ساکشی مہاراج کی زہر افشانی… اترپردیش اصل نشانہ
شریعت کے خلاف مدراس ہائیکورٹ کا فیصلہ
رشیدالدین
پانچ ریاستوںکے اسمبلی انتخابات کیلئے تمام سیاسی جماعتیں کمربستہ ہوچکی ہیں۔ انتخابات سے عین قبل حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کے فیصلہ نے سیاسی ماحول کو پہلے ہی سے گرما دیا اور انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل مہم کا عملاً آغاز ہوگیا ۔ برسر اقتدار پارٹی نوٹ بندی کے فیصلہ کو درست قرار دینے میں مصروف ہوگئی ۔ وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے حالات میں بہتری اور اچھے دن کیلئے 50 دن کی مہلت مانگی تھی، ان پر ایک ایک دن گراں گزر رہا تھا۔ 50 دن میں مودی نے نوٹ بندی کو ملک و قوم کے حق میں ثابت کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کیا ۔ اسٹیج اور موقع محل بھلے ہی کچھ ہو، مودی اپنے انداز میں نوٹ بندی کی تائید کرتے رہے۔ جب 50 دن مکمل ہوئے تو مودی نے قوم سے خطاب تو کیا لیکن اصل موضوع سے بھٹک چکے تھے ۔ اس کے بعد سے مودی جارحانہ کے بجائے مفاہمانہ اور دفاعی موقف میں دکھائی دینے لگے۔ 50 دن کے بعد بھلے ہی بینکوں اور اے ٹی ایمس کی قطاروں میں کمی آئی ہے لیکن جس طرح ملک کی ترقی کی ریل پٹری سے اترچکی ہے ، اس کا اندازہ ماہرین معاشیات ہی بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ نوٹ بندی کے منفی نتائج اور معیشت و ترقی میں انحطاط کے اثرات آنے والے دنوں میں عیاں ہوں گے ۔ عام آدمی کو بس اتنا محسوس ہوا کہ اس کا روز مرہ کا بجٹ اتھل پتھل ہوچکا ہے ۔ عوام کس طرح قطاروں میں نظر آئیں گے جبکہ آج بھی رقم نکالنے پر پابندی برقرار ہے جو کسی بھی حکومت کے اختیار سے تجاوز کی طرح ہے۔ ان حالات میں انتخابات کا اعلان بی جے پی کیلئے اینٹی کلائمکس ثابت ہوا۔ اپوزیشن کو انتخابی مہم کیلئے ایک موضوع ہاتھ آگیا۔ اس طرح وقت سے پہلے ہی انتخابی بگل بج گیا تھا۔ بی جے پی کی ساری امیدیں اترپردیش سے وابستہ ہیں لیکن وہاں بھی دال گلتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ جن ریاستوں میں چناؤ مقرر ہے ، ان میں گوا کے سوائے دیگر چار ریاستوں میں بی جے پی کیلئے ماحول سازگار نہیں ۔ مختلف غیر جانبدار انتخابی سروے کے مطابق وزیر دفاع منوہر پریکر کی مضبوط گرفت کے نتیجہ میں گوا میں بی جے پی کا پلڑا بھاری ہے جبکہ پنجاب میں اکالی دل ۔بی جے پی اتحاد کو عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔ وہاں کانگریس اقتدار میں واپسی کے مرحلہ میں ہے۔ اگر عام آدمی پارٹی کا مظاہرہ بہتر رہے تو ووٹ کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی ۔ اکالی دل اتحاد کو ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکالی دل حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کے بجائے ووٹ کی تقسیم پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح بی جے پی کو اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے انتشار سے امیدیں وابستہ ہیں، جو محض امید ہی دکھائی دے رہی ہے۔ اتراکھنڈ اور منی پور میں کانگریس کے مضبوط موقف کی اطلاعات ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے واحد امید کی کرن اترپردیش ہے، جہاں وزیراعظم نریندر مودی اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دیں گے۔
