آبِ زم زم

کے این واصف
انسان کی اپنی ہزاروں سال کی تاریخ میں اس نے بے پناہ ترقی کی ۔ پتھر کے دور سے چلا اور ’’نانو ٹکنالوجی‘‘ تک پہنچا اور ترقی کی منازل طے کرنے کا یہ سفر ہنوز جاری ہے ۔ انسان کی ہر میدان میں حیران کن ترقی کے باوجود قدرت کے کرشموں کے آگے انسان کا ذہن آج بھی محو حیرت رہتا ہے ۔ انسانی عقل کو حیران کرنے والے اس زمین پر موجود اشیاء کاشمار بھی انسان کیلئے مشکل ہے ۔ آب زم زم بھی ایک کرشمہ قدرت ہے ۔ یہ چشمہ عرب کے اس صحرا میں برسوں سے جاری ہے ۔ ہمارے مشاہدے میں جو کنویں رہے ہیں ان میں زم زم کا کنواں بالکل مختلف ہے ۔ اول تو اسے کسی انسانی ہاتھوں نے نہیں کھودا ۔ یہ محض ایک قدرت کا کرشمہ ہے ۔
زمین سے رسنے والے قطروں سے کنویں میں پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے جو ہمارے استعمال میں آتا ہے ۔ کنویں ایک عرصہ بعد خشک بھی ہوجاتے ہیں لیکن زم زم کے کنویں کی دیواروں سے جو جھرنے پھوٹتے نظر آتے ہیں اور پانی ابلتا ہے اس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ جیسے کوئی پانی موٹر کے ذریعہ پمپ کررہا ہے ۔بہرحال ہزاروں سال سے اس قدر تیزی سے زمین سے پانی کا نکلنا اور اس قدر بڑی مقدار میں نکلنا یہ ایک کرشمہ قدرت ہے جس کے آگے انسانی عقل دنگ ہے ۔ بتایا گیا کہ زم زم کا کنواں 98 فٹ گہرا اور اس کا قطر 9 فٹ ہے ۔ روئے زمین پر زم زم کے کنویں کی طرح کوئی اور مثال ہے نہ ہماری ترقی یافتہ سائنس ایسی کوئی مثال پیش کرنے کا تصور ہی کرسکتی ہے ۔

مسلمانان عالم کے مرکز مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ سے 20 میٹر دور مشرق کی جانب کوئی 4000 (چار ہزار) سال قبل پھوٹا یہ چشمہ آج تک مسلسل جاری ہے اور ہزاروں ، لاکھوں افراد کو سیراب کررہا ہے ۔ مہمانان خدا کی ضرورت پوری کرتا ہے اور مسجد نبوی شریف کے تمام زائرین بھی یہی پانی پیتے ہیں ۔ زم زم کے کنویں سے عام دنوں میں ہر روز سو مکعب میٹر پانی استعمال کیلئے حاصل کیا جاتا ہے ، جبکہ جمعہ کے روز یہ مقدار دگنی ہوجاتی ہے ۔ حج کے سیزن اور ماہ رمضان میں یہ مقدار 1000 مکعب میٹر سے تجاوز کرجاتی ہے ۔ زم زم کا پانی نہ صرف حجاج اور زائرین کے استعمال میں آتا ہے ، بلکہ مقامی افراد ہزاروں cans پانی پینے کیلئے گھر لے جاتے ہیں ۔ جبکہ زائرین وحجاج بھی زم زم کے کین اپنے ساتھ اپنے اپنے ملک لے جاتی ہیں ۔ حرم مکی کے اندرونی حصوں میں 90 مقامات پر حجاج اور زائرین کیلئے پینے کے انتظام ہیں ۔ جبکہ سو سے زائد ٹونٹی یا نلکے بیرونی صحنوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ مہمان رب العزت کثیر مقدار میں زم زم پیتے ہیں کیونکہ احادیث شریف اور روایتوں میں اس کے بے شمار فوائد بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زم زم پینے والا کسی تکلیف یا بیماری سے شفا کی دعا کرکے زم زم پئے گا تو اسے شفا حاصل ہوگی ۔ ایک حدیث کے مطابق زم زم اس سرزمین کا بہترین پانی ہے ۔ یہ نہ صرف پانی ہے بلکہ یہ غذائیت سے بھرپور پانی ہے ۔

1982 ء میں حکومت نے زم زم کے آسان حصول اور تقسیم کیلئے ایک خصوصی ادارہ قائم کیا جو زم زم کے تقسیم کی نگرانی کرتا ہے ۔ آب زم زم پر عربی ، انگلش ، فرنچ ، اردو ، ترکی اور کچھ دیگر زبانوں میں ایک ڈاکومنٹری فلم بھی تیار کی گئی ہے جس میں زم زم سے شفا اور اس کے فوائد تفصیلی طور پر دکھائے گئے ہیں ۔ یہ فلم youtube پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ کنگ فیصل کے دور (1975) میں زم زم کے کنویں کو پاٹ کر زمین کے برابر کیا گیا تھا تاکہ مطاف کے رقبے میں اضافہ کیا جاسکے ۔ زم زم کے کنویں کو ایک تہہ خانہ کی شکل میں نیچے کیا گیا اور اس کے اطراف شیشے (glass) کا فریم لگایا گیا تھا جس میں سے زائرین کنواں دیکھ سکتے تھے ۔ 1990 کی دہائی تک بھی لوگ سیڑھیوں کے ذریعہ نیچے جا کر کنواں دیکھ سکتے تھے ۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں حجاج اور زائرین زم زم کے کنویں میں سکے اور دیگر دھاتی اشیاء ڈالتے تھے ۔ جو ایک مرتبہ کنویں کی صفائی کے دوران نکالے بھی گئے ۔ یہ صفائی کا کام 17 جمادی الاول 1399ھ (1979) میں کی گئی تھی ۔

