آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کو قرض فراہم کرنے کا بینکوں پر لزوم

حیدرآباد ۔ 31 ۔ مارچ : ( نمائندہ خصوصی ) : قرضوں کی فراہمی میں بینکس مسلم اقلیت کے ساتھ انتہائی معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ مرکزی و ریاستی حکومتیں بظاہر اقلیتوں کیلئے ہزاروں کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کرتی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت اس کے ثمرات سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو محروم رکھا جاتا ہے ۔ جب کہ اقلیتوں میں شامل جین ، پارسیوں اور سکھوں کو قرض کی فراہمی میں بینکس کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے لیکن بات جب مسلمانوں کو قرضہ جات فراہم کرنے کی آتی ہے تو ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بینک عہدیدار بھی فرقہ پرستوں کی طرح مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ غریب مسلمان ان قرضوں کے ذریعہ کوئی کاروبار شروع کرکے معیشت مستحکم کریں اور دیگر ابنائے وطن کی طرح ان میں بھی خوشحالی آئے ۔ مرکزی و ریاستی حکومتیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں اکثریت اقلیت سب کا خوشحال ہونا ضروری ہے اگر مسلمانوں کو ترقی کے ثمرات سے محروم رکھا جاتا ہے تو ملک کی ترقی و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ تلنگانہ کے ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن نے اقلیتی ، بیروزگار نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنے کی خاطر خصوصی اسکیم کے تحت تین لاکھ روپئے تک قرض دینے کی اسکیم کو روبہ عمل لایا ہے ۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ درخواست گذار کو کسی بنک سے یہ تیقن حاصل کرناضروری ہے کہ وہ ( بینک ) اسے قرض فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تب ہی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن ان قرضوں کے لیے ایک لاکھ روپئے تک سبسیڈی د ے گی ۔ ریاستی اقلیتی کارپوریشن نے اس قرض کے لیے عمر کی حد 40 سال سے بڑھاکر 55 سال کردی ہے ۔ لیکن زیادہ تر درخواست گذاروں کا کہنا ہے کہ کیا عمر کی حد میں اضافہ سے اقلیتوں کو بناء کسی رکاوٹ کے قرض حاصل ہوجائیں گے ؟ اس سوال کا جواب شائد حکام کے پاس بھی نہیں اس لیے کہ بنکوں سے قرض کے لیے ایک سرکاری ملازم کی ضمانت دینی ضروری ہے ۔ اگر اس شرط کو ختم کرتے ہوئے قرض دیا جاتاہے تو تب بے شمار اقلیتی نوجوانوں کو فائدہ ہوسکتا ہے ورنہ ان کی چپلیں اور جوتے بینکوں و اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے چکر کاٹتے کاٹتے گھس جاتے ہیں ۔ اگر کسی سرکاری ملازم کی بجائے یہ ضمانت اقلیتی مالیاتی کارپوریشن خود لیتا ہے تو اس صورت میں اقلیتوں کو قرض کی فراہمی میں بینکس ٹال مٹول سے کام نہیں لے سکیں گی۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ہندوستان میں یہ سب سے پسماندہ ہیں ان کی تعلیمی و معاشی پسماندگی کا اندازہ انتہائی پسماندہ سمجھے جانے والے درج فہرست طبقات و قبائل بھی نہیں کرسکتے ۔ اس ضمن میں سچر کمیٹی رپورٹ 2006 اور رنگناتھ مشرا کمیٹی رپورٹ کافی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مسلماں ہندوستان میں سب سے زیادہ نظر انداز کردہ محروم اور پسماندہ ہیں ۔ حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں کارپوریٹ اداروں کے ایکزیکٹیوز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 17 کروڑ سے زائد ہے لیکن کارپوریٹ ایکزیکٹیوز میں ان کی تعداد صرف ایک فیصد ہے ۔ جہاں تک ہندوستان میں اقلیتوں کی آبادی کا سوال ہے مردم شماری 2001 کے مطابق اقلیتوں میں مسلمانوں کی آبادی 69 فیصد ، عیسائی 12 فیصد ، سکھ 10 فیصد اور دیگر اقلیتیں 9 فیصد ہیں ۔ لیکن اب تک کیے گئے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی کہ اقلیتوں میں 69 فیصد آبادی ہونے کے باوجود مسلمانوں کو بینکوں نے جان بوجھ کر قرض نہیں دئیے ۔ اس کے برعکس جین ، سکھوں اور پارسیوں کو بڑے پیمانے پر قرض دئیے گئے ۔ حال ہی میں مرکزی حکومت نے بینکوں کے نام ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ترجیحی شعبوں میں اقلیتوں کو 15 فیصد قرضے جات فراہم کریں اگر بینکس اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو تمام اقلیتوں کے لیے 6 فیصد کا جو کوٹہ مقرر کیا گیا ہے اس میں 4 فیصد قرض مسلمانوں 0.7 فیصد عیسائیوں اور 0.6 فیصد قرض سکھوں کو فراہم کرنا بینکوں کیلئے لازمی ہوگا ۔ ایسے میں ہمارے شہر اور اطراف کے بینکوں سے قرض حاصل کرنے مسلمانوں کو ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ بینکوں کے حکام کو یہ بتانا چاہئے کہ قرض کا حصول ان کا حق ہے اور اگر بینکس ٹال مٹول سے کام لیں تو انہیں جمہوری طریقہ کار اپنانا ہوگا تب ہی بینکس حکام سدھریں گے ۔