یہ گجرات نہیں ہے کہ نفرت کے سوداگروں کے بل پر کامیابی حاصل کی جاسکے۔ عام طور پر ریاستوں کے چناؤ میں انتخابی مہم ریاست تک محدود رہتی ہے لیکن نریندر مودی کے غلط فیصلوں نے ملک بھر میں پارٹی کے خلاف مہم چھیڑدی ہے ۔ نوٹ بندی کے خلاف مغربی بنگال اور دہلی میں جاری احتجاج کا اثر انتخابی ریاستوں پر پڑسکتا ہے ۔ انتخابی مہم کیلئے بی جے پی کے پاس واحد چہرہ نریندر مودی ہیں، لہذا پانچ ریاستوں کے چناؤ سے ان کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے ۔ بی جے پی کو 2 لوک سبھا ارکان سے اقتدار تک پہنچانے والے چہروں کو پس منظر میں کردیا گیا۔ ایک ہی شخصیت پر پارٹی کا انحصار بسا اوقات نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ ویسے بھی نریندر مودی کی وہ مقبولیت باقی نہیں رہی جو 2014 ء میں تھی ۔ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی میں پھوٹ کا خواب دیکھنے والی بی جے پی نے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ ٹی وی چیانلس ، باپ بیٹے اور چچا کے اختلافات کو ہوا دینے میں دن رات مصروف رہے۔ ٹی وی اینکرس صورتحال کو کچھ اس طرح پیش کر رہے تھے ،جیسے سب کچھ ان کے نیوز روم میں ہورہا ہو۔ ملائم سنگھ کے اطراف مودی نواز ٹولے کی سازش بھی کارگر ثابت نہ ہوسکی اور انتخابات سے قبل پارٹی کے عوامی نمائندوں نے اکھلیش کو اپنا قائد منتخب کرلیا ۔ ایک طرف ملائم سنگھ مفاہمت کا اشارہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ انتخابی نشان سیکل کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع ہوچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن اگر دونوں گروپس کو علحدہ انتخابی نشان الاٹ کرے اور اترپردیش میں سماج وادی کے دو گروہ انتخابات میں حصہ لیں تو یقینی طور پر بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی سہ رخی مقابلہ کے انتظار میں ہے، وہ چاہتی ہے کہ مسلمان اور دوسرے سیکولر ووٹ سماج وادی کے دو گروپس اور بی ایس پی میں تقسیم ہوجائیں تاکہ اس کیلئے اقتدار کی راہ آسان ہوسکے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملائم سنگھ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکھلیش کے حق میں دستبردار ہوجائیں کیونکہ صرف وہی بی جے پی سے مقابلہ کے اہل ہیں۔ بی جے پی کے پاس اترپردیش میں کوئی چہرہ نہیں ہے جسے چیف منسٹر کے طور پر پیش کیا جاسکے ۔ ریاستی قیادت کمزور ہے ۔ یو پی سے تعلق رکھنے والے راج ناتھ سنگھ کو مرکز سے منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی بی جے پی کامیابی کے بارے میں مایوس دکھائی دے رہی ہے ۔ اکھلیش یادو اور کانگریس میں انتخابی مفاہمت کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ یہ اتحاد بھی سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ نوٹ بندی کے باوجود لوک سبھا اور اسمبلیوں کے ضمنی چناؤ اور مجالس مقامی میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن اترپردیش کی صورتحال مختلف ہے ۔ 2014 ء لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو جو کامیابی ملی تھی ، وہ اب اسمبلی میں آسان نہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے اہم رکاوٹ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے جس میں مذہبی جذبات بھڑکانے کو انتخابی جرم قرار دیا گیا ۔ فرقہ وارانہ طور پر حساس ریاست میں مذہبی جذبات بھڑکاکر ووٹ حاصل کرنا بی جے پی کا معمول تھا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ نے یہ راستہ بھی بند کردیا ہے۔ عدالت کا خوف کچھ اس طرح طاری ہے کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ ونئے کٹیار کو کہنا پڑا کہ رام مندر مسئلہ پر بی جے پی خاموش رہے گی۔ 1990 ء کی رام مندر تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے ونئے کٹیار کو پارٹی کے قومی ایجنڈہ میں شامل رام مندر مسئلہ سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ظاہر ہے کہ جب فرقہ وارانہ نوعیت کے حساس مسائل نہ ہوں تو پھر بی جے پی کیلئے انتخابی راہ اور بھی کٹھن ہوجائے گی۔