بتایا گیا کہ ایک مصری محقق نے اپنی کتاب ’’الرحلت الحجازیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ زم زم کی خصوصیات میں سوڈیم ، کیلشیم ، پوٹاشیم ، اور کلورائیڈ نمک موجود ہے ۔ اس کے علاوہ زم زم sulphric اور nitric acid بھی موجود ہے ۔ زم زم کا کنواں کبھی جراثیم کی وجہ سے آلودہ نہیں ہوا ۔ نہ آج اس پانی کے استعمال سے کسی کو کوئی تکلیف یاکوئی طبی شکایت ہوئی ۔ زم زم میں موجود کیمیات سے یہ پانی ہمارے منرل واٹر سے بھی زیادہ بہتر ، صاف شفاف ہے اور زم زم میں غذائیت بھی ہے ۔ زم زم کا کوئی الگ رنگ ہے نہ اس میں کسی قسم کی بو پائی جاتی ہے ۔ لیکن اس کا مزہ عام پانی سے مختلف ہے ۔

زم زم سینکڑوں برس سے حجاج و زائرین اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وطن میں عزیز و اقارب کو چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں بطور متبرک تحفہ دیتے ہیں ۔ آج بھی ہر حاجی اپنے ساتھ مکہ مکرمہ سے زم زم کا ایک can ضرور لے جاتے ہیں ۔ انڈین قونصلٹ جدہ نے ہندوستانی حجاج کو اپنے ساتھ یہ وزنی زم زم can اٹھا کر لے جانے کی زحمت سے بچانے کیلئے اس سال یہ انتظام کیا کہ ہندوستان کے جن جن شہروں سے حجاج کی فلائٹس جدہ آئیں اس شہر کو اتنی تعداد میں زم زم کے cans اڈوانس میں فلائٹ کے ذریعہ قبل از وقت ایرپورٹس روانہ کردئے ۔ اب حجاج واپسی پر ایرپورٹ سے اپنا can حاصل کرکے گھر لے جاسکتے ہیں ۔ یہ ایک اچھی سہولت قونصل جنرل جدہ نے ہندوستانی حجاج کیلئے مہیا کی ہے ۔ ہزاروں برس سے لوگوں نے زم زم کو مختلف نام دئے ہیں ۔ ایک مطالعہ کے مطابق زم زم کو 54 نام دیئے گئے ہیں مگر اس کا سب سے معروف اور زبان زد عام نام زم زم ہی ہے ۔
آخر میں حجاج و زائرین سے ایک گزارش پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ آب زم زم ایک مقدس پانی ہے ۔ ہم اپنے ملکوں میں جب کم مقدار میں اسے تحفتاً پاتے ہیں تو اسے بڑی عقیدت و احترام سے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے ایک ایک قطرے کا احترام کرتے ہیں شیشی میں بچی آخری بوند کو بھی ہتھیلی میں ڈال کر سر آنکھوں سے لگالیتے ہیں ۔ یہ اس کا حق بھی ہے لیکن کعبتہ اللہ میں حجاج اور زائرین جنہیں زم زم وافر مقدار میں حاصل رہتا ہے وہ اس کو ضائع کرتے ہیں ۔ فرش پر بے جھجک گراتے ہیں ۔ زم زم ایک مقدس پانی ہے ۔ ہر حال میں ہر مقام پر ۔ چاہے وہ کعبہ شریف کا احاطہ ہو یا اپنا ملک ۔ زم زم کو قبلہ رخ اور احتراماً کھڑے ہو کر پینے کا اسی لئے حکم ہے ۔ جب جب ہماری حرم مکی پر حاضری ہوئی ہے ، ہم نے دیکھا کہ حرم مکی میں جہاں جہاں حجاج اور زائرین زم زم پینے کیلئے نل taps لگے ہیں ، لوگ وہاں زم زم پیتے ہیں اور کچھ لوگ اسے اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں لیکن اس عمل سے وہ زم زم کے احترام کا خیال نہیں رکھتے ۔ بڑی مقدار میں سر پر سے ڈالنے میں کافی زم زم فرش پر گرجاتا ہے اور فرش گیلا ہونے سے لوگوں کے پھسل پڑنے کا احتمال رہتا ہے ۔زم زم سر پر سے ڈالا جاسکتا ہے ۔ اگر کم مقدار میں ڈالا جائے تو وہ نیچے نہیں گرتا اور زم زم ضائع ہونے سے بچتا ہے ۔ کسی بھی پانی کو ضائع کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے پھر یہ تو قابل احترام پانی زم زم ہے ۔ حجاج اور زائرین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے ۔
knwasif@yahoo.com