آئینے کچھ تو بتا

نفیسہ خان
وہ اپنی بدقسمتی کی ردا اوڑھے ایک نیم تاریک کمرے کے کونے میں ننگے فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی جیسے جیتی جاگتی عورت نہ ہو بلکہ کوئی پتھر کی مورت ہو۔ اسکا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے یکسر عاری تھا ، آنکھیں کھلی تھیں لیکن پتھرائی ہوئی سی لگ رہی تھیں ، میں نے کمرے میں قدم رکھا اور بجلی کے بلب کا سوئچ آن کرنا چاہا وہ اپنی جگہ پر تڑپی مچلی اور اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپالیا ، میرا جی تو چاہتا تھا کہ دوڑ کر جاؤں اور اس سے لپٹ کر اتنا روؤں کہ وہ بھی پتھر سے انسان بن کر میرے ساتھ آنسو بہانے پر مجبور ہوجائے لیکن میں نے ضبط و تحمل سے کام لیکر خود کو اور امنڈ آنے والے آنسوؤں کو سنبھالا اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے لپٹالیا ۔ اسکی پیشانی چوم لی اس نے پوری طرح اپنا سر اٹھایا اور ایک لمحے کیلئے میں لرز اٹھی ، سانس لینا اگر زندگانی ہے تو یقیناً زندہ تھی لیکن یہ وہ بی بی جان نہ تھی جسے اسکی ماں محمدی آپا نے اپنی اکلوتی لاڈلی بیٹی کی شادی کرنے میں دیر کرنا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ سارے رشتے داروں ، پڑوسیوں نے لاکھ سمجھایا تھا کہ لڑکی دینی مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہی ہے ، اکیس پارے اس نے حفظ کرلئے ہیں باقی پاروں کو بھی حفظ کرلے اور تعلیم کی تکمیل ہوجائے تو شادی کردینا ، قانونی نقطہ نظر سے بھی تو اٹھارہ سال کی عمر کا ہونا لازمی ہے ، لیکن محمدی آپا اپنی ضد پر اڑی ہوئی تھیں اور چاہتی تھیں کہ شادی اس سال ہو کر رہے کیونکہ وہ اپنی صحت کو لیکر متفکر تھیں ۔ بلڈ پریشر ، ذیابیطس کے ساتھ دوسرے عوارض میں بھی مبتلا تھیں ،

ان کے بعد اس یتیم بچی کی فکر کون کرے گا ، ان کے نظروں کے سامنے ، ان کی قلیل جمع پونجی سے بی بی جان گھر گرہستی سے لگ جائے تو وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے بعد چین کرسکیں گی ۔ بی بی جان دبلی ، پتلی ، سانولی سی لڑکی تھی ، بڑی بڑی آنکھیں ، گھنیری سیاہ پلکیں ، ستواں ناک میں پڑی سونے کی بالی ، گھنے بالوں کی کمر سے نیچے لہراتی چھوٹی ، ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ چرکی بلا کھیلتے ہوئے اس کی چوٹی کبھی پیٹھ پر تو کبھی سینے پر مچلتی رہتی تھی اور محمدی آپا اپنی بیٹی کے چہرے کی ملاحت و مٹھاس دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتارا کرتی ۔ معمولی سوتی لباس میں بھی وہ بہت پیاری لگتی تھی ۔ محمدی آپا پان کی رسیا تھیں ، ہمیشہ ان کے تخت پر پاندان ہوا کرتا تھا ۔ بی بی جان ان کے قریب ہوتی تو چٹکی بھر پان بی بی جان کے منہ میں ڈال دیتیں ۔ سرخ ہونٹ اس کے چہرے کو اور جاذب نظر بنادیا کرتے تھے ۔ بی بی جان کیلئے محمدی بیگم نے اپنے محدود وسائل اور معاشی پسماندگی کی بنا پر داماد ڈھونڈا بھی تو ایسے خاندان کا جو نام کے مسلمان تھے ، گھر میں کوئی دینی ماحول تھا نہ نماز روزوں کی پابندی ، نہ طور طریقے مومنوں جیسے تھے ، ذاتی مکان اور دکان تھی ، گھر میں معاشی تنگ دستی نہ تھی اور جہیز کی زیادہ مانگ بھی نہ تھی اور سب سے بڑی بات محمدی آپا کے لئے یہ تھی کہ بی بی جان کا سسرال اسی محلے کا تھا جہاں وہ خود رہتی تھیں ۔ آج بی بی جان کی شادی کو چوبیس سال گذر گئے ہیں ، ساس سسر اور ماں محمدی آپا اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ، شوہر مئے نوشی کا عادی ہوگیا اور بی بی جان تین بیٹیوں کی ماں بنکر گھر کی بڑھتی ضروریات کی تکمیل کیلئے گھر گھر پھر کر بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کرچکی ہے ۔ ہمارے گاؤں ، ہمارے محلوں میں ہم سواری کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ روزمرہ ہماری ڈیوٹی پر آنے جانے کیلئے ہم اپنے پیروں کو متحرک رکھتے ہیں اسلئے اکثر بی بی جان اور میرا آمنا سامنا ہوجایا کرتا تھا ۔ بچپن میں شوقیہ پان کھانے کی عادت اب پختہ ہوگئی تھی ۔ ہمیشہ ہونٹوں پر مسی کی دھڑی کی طرح پان کی لالی جمی رہتی اور اب یہ حال تھا کہ بی بی جان کا سراپا بعد میں نظر آتا لیکن ان کے زردہ و قوام کی تیز مہک ان کے آس پاس ہونے کی اطلاع پہلے دیدے ، نقاب چہرے سے نہ بھی اٹھا ہو تو معلوم ہوجاتا کہ برقعے میں کوئی اور نہیں بلکہ بی بی جان ہے ۔ ان کے گھر ملاقات کو جائیں تو وہ پہلے پان پیش کیا کرتی تھیں جوان بیٹیاں ماں پر خفا ہوتیں کہ چائے کا انتظار تو کیا ہوتا ۔ شوہر بھی پان کی اس عادت سے نالاں تھا کہ بکری کی طرح بس پان چبائے جاتی ہیں ، ہر بات ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے

لیکن جب وہ اپنی میخواری نہیں چھوڑ سکتے تھے تو بیوی کو بھلا اپنے شوق اپنی عادت کی تکمیل سے کیسے روک سکتے تھے ۔ ویسے شوہر کونسا اچھا جیون ساتھی ثابت ہوا تھا اسکے ستم سہنے کے باوجود اس نے اپنی بچیوں کی خاطر چپ سادھ لی تھی لیکن اکثر خموشی کا عذاب سوہان روح بنتا جارہا تھا ۔ زندگی بھر کا سلگنا اسکا نصیب تھا ، دل شکن گفتگو شوہر کا وطیرہ تھا ، زہر میں بجھے الفاظ ، زہریلی نظریں ، گھر کا آلودہ ماحول اور بی بی جان کی بے مائیگی ، شوہر کے جور و ستم کا سلسلہ لامتناہی تھا ، روزمرہ کے کربناک تجربے زندگی کو سمجھنے اور گذارنے کا سلیقہ خود بخود سکھادیتے ہیں ۔ اس لئے وہ ہر عمل میں استقلال و استقامت کی قائل تھی ۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ خواتین جذباتی فیصلے کربیٹھتی ہیں اور جلد بازی سے کام لے کر اپنی ازدواجی زندگی داؤ پر لگادیتی ہیں ۔ شوہر سے علحدگی اختیار کرلیتی ہیں  جسکا نتیجہ مستقبل میں خود ان کو اور ان کی اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے اور بی بی جان اپنی بیٹیوں کو جہاں دل و جان سے زیادہ چاہتی تھی وہیں انہیں اعلی تعلیم سے آراستہ کرکے ان کی خوش آئند پرسکون ازدواجی زندگی کے خواب دیکھا کرتی تھیں ۔ نامساعد حالات میں بھی ایک بیٹی کی شادی کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں لیکن گھریلو حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ شوہر کا ظالمانہ رویہ اور شک و شبہات اس کی زندگی کو دوزخ بنائے ہوئے تھے ، وہ اپنی پارسائی کی قسمیں کھایا کرتی اور بے رحم شوہر شراب کے نشے میں اسے زدو کوب کرتا رہتا ۔ ایسی ایسی تہمتیں ، ایسے ایسے الزامات کہ جس کی تصدیق وہ کرنا چاہے تو ممکن نہ تھا ، خاندان میں کوئی پرسان حال نہ تھا ، آنسو پونچھنے والی صرف بیٹیاں ہی تھیں جو اس کا دکھ درد جانتی تھی اور مصلحتاً چپ تھی ۔ ایک میں تھی جو حوصلہ و تسلی دینے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی پھر بھی اس کا خیال تھا کہ
اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دینا
ہاتھ رکھ دیتی ہے دل پر تیری باتیں اکثر
ایک بار مجھے مقامی سرکاری دواخانے کی تنقیح کے لئے جانا پڑا کیونکہ تب میں یہاں کے Govt. Hospital Development Society کی ممبر تھی ، میں نے عورتوں کی لمبی قطار میں بی بی جان کو دیکھا جو کمزور معلوم ہورہی تھی ، میں مزاج پرسی کے لئے رک گئی ، اس نے بتایا کہ اسکے منہ میں معدے کی گرمی سے چھالے آگئے ہیں جو کم نہیں ہورہے ہیں اور کھانا کھانے میں تکلیف ہورہی ہے ۔ اس لئے دوا لینے آئی ہے ۔ وہ دوا لے کر چلی گئی اور ہم اپنے کام میں مصروف ہوگئے ۔ بی بی جان رات دن بیٹیوں کی تعلیم  اور ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے ہلکان ہورہی تھی ، ایک چیز کی تکمیل ہوتی تو دوسرے اخراجات سامنے آتے ۔ گھر گھر قرآن کی تعلیم دے کر چار پیسے اور زیادہ ملیں اور بیٹیاں پڑھ لکھ جائیں ان کی وقت پر شادیاں ہوجائیں یہی اس کی خواہش تھی لیکن صحت ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ پھر ایک ماہ بعد وہ دواخانے میں اسی شکایت و تکلیف کے ساتھ کھڑی تھی ۔ اس نے منہ کھول کر چھالے بتائے اور مجھے میرے پاؤں تلے زمین کھسکتی محسوس ہونے لگی کیونکہ یہ ہرگز معمولی چھالے نہیں تھے بلکہ کینسر کی ابتداء کا اعلان تھا ۔ ہمارا گاؤں طبی سہولیات اور ماہر ڈاکٹروں سے محروم ہے اور بی بی جان کو شرابی شوہر کی ذمہ داری پر چھوڑ کر علاج کیلئے شہر جانے تیار نہ تھی ۔ ہمارے بہت مجبور کرنے پر وہ اپنے ایک رشتہ دار کے پاس آروگیہ شری کارڈ لیکر مفت علاج کیلئے گنٹور پہنچی اور بعد معائنہ جو رپورٹ آئی وہ میرے شبہات کی تصدیق کررہی تھی ۔ بی بی جان کے سیدھے گال میں جو زردہ قوام کا بیڑھ ہمیشہ دبا ہوتا تھا وہیں کینسر نے اپنا گھر بنالیا تھا لیکن ڈاکٹروں نے ہمت بندھائی اور آپریشن ہوا ۔ اس کے گردن سے اس کی جلد کا کچھ حصہ نکال کر گال پر لگایا گیا ، بظاہر صحت سنبھل ہی گئی ، روزمرہ کے کام کاج وہ انجام دینے لگی تھی ۔ زندگی پھر ایک بار اپنے ڈھب پر چلنے لگی ، دوسری بیٹی کی شادی کی تگ و دو شروع ہوگئی تھی لیکن بمشکل آٹھ ماہ گذرے ہوں گے کہ بیماری اپنی پوری شدت سے عود کر آئی ، بیچاری بی بی جان کی زندگی میں کوئی دن کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جو آسودگی جذبات کا پیام لایا ہو ۔ شوہر سے سوائے ذلت ، تذلیل کے کچھ نہ ملا اور ہر لفظ میں کانٹے کی چبھن اور ہرجملہ ایک تازیانہ تھا وہ مجھ سے کہتی باجی

ہر اک شب ہر گھڑی گذرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسا نہیں ہوتا
ایذا رسانی شوہر کا شیوہ تھا ، میری مردم شناس آنکھیں اس بہروپئے کو اس وقت ہی پہچان چکی تھیں جب وہ دلہا بن کر بی بی جان کی چوکھٹ پر آیا تھا ۔ اسی دن اس کی قسمت پھوٹ گئی تھی ، اب جو نیم تاریک کمرے میں میں نے بی بی جان کو دیکھا تھا اسے دیکھ کر میں اسے کیا تسلی دیتی ۔ تقدیر نے صف ماتم بچھادیا تھا ۔ اب میرے پاس کہنے کو الفاظ ہی نہیں تھے ۔ اس کی آنکھوں و لہجے سے حسرت نمایاں تھی وہ گم صم میرے سامنے پیکر التجا بنی بیٹھی تھی اور میں بے بس و لاچار اسکی بیچارگی کو دیکھ رہی تھی ۔ میرے کانوں میں بے شمار آوازیں گونج رہی تھیں ۔ اس کی قرأت ، اس کا لحن میرے کانوں میں رس گھول رہے تھے ۔ وہ حافظ قرآن تھی پھر بھی نہ آہ اثر دکھاسکی نہ دعا قبولیت کا درجہ پاسکی ۔ چند ہفتے اور گذرے ، حالت اور ابتر ہونے کی اطلاع ملی جب میں ملنے پہنچی تو موت اس کی سرہانے کھڑی تھی ۔ اب نہ تو درد سے چیخ و چلا سکتی تھی نہ لاغر ہاتھ پیر میں اتنی قوت تھی کہ تکلیف سے پٹخنا تو دور کی بات ہے انگلیاں تو ہلا نہ سکتی تھی ، نہ آنکھوں میں زندگی کے آثار تھے ، اس کو جان بلب دیکھ کر درد و کسک کی ایک لہر رگ رگ میں دوڑ گئی ۔ بے ساختہ دل سے دعا نکلی کہ میرے معبود یا تو اس کی تکلیف کم کرے یا اسے تکلیف سے نجات دیدے ۔ وہ کچھ کہنے کیلئے بے چین تھی ۔ اس پر شوہر کا توہین آمیز طرز تخاطب اور سلسلہ گفتگو اتنا دل آزار کہ کینسر کے زخم سے زیادہ تکلیف دہ تھا اور دل کا تاب لانا مشکل تھا ۔ پھر بھی وہ بیٹی کی شادی کی تاریخ گذرنے تک جینے کی خواہاں تھی ۔ مضمحل مسکراہٹ ، اداس آنکھیں ، اڑا اڑا سا رنگ بے کسی کی تصویر بنی وہ میرے سامنے تھی ۔ اور پھر وہ موت سے لڑتے لڑتے یہ جنگ ہار گئی ۔  جب میں اسکے آخری دیدار کو پہنچی تو اسکی صرف بند دکھائی دے رہی تھیں باقی پورا چہرہ پٹیوں بلکہ gum tape میں لپیٹ دیا گیا تھا ۔ میری آنکھوں میں سوالیہ نشان دیکھ کر بی بی جان کی لڑکیاں لپک کر میری طرف بڑھیں اور مجھے گھسیٹ کر ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئی اور التجا کرنے لگی کہ اللہ کے واسطے غسل دیتے وقت یہ چہرے کے اطراف لپٹے ہوئے چوڑے gum tape کو نہ نکالئے گا ۔ میں نے اپنی محدود شرعی معلومات کے مطابق بتایا کہ غسل سے پہلے نکالنا شاید ضروری ہوگا مگر تم لوگ ٹیپ نہ نکالنے پر اتنا اصرار کیوں کررہی ہو؟ لڑکی مجھے بی بی جان کے سرہانے لے آئی ، موجود خواتین کے سامنے آڑ لیکر اس نے ذرا سا ٹیپ بمشکل کھینچ کر ہٹایا اور میں سرتاپا لرز گئی ۔ سینکڑوں کو میں نے دم توڑتے دیکھا ہے ، کئی عورتوں کواپنے ہاتھوں غسل دیا ہے ، کبھی بے انتہا غم سے دوچار بھی ہوئی ہوں لیکن آج اس وقت میرے ہوش و حواس ٹھکانے نہ تھے جی چاہتا تھا کہ اس جگہ سے بھاگ کھڑی ہوں ، آزار و الم سے زیادہ بی بی جان کی لاش مجھ پر لرزہ طاری کررہی تھی۔ بی بی جان کے کان ، ناک ، منہ کے زخموں سے بے شمار سفید کیڑے باہر نکلنے بیتاب تھے ۔ سنا کہ دو چار دن سے یہی حال تھا اور لڑکیاں اس کے تدارک کے لئے ماں کے چہرے کو با ربار ٹیپ سے اسی طرح لپیٹ رہی تھیں کہ یہ بستر پر نہ آجائیں اور پھر گھر بھر میں نہ پھیل جائیں اور عیادت کو آنے والے دنیا بھر کی باتیں بنائیں اور کراہیت محسوس کریں ۔ کیاکوئی اس طرح ٹیپ لپیٹ سکتا ہے کہ سانس لینا بھی دوبھر ہوجائے ۔ یوں بھی ان دنوں اس طرح کے مریضوں کی عیادت کو لو گ آتے ہیں تو دور ہی دور سے حال پوچھ کر لوٹ جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بیماری متعدی نہیں ہوتی اسلئے کس نے دیکھا کہ بی بی جان آخری لمحوں میں سانس لینے کو بھی ترس گئی ہیں ۔ ایک حافظ قرآن ، پاک طینت ، باوصف  ، بے داغ کردار خاتون ہونے کے باوجود اس کی بے کس زندگی و موت دیکھئے کہ یتیم و یسیر  ، نہ بھائی نہ بہن ، نہ قریبی رشتہ دار ہی رہے ۔ تاحیات پرسکون زندگی کی متمنی رہی ، ترستی رہی لیکن اس کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن رہا ۔ درد انگیز حیات اسکا نصیب بنی رہی ۔ موت سے چند گھنٹے پہلے بی بی جان جیسی ماں کی وا آغوش سے بیٹیاں کتراتی رہیں اور گہری سانس لینے سے تک محروم کردیا ۔ ہم ناک یا منہ سے سانس لے پاتے ہیں اگر یہی بند کردئے جائیں تو پھر کوئی کس طرح زندہ رہ پائے گا ۔ لڑکیوں نے دیہاتی عورتوں کی بددعائیں اور کوسا کاٹی سن رکھی تھی جیسے ’’منہ میں کیڑے پڑیں‘‘ ’’پانی نصیب نہ ہو‘‘ ۔ یہی باتیں ان کی نیک طینت ماں پر صادر نہ ہوجائے اور ان کی ماں گاؤں بھر میں موضوع گفتگو نہ بن جائے یہی ان کا خیال تھا ۔ اس کے سوا کچھ اور عندیہ نہ تھا لیکن کیا جو کچھ ہوا اس کے لئے شرمندگی ، پشیمانی یا اپنی خطاؤں پر نادم ہونا کسی گذر جانے والے سانحے کا مداوا ہوسکتا ہے لین چند بچی کھچی سانسوں کو چھین لینا جرم نہیں ؟ میری کہانیاں کوئی من گھڑت قصے نہیں بلکہ احوال واقعی ہیں ۔ ایسے تکلیف دہ دردناک مناظر میری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور میں اپنی مجبوری و لاچاری پر افسوس نہیں کرتی بلکہ لعنت بھیجتی ہوں کہ ہم انسان ہیں جو بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن تھوڑے پر اکتفا کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ نہ ہم دوسروں کو سزا دے سکتے ہیں نہ خود اپنی سزا کا خوف کہ اللہ تو سب دیکھ رہا ہے ۔ بس اس سے تو جزا کی امید ہی رکھتے ہیں ۔ میرے سامنے بی بی جان کی لاش پڑی تھی اور ایک مشفق ماں جو تمام عمر اپنی بیٹیوں کیلئے تگ و دو کرتی رہی ان سے پوچھ رہی تھی ۔
لاکھ دنیا سے کہو کہ تم میرے قاتل نہیں
آئینے کے سامنے پر خود کو کیا سمجھاؤگے؟