرنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں۔

آج ہم سے ساری دنیا میں رحمت کل ک اس زمین پر اترنے کا جشن منارہے ہیں تو اقائے نامدارؐکے میلاد کا انداز بھی ایسا ہوناچاہئے کے دشمن تک ششدررہ جائیں۔ عید میلاد کے جلوس نکلیں توایسے نکلیں کے دیکھنے والے عش عش کر اٹھیں اور کہیں یہ جلوس ختم رسلؐکی شیایان شان ہے۔

جلوس یا جلسہ کا انعقاد کسی کی دلآزاری کرنے کے ارادے سے نہ کیاجائے ‘ بس انحضورؐ کی خوشنودی کے علاوہ کچھ بھی پیش نظر نہ ہو۔ہاں آخر میں ایک ضروری بات کہتاچلوں کہ جو لو گ میلاد النبیؐ کا جشن نہیں مناتے یا ان تقریبات کے خلاف ہیں ان سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ براہ کرم سوشیل میڈیا کے ذریعہ ان تقریبات کی مخالفت کرکے مسلمانوں کے اختلافات کو نفاق میں تبدیل نہ کریں۔

یہ بحث نہ کریں کہ اس دن ولادت ہوئی تھی کہ وفات؟ہم جانتے ہیں پہلے بارہ ربیع الاول کو بارہ وفات کہاجاتاتھا لیکن بعد میں سب مسلمانوں نے اس بات کو اجماع کرلیاکہ اسے عیدمیلادالنبیؐ کہاجائے تو اب بحث کیوں؟اور اس بات پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ربیع الاول میں ہی ہمارے آقاؐ نے اس جہاں میں قدم رکھاتوتاریخ پربحث کے بجائے پورے مہینے ذکر رسوول اور نعت خوانی کرکے الفت رسول کا حق اداکیجئے