امریکہ کی جانب سے بی جے پی کی جاسوسی سے متعلق انکشافات نے مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے ہلچل پیدا کردی ہے۔ حکومت نے اس مسئلہ پر امریکی سفارتی عہدیدار کو طلب کرتے ہوئے احتجاج درج کرایا اور تفصیلی رپورٹ طلب کی۔ دوسری طرف وائیٹ ہاؤز کو یقین ہے کہ جاسوسی کے اس انکشاف کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ عام طور پر کوئی بھی ملک ان ممالک پر نظر رکھتا ہے جو اس کے مفادات کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ہوں ۔ عام فہم انداز میں کہیں تو دشمن ممالک کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے لیکن امریکہ کی جانب سے بحیثیت سیاسی جماعت بی جے پی کی جاسوسی کا معاملہ یقیناً افسوسناک ہی نہیں بلکہ تشویش کا باعث ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے انکشاف کے مطابق دنیا کی 6 سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کی گئی جن میں ہندوستان سے بی جے پی کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مصر کی اخوان المسلمین شامل ہیں۔
امریکی عدالت نے قومی سلامتی ادارہ (NSA) کو جاسوسی کی اجازت دی۔ یہ جاسوسی عام نوعیت کی نہیں بلکہ اس میں فون ٹیپنگ اور مواصلاتی پیامات پر نظر رکھنا شامل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2010 ء میں اس وقت یہ جاسوسی کی گئی جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی، آخر امریکہ بی جے پی کی سرگرمیوں پر خفیہ نظر رکھتے ہوئے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ بی جے پی اقتدار کی سمت پیش قدمی کر رہی ہے، لہذا اس پر نظر رکھی جائے۔ واشنگٹن پوسٹ میں ہندوستان سمیت بعض دیگر ممالک کی جاسوسی کا بھی انکشاف کیا ہے۔ جاسوسی حکومت کی ہو یا کسی پارٹی کی یہ ہندوستان کے داخلی امور میں کھلی مداخلت ہے۔ امریکہ ہو یا کوئی اور ملک کسی کو یہ اختیار نہیں کہ کسی کے نجی اور داخلی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ امریکہ نے جاسوسی کو جائز قرار دینے کیلئے ایک قانون بھی تیار کرلیا ہے جس کا سہارا لیکر کسی کو بھی ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ آخر ہوتا کون ہے اور کس نے اسے یہ اختیار دیدیا کہ داخلی معاملات اور رازدارانہ امور جاننے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی دوسرا ملک امریکہ کے خلاف اس طرح کی جاسوسی کرے تو کیا وہ برداشت کرے گا ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ اگر وہ ملک کمزور ہو تو اس پر حملے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
امریکہ کا یہ اقدام نہ صرف عالمی سطح پر ممالک کے درمیان بقائے باہم کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ممالک کے درمیان ماحول کشیدہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ بی جے پی کی جاسوسی کے مسئلہ پر حکومت نے جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا اور سرکاری سطح پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، اس نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑدی ہے۔ اگر اس معاملہ میں نریندر مودی حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے جامع تحقیقات کا حکم دینا چاہئے ۔ جاسوسی سے متعلق تفصیلی رپورٹ امریکہ سے حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ سیاسی مبصرین کو جاسوسی کے اس معاملے کے درپردہ کچھ اور ہی دکھائی دے رہا ہے۔ عام طور پر جاسوسی اس کی جاتی ہے جو مخالف ہو لیکن بی جے پی کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ سابق میں جن سنگھ اور آج کی بی جے پی امریکہ کی فطری حلیف ہے۔ مودی کو ویزا کی عدم اجرائی کے مسئلہ پر ناراضگی کے سواء بی جے پی نے امریکی پالیسیوں پر کبھی اختلاف نہیں کیا۔ پنڈت جواہر نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سابق سوویت یونین کے حلیفوں میں شمار کئے جاتے تھے لیکن جن سنگھ اور بی جے پی ہمیشہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کے قائل رہے۔ پھر آخر کیا بات ہوگئی کہ امریکہ اپنے دوست کی جاسوسی پر مجبور ہوگیا ؟
حالیہ عام انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم ، نریندر مودی کے پروجیکشن کے انداز کو دیکھ کر مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ نے بی جے پی کے فائدہ کیلئے جاسوسی کی تھی ۔ نیشنل سیکوریٹی ایجنسی کے ذریعہ امریکہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر ہندوستان میں بی جے پی اور اس کی قیادت عوامی سطح پر ابھرنے میں ناکام کیوں ہیں ؟ امریکہ نے ہوسکتا ہے کہ جاسوسی کی بنیاد پر یہ حکمت عملی طئے کی کہ کس طرح بی جے پی قیادت کو ابھارا جاسکے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر نریندر مودی کو کچھ اس طرح ابھارا گیا جس طرح امریکی صدارتی انتخابات میں امیدوار کو ابھارا جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے پراجیکشن کی ذمہ داری امریکی کمپنی کو دی گئی تھی۔ امریکی کمپنی کا انتخابی مہم میں رول اور 2010 ء میں بی جے پی کی جاسوسی معاملہ کو الگ الگ دیکھا نہیں جاسکتا بلکہ یہ ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دونوں معاملات عوام کے ذہنوں میں کئی سوال پیدا کر رہے ہیں ، جن کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ نریندر مودی کی انتخابی مہم اور پھر اقتدار پر فائز ہونے کے بعد طرز حکمرانی کا جائزہ لیں تو اس میں امریکہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
صدارتی انتخابی طرز پر مہم اور پھر صدارتی طرز حکمرانی کی جھلک نریندر مودی میں صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ امریکی ادارہ نے الیکشن مینجمنٹ کو کچھ اس طرح منظم کیا کہ بی جے پی صرف 31 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے ملک کی 60 فیصد سے زائد پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کا الیکشن مینجمنٹ Imported تھا۔ امریکی جاسوسی مخالف بی جے پی نہیں بلکہ اسے اقتدار تک پہنچانے کیلئے تھی۔ ایک خاص حکمت عملی کے تحت یہ کھیل کھیلا گیا جو کہ آج جاسوسی کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جاسوسی سے متعلق تمام سربستہ راز عوام کے روبرو پیش کرے تاکہ حقائق اور سچائی سامنے آئیں۔ سیاسی مبصرین اس جاسوسی کو امریکہ اور بی جے پی کے درمیان میچ فکسنگ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب چونکہ 2010 ء کا یہ معاملہ منظر عام پر آیا ۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے مودی حکومت بناوٹی ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اور پھر رائے دہی کے بعد امریکی سفارتکاروں کی مودی سے ملاقات ابھی بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اتنا ہی نہیں ہندوستان کے انتخابات اور مودی کی مہم اور تقاریر سے اوباما کی دلچسپی سے متعلق کئی خبریں اخبارات کی زینت بن چکی ہے۔ جس اوباما کی مہم کے طریقہ کار اور طرز حکمرانی کو مودی نے آئیڈیل بنایا وہی اوباما امریکی عوام میں تیزی سے غیر مقبول ہوچکے ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اس انکشاف کے بعد ہند۔پاک کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کا ایک روزہ دورہ کیا۔ نریندر مودی کا یہ دورہ قومی اور بین الاقوامی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد نریندر مودی کا یہ پہلا دورہ کشمیر تھا۔ اگرچہ یہ دورہ صرف ترقیاتی سرگرمیوں تک محدود رہا لیکن کشمیری عوام کو امید تھی کہ ترقی اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے مودی ان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مودی نے دو پراجکٹس کے افتتاح کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت کشمیر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم کی کرسی سنبھالنے کے بعد نریندر مودی متنازعہ مسائل سے خود کو بچاتے رہے ہیں۔ کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 ، یکساں سیول کوڈ اور رام مندر اگرچہ بی جے پی کے ایجنڈہ کا حصہ ہے لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے ان مسائل پر زبان نہیں کھولی۔ پارٹی کے نو منتخب ارکان پارلیمنٹ سے خطاب نے بھی مودی نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور ارکان کو تنازعات سے بچنے کی صلاح دی ۔
حکومت اور پارٹی کی سطح پر غیر متنازعہ قائد کی طرح ابھرنے کی کوشش کرنے والے نریندر مودی کا ترقی کے ایجنڈہ کے ساتھ دورہ کشمیر ایک نپاتلا قدم ہے۔ کشمیر کی ترقی کیلئے پیشرو حکومتوں نے بھی کئی اعلانات کئے تھے لیکن وہ حقیقت نہ بن سکے۔ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو کشمیری عوام نئے سویرے کی امید کرنے لگتے ہیں۔ تاکہ تاریکی اور ظلمت کا خاتمہ ہو اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو۔ دورہ کشمیر کے موقع پر عوام کا اعتماد جیتنے کیلئے مودی کو چاہئے تھا کہ تمام مقامی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کرتے۔ سخت سکیوریٹی کے درمیان دو پراجکٹس کے افتتاح سے زیادہ اہمیت عوام کے دل جیتنے کی ہے۔ جب تک کشمیری عوام کے جذبات سے حکومت ہم آہنگ نہیں ہوگی ، اس وقت تک کوئی بھی ترقیاتی کام فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ عوام کو پراجکٹس کی نہیں بلکہ مرہم کی زیادہ ضرورت ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مئی 2006 ء میں سرینگر میں دوسری گول میز کانفرنس طلب کی تھی جس میں تمام فریقین سے مشاورت کی گئی۔ اس کانفرنس میں کئی وعدے کئے گئے لیکن وہ صرف کاغذت تک ہی محدود رہے۔ آخر جموں و کشمیر کے ساتھ حکومتوں کا رویہ ایسا کیوں ؟ نریندر مودی نے کشمیر کے دورہ کے موقع پر ترقی کے ذریعہ دلوں کو جیتنے ک بات کہی ہے ۔
(سلسلہ صفحہ 6 پر)