جس طرح مثل مشہور ہے کہ پرانی عادت دیر تک برقرار رہتی ہے ، ٹھیک اسی طرح بی جے پی میں موجود نفرت کے سوداگر سماج میں ظاہر گھولنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مرکز نے بی جے پی کے اقتدار کے ساتھ ہی ان سوداگروں کو جیسے لائسنس مل چکا ہے ، گزشتہ ڈھائی برسوں میں ساکشی مہاراج ، سادھوی نرنجن جیوتی ، سادھوی پراچی ، یوگی ادتیہ ناتھ اور گری راج جیسے قائدین نے اپنے بے لگام بیانات کے ذریعہ سماج کو بانٹنے کی کوشش کی۔ نریندر مودی نے کسی ایک کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں کی جبکہ مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کے احترام کی دہائی بیرونی ممالک میں دیتے رہے۔ عادت سے مجبور ساکشی مہاراج نے بابری مسجد اور آبادی میں اضافہ کے مسئلہ پر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی ۔ 2 جنوری کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ساکشی مہاراج پہلے شخص تھے جنہوں نے متنازعہ ریمارکس کرتے ہوئے اترپردیش کے انتخابی ماحول کو بگاڑنے اور مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ۔ الیکشن کمیشن نے وضاحت طلب کرتے ہوئے سرزنش کی اور آئندہ باز رہنے کی صلاح دی ۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ’’جمہوریت میں مہاراج‘‘ کہاں سے آگئے۔ نام میں راجہ مہاراجہ شامل کرلینے کا مطلب یہ نہیں کہ قانون سے بالاتر ہوجائیں۔ آبادی میں اضافہ اور زائد بچوں کی پیدائش کیلئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے ساکشی شاید بھول گئے کہ آر ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوؤں کو زائد بچوں کی صلاح دی ہے۔ اتنا ہی نہیں پراوین توگاڑیہ نے تو دوا بھی تیار کرلی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات اور الیکشن کمیشن کی سختی کے چلتے اترپردیش میں رام مندر اور یکساں سیول کوڈ مسائل جیسے انتخابی موضوع بنانے کے امکانات کم ہیں اور بی جے پی اپنے من پسند موضوعات سے محروم رہے گی۔
اسی دوران مدراس ہائی کورٹ نے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے ایک اہم فیصلہ سنایا جس کے تحت طلاق کے سلسلہ میں قاضی کے سرٹیفکٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ شریعت اسلامی کے خلاف ملک کی عدالتوں کے فیصلوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کو بنیاد بناکر مرکز نے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سمت پیشرفت کی ہے۔ مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی کے بارے میں عدالت کی مناسب رہنمائی نہیں کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مذہبی ادارے مقدمہ میں فریق بن کر عدالت کی رہنمائی کرتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شادی اور دیگر معاملات میں قاضی کی سند حکومت کے پاس قابل قبول ہے تو پھر طلاق کی کیوں نہیں ؟ شوہر یا بیوی کے انتقال کی صورت میں ڈیتھ سرٹیفکٹ کے حصول کیلئے قاضی کا جاری کردہ سرٹیفکٹ ہی بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے ۔ چونکہ ہندو دھرم میں طلاق کی گنجائش نہیں ، لہذا عدلیہ کو شریعت اسلامی کے اس اصول کے بارے میں اکثر غلط فہمی پیدا ہورہی ہے ۔ اسلام فطری مذہب ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ کی رہنمائی موجود ہے۔ ایسے وقت جبکہ شریعت اور شریعت کے ماننے والوں کے خلاف مختلف گوشوں سے حملے ہورہے ہیں، مسلم پرسنل لا بورڈ کا وجود اور عدم وجود برابر ہوچکا ہے ۔ بورڈ کو ان معاملات میں جس طرح متحرک رہنا چاہئے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ ان حالات میں ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر ایک پیام دیتا ہے ؎
اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا